Home » پوھوزانت » انجیلا ڈیوس(خودنوشت)۔۔۔انجیلا ڈیوس/سید سبطِ حسن

انجیلا ڈیوس(خودنوشت)۔۔۔انجیلا ڈیوس/سید سبطِ حسن

انجیلا ڈیوس؟۔ کیا تم انجیلا ڈیوس ہو؟۔اور سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔
میرے اور ڈیوڈ دونوں میں سے کسی کے پاس ہتھیار نہ تھے۔ لیکن پولیس کا ہر سپاہی ریو الور ہاتھ میں لیے موقعہ کا منتظر تھا۔ وہ بار بار مجھ سے یہی پوچھ رہے تھے کہ کیا تم اینجیلا ڈیوس ہو ، کیا تم انجیلا ڈیوس ہو۔ مگرمیں نے کوئی جواب نہ دیا ۔تب انہوں نے میری انگلیوں کا نشان لیا اور جب یقین ہوگیا کہ میں انجیلا ڈیوس ہوں تو انہوں نے میرے دونوں ہاتھ پشت کی طرف کر کے ہتھکڑیاں لگادیں۔
موٹر میں انہوں نے مجھے پچھلی سیٹ پر بٹھایا اور ہمارا کارواں جس میں درجنوں موٹریں شامل تھیں،روانہ ہوگیا۔ راستے میں ایک پولیس والے نے مسکراتے ہوئے مجھ سے پوچھا’’ مس ڈیوس آپ سگریٹ پئیں گی؟‘‘۔’’نہیں‘ تمہارے ہاتھ سے نہیں‘‘۔ گرفتاری کے بعد میرے منہ سے یہ پہلا فقرہ نکلا تھا۔
تھوڑی دیر کے بعد ہماری گاڑی اینٹوں کی ایک پرانی عمارت کے سامنے پہنچ کر رُک گئی ۔ یہ نیویارک کی زنانہ حوالات تھی۔ جن دنوں میں ایلز بتھ ہائی سکول میں پڑھتی تھی تو قریب قریب روزانہ اسی پراسرار عمارت کے سامنے سے گزرنا ہوتا تھا اس لیے کہ ہمارا سکول قریب ہی تھا۔ اس حوالات میں مجھے ایک بھی گوری چمڑی کی عورت نظر نہیں آئی۔ بس کالی نیگر وعورتیں تھیں یا پورٹور یکو کی رہنے والیاں۔ سیکنڈری سکول میں داخلے سے پہلے میں نے کئی مہینے مارگیٹ برنہم کے گھر والوں کے ساتھ نیویارک میں گذارے تھے۔ برمنگھم شہر کے مقابلے میں نیویارک جنت سے کم نہ تھا ۔ مارگریٹ ،اُس کی بڑی بہن کلاڈیا اور اُن کے دوست جو کالے بھی تھے اور گورے بھی مجھے ساتھ لیے بڑی آزادی سے گھومتے پھرتے ۔چڑیا گھر، پارک ، سمندر کا ساحل ، سنیما ہاؤس، ریسٹورنٹ ، غرضیکہ کہیں بھی کوئی ممانعت نہیں تھی۔ میں اپنی ایلز بتھ کے ساتھ جب بس میں سفر کرتی تو ڈرائیور کے پیچھے والی سیٹ پر جاکر بیٹھ جاتی اور کوئی مجھے نہ اُٹھانا۔
نیویارک کے قیام کی وجہ سے نسل ورنگ کے فرق کا احساس مجھ میں اور شدید ہوگیا۔ میں برمنگھم واپس آئی تو ایک دن اپنی چچازاد بہن اسنوؔ کی مجھے بس میں لے گئی۔ وہ تو پچھلی سیٹ پر جابیٹھی لیکن میں بھاگ کر ڈرائیور کے پاس کی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ اسنوؔ کی ہنس ہنس کر مجھے وہاں سے اُٹھانے کی کوشش کرتی رہی لیکن میں نہ مانی ۔ البتہ جب اُس نے مجھے ڈانٹا تو مجھے اُٹھنا پڑا۔ مگر اُٹھتے اُٹھتے میں نے اُونچی آواز میں اُس سے پوچھا کہ تم مجھے یہاں کیوں نہیں بیٹھنے دیتیں۔اسنوؔ کی سے کوئی جواب نہیں بن پڑ رہا تھا۔ اور آس پاس بیٹھے ہوئے گورے مسافر اسنوؔ کی کی گھبراہٹ پر مسکرا رہے تھے۔
میرے باپ کے پیٹرول پمپ کے پاس ہی ایک سنیما ہاؤس تھا جو دن رات نیون لائٹ کی روشنی سے جگمگاتا رہتا ۔ہفتہ اور اتوار کو اُس میں بچوں کی فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ ہم اُدھر سے گزرتے تو سنہرے بالوں والے بچوں اور اُن کی ماؤں کو بڑی للچائی نظروں سے دیکھتے لیکن کالے بچوں کو اس سنیما گھر میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔
جب بھی ہم برمنگھم کے تفریحی پارک ‘پری میدان‘ کے سامنے سے گذرتے جہاں صرف گورے بچے جاسکتے تھے تو مجھے نیویارک کے تفریحی پارک یاد آنے لگتے۔ برمنگھم میں ہمیں اگر بھوک لگتی تو کالوں کی بستی کے کسی ریسٹوران میں جانا پڑتا۔ کیونکہ عام ریسٹورنٹوں میں فقط گوری چمڑی کے لوگ داخل ہوسکتے تھے۔ برمنگھم میں توپانی کے ایک گلاس کے لیے یامیونسپلٹی کے پیشاب گھر کے لیے بھی ہمیں وہ سائن بورڈ تلاش کرنا پڑتا جس پر’کالوں کے لیے‘ لکھا ہوتا۔ میری نسل کے کالے بچوں نے عام لفظوں سے پہلے’کالا‘ اور ’گورا‘ پڑھنا سیکھ لیا تھا۔
لیکن نیویارک کی خیالی جنت کی اصل حقیقت بھی مجھ پر جلد ہی روشن ہوگئی۔ چھ سال اور دس سال کی عمر میں مجھے کئی بار نیویارک جانا پڑا جہاں میری ماں نیوریارک یونیورسٹی سے ایم۔ اے کر رہی تھی۔ میری ماں کے دوستوں میں ایک جوڑا تھا جس کے پاس رہنے کے لیے معقول جگہ نہ تھی۔ وہ ہفتوں کوشش کرتے رہے کہ کوئی صاف ستھرا فلیٹ مل جائے لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ ایک روز یہ لوگ میری ماں سے گفتگو کر رہے تھے تو میں نے اُن کی باتیں سن لیں اور تب پتہ چلا کہ مسئلہ وہی کالی اور سفید کھال کا تھا۔ ایک حادثہ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز جو اِن دنوں پیش آیا جب میں آٹھ برس کی تھی اور سینٹر میکار تھی کی کمیونسٹ دشمنی اپنے عروج پر ہی تھی۔ میرے والدین کے ایک دوست جمیز جیکسن تھے ۔ وہ اور اُن کے بیوی بچے برمنگھم میں رہ چکے تھے ۔ جیکسن کمیونسٹ تھے لٰہذا اُن دنوں روپوش تھے ۔ مجھ میں سیاسی باتوں کی تو سمجھ نہ تھی البتہ اتنا جانتی تھی کہ پولیس میری دوست ہیریٹ کے باپ کی تلاش میں ہے۔ میں جب بھی جیکسن کے بچوں کے ساتھ کھیلتی تو وہ انگلیوں کے اشارے سے بتاتے کہ دیکھو وہ پولیس کے جاسوس کھڑے ہیں ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ لوگ میرے باپ کے دوست کو کیوں ڈھونڈ رہے ہیں۔ اُنہوں نے کوئی جرم تو نہیں کیا تھا۔ بس یہی ناکہ اُن کارنگ کالا تھا۔ اُس وقت تک میں یہ نہیں جانتی تھی کہ کمیونسٹ کیا ہوتا ہے اور میکار تھی کیا چاہتا ہے۔
برسوں بعد جب میں چودہ ، پندرہ برس کی ہوئی تو ایک روز مجھے شرارت سوجھی۔ میں اور فانیاؔ برمنگھم کے سفیدفام علاقے سے گذر رہے تھے تو میں نے فانیاؔ سے کہا کہ آؤ ان گوروں کو غیر ملکی افریقی بن کر ستائیں ۔ لٰہذا ہم دونوں فرانسیسی زبان بولتے ہوئے جو توں کی ایک بڑی اعلیٰ دکان میں گھس گئے ۔دوکالی لڑکیوں کو غیر ملکی زبان بولتے سن کر دکان کے ملازمین ہماری طرف لپکے۔اور ہم کو سٹور کے پچھلے حصے میں لے جانے کے بجائے جہاں ایک کالا ملازم چھپ کر بیٹھتا اور کالوں کو جوتے پہناتا تھا بالکل سامنے کی اچھی سیٹوں پر بٹھایا ۔ میں نے یوں ظاہر کیا گویا مجھ کو انگریزی بالکل نہیں آتی۔ اور فانیاؔ بھی بن بن کر اتنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولنے لگی کہ گوروں کے لیے اُس کی بات سمجھنا مشکل ہوگیا۔چھوٹے ملازمین غیرملکی کالی لڑکیوں کو دیکھ کر آگے پیچھے ہورہے تھے۔ لیکن زبان نہ سمجھنے کی وجہ سے بے بس تھے۔ لٰہذا انہوں نے مینیجر سے مدد مانگی ۔ مینیجر صاحب اپنے بند دفتر سے نکلے۔ دو غیر ملکی جوان لڑکیوں کو دیکھ کر اُن کی باچھیں کھل گئیں۔ آتے ہی انہوں نے بڑے رومانوی لہجے میں کہا۔’خوبصورت خواتین !فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ مگر وہ ہمیں دیکھ کر کچھ ایسا مسحور ہوئے تھے کہ جوتوں کا ذکر چھوڑ کر ہمارے بارے میں پوچھنے لگے ۔آپ کس ملک کی رہنے والی ہیں۔ اور یہاں برمنگھم جیسے شہر میں کیسے آنا ہوا۔ آپ جیسے لوگوں کی تو شازونادر ہی زیارت ہوتی ہے ۔ فانیاؔ نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مینیجر کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ ہم لوگ افریقہ کے شہر مارتی نک سے آئے ہیں اور امریکہ کی سیاحت کرتے ہوئے یہاں پہنچے ہیں۔مینیجر کی آنکھیں چمکنے لگیں ۔ ’زہے نصیب‘ اُس نے عاشقانہ انداز میں کہا۔ دکان میں بیٹھے ہوئے دوسرے گورے اِس بات پر حیرت کر رہے تھے کہ یہ کالی عورتیں اُس جگہ بیٹھی ہیں جو گوروں کے لیے مخصوص ہے لیکن جب اُنہوں نے ہمیں فرانسیسی بولتے سنا تو وہ بھی بہت خوش ہوئے کہ دوکالی عورتیں ہزاروں میل دور سے ہمارے شہر میں آئی ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ان غیر ملکی کالوں سے ہم کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
آخر کار، میں نے فانیاؔ کو اشارہ کیا کہ بس اب مذاق ختم۔ ہم نے مینیجر کی طرف غور سے دیکھا اور زور زور سے ہنسنے لگے۔ وہ بھی ہنسنے لگا لیکن ذرا ہچکچا کر جیسے وہ یہ سمجھ رہا ہو کہ میرا مذاق اُڑایا جارہا ہے۔
کیا بات ہے ۔ آپ ہنس کیوں رہی ہیں‘۔اُس نے آہستہ سے کہا۔ تب میں انگریزی بولنے لگی۔’’ہمیں تم پر ہنسی آرہی ہے ۔ میں نے کہا۔ کالے امریکی اگر کسی صورت سے تم لوگوں کو یہ باور کروادیں کہ وہ پردیسی ہیں تو تم اُن کووی آئی پی سمجھ کر سر آنکھوں پر بٹھاؤگے‘‘۔ ہم ہنستے ہوئے دکان سے باہر آگئے۔
ہمارا گھر ایک پہاڑی پر تھا۔یہ جگہ نیگر وبستی سے زیادہ دور نہیں تھی۔ مکان اگر چہ پرانا تھا لیکن اس کا احاطہ بہت بڑا تھا۔ اور درخت بھی بے شمار تھے۔ سامنے کچی سڑک تھی اور سڑک کے اُس پار گوری چمڑی والوں کی آبادی۔ میں ابھی چار برس کی تھی کہ مجھے اندازہ ہوگیا کہ سڑک کے اُس پار رہنے والے ہم سے بہت مختلف ہیں۔ اس احساس کی وجہ اُن کی کھال کارنگ نہ تھا۔ بلکہ اُن کے چڑھے ہوئے تیور تھے۔ وہ دور کھڑے ہم کو بڑی نفرت سے گھورتے رہتے۔ ہم سے کبھی بات نہ کرتے اور اگر ہم سلام کرتے تو ہمارے سلام کا جواب تک نہ دیتے تھے۔ ہمارے اس گھرمیں منتقل ہونے کے فوراً ہی بعد انہوں نے ہمیں جتا دیاکہ سڑک ہماری سرحد ہے۔ سڑک کے اس پار ہی رہنے میں ہماری عافیت ہے لٰہذا ہمیں کبھی بھولے سے بھی اُن کے علاقے میں نہ جانا چاہیے۔
