Home » شیرانی رلی » نسترن احسن فتیحی 

نسترن احسن فتیحی 

ایک لڑکی

ہواوں کے دامن سے
وقت کے خونی پنجے
جب ایک لہو لہان لڑکی کو
کوکھ سے نوچ لیتے ہیں
یا تتلیوں کے پیچھے
بھاگنے کی عمرمیں
کوئی کلی مسلی ہوئی کچرے پر ملتی ہے
یا پھر اپنے نڈرشباب کے ساتھ
درندوں سے سینہ سپر ہو کر لڑتی
کسی مجاہد کی مانند
سفر آخرت پر نکلتی ہے
تو قبر ماں بن کراسے
اپنی نرم آغوش میں
سمیٹ لیتی ہے
آسمان جب اس
لحد پر روتا ہے
تو مٹی وعدہ کرتی ہے
یہ خوشنما پھول
اب اس کی آغوش میں
مامون رہیں گے
رات کی تا ریکی میں
گیدڑ روتے ہیں
آسمان کی طرف دیکھ کر
تو خوابِ خرگوش میں مبتلاء4
درندے یہ نہیں جانتے
کہ ایسے میں آسمان پر
اک آگ ان کے نام لکھ دی جاتی ہے

سناٹا

سال خوردہ مکان کا
بوسیدہ دروازہ
چرمرا کر جب
مجھ پر کھلا
تو زار زار روتا سناٹا
لپک کر مجھ سے ملا
میں نے اسے یا شاید خود کو
سنبھالا،اور دھیرے سے
اس کی ہم نشینی میں
قدم اندر رکھا
سن سن کرتا آوازوں سے خالی کمرہ
اور وقت کے بوجھ سے جھکی
بوڑھے مکان کی لرزیدہ پلکیں
مجھے پہچاننے کی کوشش میں
ایسے چمکیں، کہ دل بھر آیا
میں نے اپنے کاندھوں پہ اٹھائی
یاد کی گٹھڑی کھولی
اور دھنک سے لمحے بکھر گئے
ہر سو بکھر گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنگن کے سبزے پر ہارسنگھار کے
نارنجی پھول
کوئیں کے شفاف پانی میں
دھپ سے ڈول ڈال کر
کھلکھلاتی آوازیں
آنگن کے کونے میں
ہینڈ پمپ کی چرخ چوں
آسمان کی وسعتوں کو ناپتے
جامن اور شہتوت کے پیڑ!
دھان کی کوٹھیوں اور ڈرم میں چھپ کر
چھپن چھپائی کے کھیل!
آم کی گٹھلی چوس کر
سفید کرنے کی شرط
مولوی کی چھڑی کے ڈر سے،پیٹ کا درد
املی کے بیج پر کلمہ پڑھنا !۔
دادا کی پلیٹ میں دھرے
اپنے حصے کے نوالے کی امید۔
کتنے رنگ ، کتنی مسکراہٹوں کے جگنو
میں نے اپنے دامن میں سمیٹے
مگر اچانک ہر طرف جگ مگ کرتے لمحے
حقیقت کے تیز جھکڑ سے بجھ سے گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سامنے ہار سنگھار کی سوکھی شاخیں
آسیب زدہ کنواں
جامن ، شہتوت کے ننگے پیڑ
ٹوٹی دیوار پھاند کر آنے والوں سے
شکوہ کناں، خاموش کھڑے تھے
ہار سنگار کے کھردرے تنے کو
ہولے سے چھو کر
چبوترے پر بیٹھتے ہوئے
دل میں آنسو کے چند قطرے یوں گرے
جیسے کبھی اس پیڑ کے نارنجی پھول
شاخوں سے گرتے تھے!
میں گیلا من لئے وہاں کچھ پل بیٹھی
پھر اٹھی آنگن کی جانب بڑھی
ہینڈ پمپ کے زنگ آلود لبوں پر
پپڑیاں جمی تھیں
تشنگی سسک رہی تھی
ماں کے ہاتوں کے لمس سے
اس کا چمکنے والا ہینڈل،
بڑا ہی بے رونق تھا
جسے چھو کر میں نے گویا
ماں کے ہاتھ کے چھالوں کو
چھونا چاہا۔۔۔
اور گھبرا کر چھوڑ دیا
واپس آنا تو پہلے سے طے تھا
پر یہ کیا؟۔۔
گیلا من تو میں
ہار سنگھار کے چبوترے پر بھول آئی!
اور آنگن کا سنسناتا سناٹا
میرے ساتھ چلا آیا

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *