Home » شیرانی رلی » نسیم سید

نسیم سید

میں جا چکی ہوں

میں جا چکی ہوں
میں اپنے ہونے کے اورنہ
ہونے کے مخمصے سے نہ
جانے کب کی نکل چکی ہوں
تمہاری حد سے گزرچکی ہوں
یہ وقت کی ڈور ہے جو
چرخی سے میری
ہنس کے لپٹ رہی ہے
یہ رنگ جیسے ، پتنگ
جیسے حسین موسم ہیں ، تالیاں
جو بجا رہے ہیں
یہ گٹھڑیاں۔۔۔۔۔
تم سنبھالو اپنی
تمہاری چالا ک سرحدوں سے
نہ جانے کب کی میں جا چکی ہوں۔۔

وہ مٹی پال لگائی ہے

’’جو چیزیں تم کو بھیجی ہیں
یہ میرے بیتے موسم ہیں۔
یہ عشق ہیں
یہ پاگل پن ہیں
تم ہنسنا مت !!۔
یہ دارجلنگ کی چائے کی پتی
اس کی مہک
بالکل ویسی ہے
جیسے تمہارے حرف
تمہاری نظمیں، باتیں
ایک کتاب ہے
اس پر میرانام لکھا تھا
اپنے نام کو کاٹ دیا ہے
اور تمہارا نام لکھا ہے
’’ آنکھیں آہن پوش ہوئیں ‘‘کے
کچھ اوراق ہیں
اس کا خالق۔۔۔۔
یہ سمجھو ، بس یہ بھی پرانا عشق ہے میرا

اس کے لکھے
سارے اوراق کی کھوج ہے۔
شاید۔۔۔۔۔۔۔۔
میری کھوج میں اب تم بھی شامل ہوجا ؤ
میری پسند یدہ یہ کہانی
مجھکو تمہیں سنا نی تھی
اس کا خالق
یاسوناری۔۔۔۔۔۔۔
اس کی تحریروں کے عشق میں
تین سال تک جا پانی لفظوں کو سیکھا
عشق کہویا پا گل پن۔۔۔۔
اس بے ربطی سے عشق رہا
اس عشق میں سب برباد کیا
اب ہا تھ سنے ہیں مٹی میں
اور چا ک پہ ڈھلتی سو چیں ہیں اطراف مرے۔
اب ایک نئی بے چینی ہے
اک سوچ کو چاک پہ ڈھلنا ہے
اک پیا لہ ابھی بنا نا ہے۔۔۔۔۔
لیکن یوں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پیالے کی جو مٹی ہے۔۔۔۔
وہ مٹی پا ل لگا ئی ہے
اس مٹی کو۔۔۔۔۔
ست رنگی چھب میں گوندھنا ہے
وہ پیالہ تم کو بھیجنا ہے‘‘

ا یک اک آ رزو صد قےمیں اتا ری جا ئے

جشن نوروز بھی ہے
جشن بہارا ں بھی ہے
شب مہتا ب بھی
جشن مہہ تا با ں بھی ہے
سنتے ہیں
آ ج ہی جشن شہہ خو باں بھی ہے
آ ئیے اے دل بر با د
چلیں ہم بھی وہاں
جشن کی رات ہے
سو غا ت تو بٹتی ہوگی
اپنے حصے کی
چلیں ہم بھی ا ٹھا لیں سو غا ت
د رد کی
آ خرسینے سے لگا لیں سوغا ت
اور پھر یوں ہو
کہ جب شا م ڈ ھلے
اوس میں بھیگ کے
گل مہر کی خوشبو پھیلے
یا د کی چا ند نی
بے خواب دریچوں پہ گرے
پھر اسی جشن کی
یہ رات مرے کام آ ئے
درد کی آ خری سو غا ت
مرے کام آ ئے
آ خر شب
شب آ خر ٹھہرے
ضد پہ آ یا ہوا یہ دل ٹھہرے ..
توڑ دو ں شیشہ
جو ہستی کابھی پھر جام آئے
کا م آ ئے
تو یہ سو غا ت مرے کا م آ ئے
جشن کی رات ہے
یوں نذر گزا ری جائے
ایک اک آ رزق صد قے میں اتاری جائے

مت سو چا کر

غم نے تجھے بربا د کیا
یہ مت سو چا کر
یہ سو چا کر
اس اک غم نے
ترے وجود میں اندراندر
دور دور تک
جوآنسو تجھ میں سینچا ہے
حر ف میں تیرے اسی کا نم ہے
جس سا غر میں تو ڈو با ہے
اس سا غر نے
سا رے جگ کیپتھر آ نکھیں
سب آ نکھوں کے کنکر آ نسو
تجھ ہو نٹو پر پگھلا ئے ہیں
یہی تو کڑوے سچ سینے میں متھ کے
امرت کر دیتا ہے
اسی آ گ کے سو چ الا ؤ
را کھ میں کندن بو جا تے ہیں
تنہا ئی کے غا ر میں
خو د کو کھو چنے والے
سا رے امّی حرف
پیمبر ہو جا تے ہیں۔

یہ مو سم نیا ز ہے

برستے رنگ
اور بھیگتے یہ سبز پیرہن
غزال دشت جاں دلا ں!۔
یہ کیسا اہتمام ہے ؟
کنا ر چشم نم جو یہ سجا ہے
کو ئی خواب ہے ؟
کہ خواب کا سراب ہے ؟
غزال د شت را ئیگا ں
بتا یہ آ ج کیا ہوا ؟
کہ سبز بخت ہجر کے سحا ب
اپنے را ستے بدل گئے
زمیں پہ سرخ، سبز، کا سنی بھنور کے رقص میں
دمکتی پتیوں کے جسم گھل گئے
ہوا نے شا خ شا خ سے
گلا ب توڑ تو ڑ کے
وہ را ستے سجا دیے
جو انتظار کی ملول دھو ل سے خراب تھے
شفق پگھل کے
چمپئی شہا ب رنگ دھڑکنوں میں ڈھل گئی
دلا ں سنا ؟
یہ موسم نیا ز ہے
لہو میں اک سنہری آ گ جل گئی
تو کیا ہوا ؟
جو وقت اپنے بحر بے کنا ر میں اتر گیا
سو کیا کریں ؟جو مہلتوں کے بادبان کھل گئے
غزال دشتِ رائیگا ں
تجھے اس ایک سانس کی نوید ہو
یہ ایک گھو نٹ سا عت مراد
با نصیب ہو
یہ مو سم نیا ز ہے
دلا ں !!تجھے نوید ہو

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *