میں!۔
جانے کب سے
دکھ بھری آندھیوں
میں گھرے ہوئے
دھوپ کے کارواں
کے سنگ
چلتی جاتی ہوں۔۔
مجھے
منزلوں کا پتہ ہے
نہ کوئی چاہت۔۔
مجھے تو بس
تشنگیوں سے تار تار
اس کارواں کے ساتھ
چلتے ہی جانا ہے۔۔۔
کہ میرے لئے تو
بس یہی بہت ہے
کہ اپنے ہاتھ میں
عصا تھامے
سب سے آگے چلتے
میرِ کارواں کی
ردا میں شاید
چھاؤں چھپی ہے۔
Check Also
سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید
روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...