نفرت سے پچاس گز کے فاصلے پر ہماری زندگی معمول کے مطابق گزرتی رہی۔ میری ماں ایک مقامی نیگرو سکول میں پڑھاتی تھی۔ اور چھٹی پر تھی۔ اُن کے بچہ ہونے والا تھا۔ میرا بھائی بینی Bennyمجھ سے چھوٹا تھا۔ میرے باپ نے بڑی غربت میں بی ۔ اے کیا تھا اور پار کر ہائی سکول میں تاریخ پڑھاتے تھے۔ اُن کی تنخواہ بہت کم تھی پھر بھی میاں بیوی نے نہ جانے کس طرح پیٹ کاٹ کر یہ گھر قسطوں پر لیا تھا اور ایک پیٹرول پمپ بھی خریدا تھا۔وہ روز صبح کام پر جاتے ہوئے مجھے اپنی نارنجی رنگ کی وین میں سکول چھوڑ دیتے تھے۔ اسی اثناء میں میری چھوٹی بہن فانیاؔ پیدا ہوئی ۔ کچھ عرصہ کے بعد ہمارے اکثر گورے پڑوسیوں نے اپنے مکان کالوں کے ہاتھ بیچ دیے اور خود دوسری جگہ منتقل ہوگئے۔
بہار کی ایک شام تھی۔ میں غسل خانے میں اپنے سفید جوتے دھو رہی تھی کہ ایک دم سے زبردست دھماکہ ہوا اور سارا گھر ہلنے لگا۔ دوا کی بوتلیں فرش پر گر کر چکنا چور ہوگئیں۔اور میں ڈر کے مارے کانپتی ہوئی باورچی خانے میں ماں سے لپٹ گئی۔ آس پاس کے نیگر وجوانوں کا ہجوم جمع ہوگیا اور وہ لوگ رات گئے تک زور زور سے بولتے رہے اور گوری چمڑی ، کالی چمڑی ، موت اور خون خرابے کی باتیں کرتے رہے۔ کچھ عرصے کے بعد بم کے دھماکے معمول بن گئے۔ اس کے باوجود میری ماں مجھے ہمیشہ یہی سمجھاتی رہی کہ کالے اور گورے کی لڑائی قدرتی بات نہیں ہے۔ خدا نے ہم کو محبت کرنے کے لیے پیدا کیا ہے اور گوروں کی نفرت چند دنوں کی بات ہے ۔ میری ماں خاص طور پر مجھے ہمیشہ یہی تعلیم دیتی کہ کسی کو اُس کی کھال کے رنگ کی وجہ سے اچھایا بُرا نہیں سمجھنا چاہیے۔ہر چند کہ وہ الا باماؔ کے دیہات میں پلی بڑھی تھی لیکن کالج کے دنوں میں وہ طالب علم کی حیثیت سے ایسی تحریکوں میں شریک ہوتے تھے۔ جونسل اور رنگ کے خلاف چلائی جاتی تھیں۔ اور جن میں کالوں کے علاوہ کچھ گورے بھی شریک ہوتے تھے۔ اپنے ذاتی تجربے سے اُس کو یقین ہوگیا تھا کہ گوری چمڑی والے اگر کوشش کریں تو وہ اپنی کھال سے الگ ہو کر سوچ سکتے ہیں اور انسان کو انسان سمجھ سکتے ہیں۔ وہ برابر یہی کوشش کرتی رہی کہ مجھ میں انسانوں سے نفرت نہ پیدا ہونے پائے۔
میں بارہ برس کی تھی کہ دادی کا انتقال ہوگیا۔ اُن کی اپنی زمین تھی اور کبھی کبھی ہم لوگ چھٹیاں گزارنے اُن کے گھر جایا کرتے تھے ۔ جب وہ بہت بوڑھی ہوگئیں تو ہمارے ساتھ آکر رہنے لگیں البتہ کبھی کبھار اپنے بیٹوں او ربیٹیوں سے ملنے کیلیفور نیا چلی جاتی تھیں۔ جہاں بہت سے نیگرو گھرانے جنوب کی نیگرو دشمنی سے تنگ آکر منتقل ہوگئے تھے۔ دادی ہمیں غلامی کے دنوں کے قصے بہت شوق سے سنایا کرتی تھیں۔ وہ اعلان آزادی 1862کے چند ہی سال بعد پیدا ہوئی تھیں۔ اور اُن کے والدین غلام تھے۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ہم لوگ اس چیز کو بھول جائیں۔
جن دنوں میں ہائی سکول میں تھی تو ریاست الا باما کے نیگرووں میں بھی شہری حقوق کی تحریک آہستہ آہستہ اُبھرنے لگی تھی۔ مگر غفلت کی نیند اتنی گہری تھی کہ ہم میں سے کسی کو یہ بھی خبر نہیں ہوئی کہ 4دسمبر1955کو شہر منٹگمری میں روز اپارک نامی ایک نیگرو لڑکی نے بس کی پچھلی سیٹ پر بیٹھنے سے انکار کردیا تھا۔ او رمارٹن لوتھر کنگ بسوں کے مکمل بائیکاٹ کی تحریک چلا رہے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ منٹگمری ہمارے شہر سے فقط سومیل دور تھا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *