Home » پوھوزانت » ترقی اور فوک ثقافت ۔۔۔ نجیبہ عارف

ترقی اور فوک ثقافت ۔۔۔ نجیبہ عارف

یہ مضمون ترقی اور فوک ثقافت کے بارے میں کسی قطعی اور حتمی رائے کے اظہار کے لیے نہیں بلکہ اس ضمن میں دو تین بنیادی سوالوں اور ان سوالوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خیالات ، اہل علم کے سامنے رکھنے کے لیے تحریر کیا گیا ہے۔ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے فوک ثقافت اور ترقی کا آ پس میں کیاتعلق ہے؟اور دوسرا یہ کہ کیا فوک ثقافت کی بازیافت کا عمل ترقی کا نقیض ہے یا اس کا معاون و مددگار بھی ہوسکتا ہے؟ اور آخری سوال یہ ہے کہ فوک ثقافت اور ترقی کو کیسے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے؟

  یہاں ترقی کا لفظ میں اس کے عصری معانی میں استعمال کر رہی ہوں؛یعنی یہاں ترقی کا لفظ ڈویلپمنٹ کے مترادف کے طورپر۔ یہ الگ بات ہے کہ اووا پؤرکسن نے اپنی کتاب پلاسٹک ورڈز میں لفظ ڈویلپمنٹ کو بھی ان کے پلاسٹک کے الفاظ میں شامل کیا ہے۔جن کا لغوی مطلب کچھ اور ہوتاہے مگر وہ جدید فکری تناظر میں اس طرح ا ستعمال کیے جاتے ہیں کہ ان کے مفہوم کی ایک جعلی اور مصنوعی دھند سی قائم ہو جاتی ہے۔بلکہ در حقیقت یہ کسی خاص مفہوم کے حامل نہیں رہتے بس ایک آلہ کار بن جاتے ہیں۔میں بھی لفظ development اور ترقی کو اسی دھندلے مفہوم میں استعمال کر رہی ہوں۔
ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب بھی کسی معاشرے میں ترقی کا عمل تیز ہوتا ہے تو سب سے پہلے فوک ثقافت کی شامت آتی ہے اوراس کی تمام ظاہری علامات مٹ جاتی ہیں۔سڑکیں بنتی ہیں تو پرانی تاریخی عمارتیں ڈھا دی جاتی ہیں۔شہر کی توسیع ہوتی ہے تو بستیوں کی بستیاں صفحہ ہستی سے غائب ہو جاتی ہیں۔پرانا طرز تعمیر یوں غائب ہوجاتاہے جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔طرز تعمیرکے ساتھ ہی ثقافت کے ہزارہا نقش بھی قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔ میرا میر پور سے کبھی کوئی ذاتی تعلق نہیں رہا لیکن ابھی تک مجھے یہ بات سراسیمہ کرتی ہے کہ منگلا جھیل کی تہہ میں لاکھوں لو گو ں کے گھر تھے، ان کی جنم بھو میا ں،ان کی یا دیں تھیں جو غر ق آ ب ہو گئیں۔ بات صر ف یہی تک محدود نہیں رہتی۔ جب کہیں ترقی کے جدید مظاہر سامنے آتے ہیں تو لوک ریت کے ہزاروں نشان مٹا دیتے ہیں۔پھر نہ مٹی کے دیے رہتے ہیں نہ شیشے کے شمع دان۔ نہ لا لٹینوں کی دھو انکی ہوئی چمنیاں دکھائی دیتی ہیں نہ دیوار پر بننے والے خیال انگیز سائے نظر آتے ہیں اور نہ خیال کو پرواز کرنے کی وہ لا محدودفضائیں میسر آتی ہیں جو اندھیری راتوں کیافق پر طلوع ہوا کرتی تھیں۔ پھر شام کے ملگجے اندھیروں میں گھروں کی چمنیوں سے اٹھتا ہوا دھواں نظر نہیں آتا؛ نہ گدھے کی پیٹھ پر لاد کر لائی جانے والی جنگل کی لکڑیوں کے گٹھے نظر آتے ہیں اور اتفاق کی برکت ثابت کرنے کے لیے سنائی جانے والی چار بھائیوں کی کہانی رفتہ رفتہ اپنی معنویت کھونے لگتی ہے۔بچے سوال کرتے ہیں کہ لکڑیوں کے گٹھے کو ہاتھ سے توڑنا کیوں ضروری ہے۔اسے مشین میں کیوں نہیں ڈال دیتے؛ کیونکہ مشینیں نہ صرف لکڑیوں کے گٹھے توڑ سکتی ہیں، بلکہ اتفاق کی برکت کو بھی بے اثر کر سکتی ہیں۔اسی طرح کنویں کی منڈیروں سے جھانکتی آ نکھیں اور مٹیاروں کی چْہلیں صرف ہمارے ناسٹیلجیا میں زندہ رہتی ہیں اور ہم اپنے اپنے جدید گھروں کے اٹیچڈباتھ والے کمروں میں بیٹھ کر کبھی کبھی ٹھنڈی آہ بھرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ افسوس فوک ورثہ گم ہو گیا ہے۔
لیکن ہم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ وہ نسلیں جو صبح سویرے رفع حاجت کے لیے گھروں سے نکل کر کھیتو ں میں جایا کرتی تھیں، جن کے کپڑے کھٹرے اور گندے پانی میں دھلتے تھے اور جنھیں روٹی پکانے سے پہلے چکی گھما کر آٹا بھی پیسنا پڑتا تھا؛ کیا وہ بھی اْس وقت یعنی اپنے حین حیات میں اپنی اس صورت حال کو اتنا ہی پر مسرت،اطمینان بخش اور رومانی سمجھتی تھیں جتنا ہم خیال کرتے ہیں؟
کیا وہ ایسی ہی ترقی کے خواب نہیں دیکھتے تھے جس ترقی کے نتیجے میں بالآخرفوک ثقافت کی موت واقع ہو جاتی ہے؟
لیکن اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ذرا سا رک کر مزید سوچنے کی ضرورت ہے۔ یہ معاملہ اتنا سادہ اور آسان نہیں ہے۔ ہمیں یہ نتیجہ نکالنے میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے کہ چو نکہ ترقی کرنا ہم میں سے ہر ایک کا حق ہے،اس لیے ہم فوک ثقافت کے احیا کے لیے جان بوجھ کر لوگوں کو ترقی کے ثمرات سے محروم نہیں کرسکتے۔میرا خیال ہے اس پیچیدہ عمل کو ذرا گہری نظر سے دیکھنے اور سوچنے کی ضرورت ہے۔
فوک ثقافت اور ترقی میں تناسب راست ہے یا معکوس ،یہ سمجھنے کے لیے ہمیں عالمگیر یت اور معاشیات کے جھمیلوں میں الجھنا پڑے گا۔اس مختصر مضمون میں ان تمام پہلو ؤں پر سیر حاصل بحث کرنا تو ممکن نہیں لیکن ان پر غور وخوض کرکے میں جن نتا ئج پر پہنچی ہوں وہ ضرور پیش کرسکتی ہوں۔
میرا خیال ہے کہ فوک ثقافت اگر فطری طریقے سے ارتقا کے مراحل سے گزرے تو اس ترقی کو فوک ثقافت کی ارتقائی صورت سمجھا یا بنا یا جا سکتا ہے۔ گو یا ترقی کا حقیقی مفہوم یہ ہونا چاہیے کہ فوک فنون،روایات اور فوک دانش ختم نہ ہوں بلکہ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پیدا ہوتا رہے۔فوک طرز زندگی، جدید ایجادات اور مشینوں کی مدد سے سہولت بخش ہو تا چلا جائے؛مگر اس کا بنیادی رنگ ڈھنگ قائم رہے۔ گیت ختم نہ ہوں؛ ان میں جدت پیدا ہو جائے۔پرانے ساز نئے سازوں کے ساتھ سْر ہو جا ئیں، پرانی قدریں نئے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوتی رہیں۔ اگر ایسا ہوجائے تو فوک روایت آہستہ آہستہ نئی شکل میں ڈھلتی جاتی ہے۔نئی یا جدید روایات پیدا ہوتی ہیں لیکن جدید روایات کی اصل میں قدیم روایات کی روح شامل رہتی ہے اور یوں روایت کا تسلسل قائم رہتا ہے؛ اگرچہ اس کی صورت بدلتی اور وقت کے ساتھ ساتھ نکھرتی جاتی ہے،اس کے بے کار اجزا معطل ہوتے رہتے ہیں اور ان کی جگہ نئے اور کار آمداورعصری صورت حال سے ہم آہنگ اجزا پیدا ہو تے رہتے ہیں۔قدیم جدید میں ڈھلتا جاتا ہے،قدیم کی مفید اور کار آمد خوشبو باقی رہتی ہے اور جدید ذائقہ بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے۔
اگر ترقی اس فارمولے کے مطابق ہوتی ہے تو فوک روایت کی نقیض یا اس کا متضاد نہیں ہے بل کہ اس کی تو سیع و تکمیل و تجلیل کا باعث بنتی ہے۔لیکن ہمارے ہاں صورت حال اس سے بہت مختلف ہے اور ہمارے ہاں سے مراد صرف پاکستان نہیں ،وہ تمام نو آبادیاتی ممالک ہیں جہاں گزشتہ صدیوں کے دوران استعماری قوتوں کی حکمرانی رہی ہے۔ اگر چہ ہندوستان میں انگریزوں سے پہلے بھی غیر ملکی حکمران آتے اور تقریباً سات صدیوں تک ہندوستان پر حکمران رہے لیکن انھوں نے مقامی روایات کو منقطع نہیں کیابلکہ اس سے ہم آہنگ ہو گئے جس کے نتیجے میں مقامی بولیوں نے ترقی پائی اور مقامی ادب اور روایات باقی رہیں جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ آج بھی اس اسلامی مملکت پاکستان کی سماجی زندگی ہند ووانہ رسموں رواجوں سے بھری ہوئی ہے۔یہ اس لیے ممکن ہو سکا کیونکہ مسلمان حکمرانوں نے مقامی روایت کی بیخ کنی کرنے کی کوشش نہیں کی۔
اس کے برعکس گزشتہ تین صدیو ں کے دوران پیدا ہونے والے نئے استعمار نے،جو اگرچہ جمہوریت اور مساوات جیسی اقدار کے نعرے لگاتاہوا ابھرا تھا، اپنی نو آبادیوں میں بد ترین جبر کا مظاہرہ کیا اور مقامی تہذیب و ثقافت پر کاری ضرب لگائی۔ اس کے نتیجے میں ساری روایت کا تسلسل ٹوٹ گیا اور بجائے اس کے کہ قدیم، رفتہ رفتہ،فطری اور ارتقائی عمل کے ذریعے جدید میں ڈھلتا جاتا ؛ ان نو آبادیاتی معاشروں میں دو طبقے پیدا ہوگئے ، قدیم اور جدید۔جدید طبقے نے روایت سے یکسر ناطہ توڑ لیا اور غیر ثقافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔معاشرے پر جدید طبقے کا غلبہ و تسلط قائم ہو گیا کیونکہ اس طبقے کو اپنے حکمرانوں کی معاونت حاصل تھی جس کے نتیجے میں اس طبقے کی خوش حالی اور اثر و ر سوخ میں اضافہ ہو تا گیا۔لیکن کہا اور سمجھا یہ جانے لگا کہ اس طبقے کی ترقی و خوش حالی اور کامیابی کی اصل وجہ فوک روایت سے، جو دقیانوسی اور بے معنی ہے،قطع تعلق اور جدید طرز زندگی سے وابستگی ہے۔گویا اس مراعات یافتہ طبقے کی ترقی کی اصل وجہ تو غاصب حکمرانوں کی سر پرستی تھی مگر اسے ایک مصنوعی سبب ،یعنی قدیم روایات سے انحراف کی روش سے جوڑ دیا گیا۔ اسی طرح سماج کے نچلے طبقے کی پس ماندگی کا الزام استعمار کے استحصالی منصوبوں کے بجائے قدیم روایت سے جڑے رہنے کی خواہش کو قرار دیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی قبائلی زندگی کو جدید عمرانیاتی علوم کے مطابق جہالت اور پس ماندگی کی وجہ قرار دیا جاتا ہے اور وہ معاشرے جو اپنی قدیم روایات کے احیا پر زور دیتے ہیں انھیں تاریخ کے تاریک ادوار کی نشانی کہا جاتا ہے۔
بد قسمتی سے یہ صورت حال نو آبادیاتی عہد کے خاتمے کے بعدبھی جا ری رہی جسے اب نیو کو لونیل ازم یا ما بعد نو آبادیاتی صورت حال کہا جاتاہے۔ یقین نہ آئے تو تجربہ کر کے دیکھ لیجیے۔اپنے اس آزاد ملک کے کسی بھی ادارے میں خواہ وہ تعلیمی ہو یا تجارتی، بنک ہو یا کارپوریشن، دو ایک جیسی اہلیت کے حامل نو جوانوں کو انٹرویو کے لیے بھیجیے۔ایک دھوتی کرتے میں ملبوس ہو، یا سر پر پگڑی پاؤں میں کھسا ہو اوراردو بھی بلوچی، پنجابی، پشتو یا سندھی لہجے میں بولتاہو،جب کہ دوسرا پینٹ کوٹ میں ملبوس ہو، ٹائی لگا رکھی ہواور اوکسفرڈ لہجے میں انگریزی بو لتا ہو۔کیا یہ حقیقت نہیں کہ انٹرویو شروع ہونے سے پہلے ہی مجھ اور آپ سمیت ہر انٹرویو لینے والا اپنے ذہن میں ایک رائے قائم کر چکا ہوگا اور امید واروں کی لیاقت،استعداد،ذہنی قابلیت، رجحانات اور مطلوبہ صلاحیت کو جانچنے سے پہلے ہی ایک فیصلہ کن تعصب اپنا رنگ دکھا چکا ہو گا۔یہ ہے جدیدیت کا وہ جبری پہلو جو ہمیں فوک ثقافت کے احیا پر ا کساتا ہے اور جب ہم لوک ثقافت کی گم شدگی کا ماتم کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ ترقی کے مظاہر کو رد کرکے ان کی جگہ ماضی کے احیا کا نعرہ لگا دیا جائے۔گھروں پر مٹی کا لیپ کر دیا جائے،فریج اور فریزر کی جگہ مٹی کے گھٹرے رکھ دیے جائیں اور سڑکوں پر کاروں کے بجائے گھوڑے دوڑا دیے جائیں۔بل کہ عام طور پر جب فوک ورثے کے احیا کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ فوک روایت کو؛ خواہ اس کا تعلق فنون میں طرز زندگی سے ہو یا اقداروافکار سے ، اپنا کرفطری طریقے سے ارتقا پذیر ہونے کا موقع دیا جائے۔ اسے منقطع کر کے اس کی جگہ مصنوعی طریقے سے کسی غیر روایت کومسلط کرنا نا قابل قبول ہے اور اس کے خلاف احتجاج کیا جانا چاہیے۔جیساکہ آج کل سرکاری و نجی دونوں طرح کے ٹی وی چینلوں میں ڈراموں کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ ہماری معاشرتی زندگی میں بگاڑ اور فساد پیدا کرنے میں ان ڈراموں کا کردار انتہائی ہولناک ہے۔یہ ڈرامے ہماری مسلمہ اقدار کو نہایت بے رحمی سے قتل کرتے ہیں اور ایسی بھیانک معاشرتی تصویر اجاگر کر رہے ہیں جسے نمونے کے طور پر استعمال کرکے ہماری نئی نسلیں کی زندگیاں دکھ سے دوچار ہو رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ماں اور بیٹی کا رشتہ ہمارے سماج میں ان رشتوں میں سے ہے جس پر ابھی تک کوئی غبار نہیں آیا۔ ممتاز مفتی تو کہا کرتے تھے ،دنیا میں صرف ایک ہی سچا رشتہ ہے ماں اور بیٹی کارشتہ۔لیکن ان ڈراموں میں اس رشتے کے درمیان بھی رقابت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ماں بیٹی کی دشمن ہے۔ بہن بہن کے شوہرسے آنکھیں لڑا رہی ہے۔سہیلی سہیلی کے میاں سے بیاہ رچا رہی ہے۔ غرض تمام انسانی رشتے بے اعتبار اور مکروہ عیاری سے مملو دکھا ئے جا رہے ہیں۔
اشتہار سازی کی صنعت اس پر مستزاد ہے۔ اشتہارات کے ذریعے سماج کو اس کے قدیم طرز حیات پر شرمندہ کرنے اور جدید طرز حیات کو قابل رشک سمجھنے کا سبق جس مستقل مزاجی سے دیا جاتا ہے، وہ سماج میں مسلسل عدم اطمینان اور اضطراب پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں ذہنی و نفسیاتی امراض اور غیر فطری انسانی رویے عام ہو رہے ہیں۔اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے؟ چینل اپنی معاشی ضروریات کے لیے اشتہاروں کے محتاج ہیں اور اشتہار دینے والی صنعت کار کمپنیوں کے سامنے دور رس تجارتی مفاد ہیں۔ ان تجارتی مفادات کے پہیوں تلے، تاریخ اور تہذیب کچلی جا رہی ہے۔
اس صورت حال کا ایک رد عمل یہ بھی ہے کہ قدیم طرز زندگی سے جڑے ہوئے وہ لوگ جنھیں فطری طریقے سے ارتقا کرنے کا موقع نہیں مل سکا،بے بسی اور مایوسی کے عالم میں شدت پسندی کی طرف رخ کر رہے ہیں۔ شدت پسندی کی وجوہات اور اغراض و مقاصد پر بحث کرنا یوں تو عصر حاضر کا پسندیدہ اور مرغوب ترین موضوع بن چکا ہے لیکن اس بحث کے لیے میدان اور زاویے بھی ہم آزادانہ منتخب نہیں کرتے بلکہ عموماً انھی زاویوں تک محدود رہتے ہیں جو ہمارے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔
کسی معاشرے کو زبردستی اور غیر فطری طریقے سے ، اپنی مرضی کے انداز میں جدید بنانا ایسا استعماری حربہ ہے جس کا رد عمل شدت پسندی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ہمیں شدت پسندی کے اس سماجی پہلو کونظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ صرف مذہبی یا سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ اس معاشرتی جبر کا ردعمل بھی ہے،جس نے قدیم روایت سے جڑے لوگوں کوترقی کے عمل سے خارج کر رکھا ہے اور انھیں پس ماندہ اور ازکار رفتہ قرار دے رکھاہے۔ ان کی اقدار کو بالجبر جدید طرز زندگی کی اقدار سے بدلا جا رہا ہے۔
اگر ہم فوک ثقافت کا احیا کر کے، اسے فطری طریقے سے ارتقا کا موقع فراہم کریں تو اپنے سماج کو ردعمل کی نفسیات سے نجات دلانے میں قابلِ ذکر کردار ادا کر سکتے ہیں۔یہی ترقی کا حقیقی مفہوم ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *