Home » پوھوزانت » پختونخوا کی خواتین کے نام۔۔۔۔۔۔۔فصیح الدین

پختونخوا کی خواتین کے نام۔۔۔۔۔۔۔فصیح الدین

حا لی نے کہا تھا اے ما¶،بہنو، بیٹیودُنیا کی زینت تم سے ہے ، قوموں کی عزت تم سے ہے ۔ سچ ۔زاہدہ خاتون شیروانیہ (ز۔خ۔ش)نے رسالہ ”عصمت “کے اکتوبر 1912ءمیں دعویٰ کیا
اے فخرِ قوم بہنو ، عصمت شعار بہنو
مردوں کی ہو ازل سے تم غمگسار بہنو
یہ بھی سچ۔سوال یہ ہے کہ حالی کا فرمانا اگر مستند ہے تو پختونخوا کی خواتین پختون قوم کی عزت ، ترقی، خوشحالی اور خاندانی نظام کی تشکیل میں کیا کردار ادا کر رہی ہیں ؟ ز۔خ۔ش،جن کی وفات پر راشد الخیری نے لکھا تھا کہ ان جیسی عورت کی نظیر مسلمانوں میں مشکل سے ملے گی ، کا کہنا اگر بجا ہے تو کیا واقعی فخرِ قوم بہنیں مردوں کی غمگسار ہیں ؟اگر ہاں تو کس طرح ؟اِسی جواں مرگ شاعرہ نے کہا تھا
نہ آئے گی نہ آئے گی نظر صورت ترقی کی
نہ ہوں گے ہم جو میدانِ عمل میں رُونما بہنو
بالکل بجا ۔ سو فیصد دُرست ۔ مگر کیا پختون معاشرے میں ایسا ہو رہا ہے ؟اگر ہونا بھی چاہیے تو ”میدانِ عمل “میں ”رُونما“ہونے سے کیا مُراد ہے ؟اقبالؒ نے کہا تھا
خاندان میں ایک لڑکی کا وجود
باعثِ برکاتِ لا محدود ہے
کیا آپ اقبالؒ کی اس بات سے متفق ہیں ؟ کیا خواتین خود اس پر یقین رکھتی ہیں ؟ اقبالؒ جس نے ”والدہ مرحوم کی یاد “میں خون کے آنسو بہائے ، عورت کی آزادی کو زمرد کا گلو بند کہتا ہے ۔ کہتا ہے کہ عورت کو دُنیا سے الگ تھلگ ہونا چاہیے (بتولے باش وپنہاں شوازیں عصر)۔مغربی تعلیم یافتہ اقبالؒ کے خیالات تو سب کو معلوم ہیں مگر اس کے بر عکس”خالص مولوی“مولانا حالی نے اپنے مضمون ”قرونِ اِولیٰ میں مسلمان عورتوں کی حق گوئی“میں لکھا ہے ۔”عورتیں جنگ کے معرکوں میں شریک ہو تی تھیں۔اپنے جتھوں کا ساتھ دیتی تھیں ۔ فصیح و بلیغ خطبات دیتی تھی۔ شاعری کر تی تھی ۔ خلیفہ کے دربار میں بے حجابانہ حاضر ہو کر سوال وجواب کر تی تھیں “۔ واہ مولانا حالی! آخری فقرے کی داد دینا پڑتی ہے ۔ کمال ہے یہ لکھ کر بھی مولانا پہ کفر کا فتویٰ لگانہ زندیق کا لقب ملا ۔ مولانا نے ایک اور جگہ لکھا ہے ۔ ”ہمارا معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک ہماری عورتوں کی تعلیم نہیں ہو گی ۔ سماج سے غلط رسوم کا خاتمہ نہیں ہو سکتا ہے جب تک عورتیں تعلیم یافتہ نہ ہوں “۔ تعلیم پر تو دورائے ممکن نہیں مگر یہ ”غلط رسوم“کون کون سے ہیں اور ان کا خاتمہ عورتوں سے کیسے ممکن ہو گا۔ اس لیے کہ اکثر رسوم میں تو وہ خود ہی پیش پیش ہو تی ہیں ؟ پروفیسر فائزہ احسان صدیقی نے ”الفوز العظیم “(جلد دوم )میں ایک مقالہ مسلمان خواتین کے حقوق و فرائض کے عنوان سے لکھا ہے ۔ یہ کم و بیش وہی انداز ہے جو آج کل اردو بازار لاہور ، کراچی اور خیبر بازار کی اُردو کی دکانوں میں دستیاب کتابوں کا ہے ۔ ’مثالی شوہر ‘ ’مثالی بیوی ‘ ’مسلمان مرد‘’مسلمان خواتین ‘وغیرہ جیسی کتابیں۔ مولانا حالی کے اُٹھائے ہوئے نکتے کا جواب نہیں ہیں ۔کسی زمانے میں ”بہشتی زیور“(حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ)کا بڑا چرچا تھا ۔ میں بھی اس کی افادیت کا قائل ہوں ۔ تاہم زمانہ بدل چکا ہے۔ اب ایک اور انداز سے یہ کام کرنا ہو گا ۔ ڈاکٹر عصمت جمیل نے اپنی مایہ¿ ناز کتاب ”نسائی شعور کی تاریخ ، اُردو افسانہ اور عورت“میں” بہشتی زیور “پر بڑی عالمانہ تنقید بھی کی ہے ۔ حالی، کریم الدین ، حسین آزاد ، راشد الخیری ، ڈپٹی نذیر احمد اور قاضی عبدالغفار سے لے کر عصمت چغتائی ، قرة العین حیدر ، بیگم شائستہ اکرام اللہ اور پھر چلتے چلتے ڈاکٹر فاطمہ حسن ، کشور ناہید ، رضیہ فصیح احمد ، فاطمہ ثریا بجیا ، شاہدہ حسن ، زاہدہ حنا ، پروین شاکر ، فہمیدہ ریاض اور بیگم ثاقبہ رحیم الدین تک کتنے ہاتھ قلم ہوئے مگرتہذیبِ نسواں کا مسئلہ جوں کا توں رہا۔افسوس کہ پختون قوم میں ”سین۔بے بے“کے بعد کوئی قابلِ ذکر خاتون نہ اُبھر سکی ۔ زیتون بانو ، شُمامہ ارباب ، سلمیٰ قاصر ، بیگم نسیم ولی خان ، جسٹس مُسّرت ہلالی ، بشریٰ فرخ اور ڈاکٹر سلمیٰ شاہین انگلیوں پر گنے جانے والے نام ہیںاگرچہ یہ فہرست حتمی نہیں ہے ۔ واضح رہے کہ پختون قوم سے میری مراد وہ تمام لوگ ہیں جو پختونخوا میں بس رہے ہیں ۔ ہزارہ ، ایبٹ آباد سے لے کر ڈی آئی خان تک ۔اسی لیے میرے کالم کا عنوان بھی پختونخوا کی خواتین ہے جن سے اس کالم میں مولانا حالیکی طرح میں بھی مخاطب ہوں کہ قوموں کی عزت تم سے ہے ۔ لیکن پختون قوم آج جس ذلت و رُسوائی اور زبوں حالی کی شکار ہے ، اُس کو عزت کے مقام سے بدلنے میں خواتین کیا کردار ادا کر رہی ہیں؟میں این جی اوز خواتین کی بات نہیں کر رہا ہوں جو ایک لحاظ سے قابلِ ستائش بھی ہیں اور جن سے ملتے ہی یہ شعر یاد آتا ہے
برقع اُٹھتے ہی چاند سا نکلا
داغ ہوں اس کی بے حجابی سے
مجھے ان ما¶ں بہنو سے بھی ہمدردی ہے جن کو ہر لمحہ آخرت کی فکر کھائے جاتی ہے ۔ ایسے گھروں میں ایک ”نامعلوم مُعلّمہ“آکر عذابِ قبر اور گرمئی حشرپر لیکچر دے کر چلی جاتی ہیں ۔ حالانکہ ایسی مدرس خواتین کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ ایسی بہنیںاسلامی تربیت کے موضوع پر ڈاکٹر حبیب اللہ مختار اور قاری محمد مطیع الرحمان کی کتابیںپڑھیں ۔یہی کرنے کا کام ہے ۔اِسی سے آخرت سنورسکتی ہے ۔ صوفیانہ حلقوں اور فروعی و نزاعی معاملات کے درس سجا کر اپنے میاں کی تنخواہ کو پَر نہ لگائیں ۔ میں ان خواتین کا ذکر بھی نہیں کر رہا ہوں جو درجنوں ٹی وی چینلز پر ڈرامے دیکھ دیکھ کر جا دو ٹو نے اور پیری فقیری کے چکر میں سر کھپاتی اور وقت ضائع کر تی ہیں ۔ آج کل کے ڈراموں کا تو کوئی اختتام نہیں ۔ اکثر خواتین کو بے کار کیا شل کر کے رکھ دیا ہے ۔ بے دریغ ٹی وی ڈراموں کی طرح یہ آج کل کی پیری فقیری بھی ایک لعنت اور وقت برباد کرنا ہے ۔ کسی وقتی نفسیاتی آرام سے مسائل حل نہیں ہو تے۔ بچوں پر ٹی وی ، انٹر نیٹ ، فیس بک اور موبائل ایس ایم ایس کے بھی غلط اثرات اس لیے زیادہ پڑتے ہیں کہ خود ما¶ں کے ذہن اکثر ٹی وی ڈراموں میںاُلجھے رہتے ہیں ۔ کاش آج کی بہنیں ان قبائح کی بجائے راشد الخیری ، عصمت چغتائی ، عظیم بیگ ، پطرس بخاری ، احمد ندیم قاسمی ، نذیر احمد ، منٹو ، قرة العین حیدر اور زاہدہ حنا کو پڑھیں ۔ اس طرح ان میں قابلِ رشک حد تک شعوری بیداری بھی آئے گی۔ ڈراموں کی نقالی سے کیا فائدہ؟میں ان خواتین کی بات بھی نہیں کر رہا جو ”بیگمات “کے نام سے مشہور ہیںاور ہر مہینے کسی نہ کسی ”بیگم“کے ہاں کپڑوں کی نمائش ، باریزے اور سلمیٰ ستارے کے کام والے بند اور کھلے چوکور اور مخروطی گلے پر میاں کا پیسہ پانی کی طرح بہاتی ہیں ۔ انہی شاہ خرچیوں سے مرد دوہرے عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اندر ٹینشن اور باہر انٹی کرپشن ۔ میں ان خواتین کی بات بھی نہیں کر رہا جو سیاست میں زور وشور سے نکلتی ہیں اور پھر اُن کا سارازورٹوٹ جاتا ہے ۔ البتہ ان کی جرا¿ت اور آزادی¿ نسواں کے لیے ان کے ہاتھ پا¶ں مارنا قابلِ داد بھی ہے اور قابلِ دید بھی ۔اکثرقدامت پرست پارٹیاں خواتین سے متعلق سخت انتہا پسندانہ خیالات رکھتی ہیں مگر ”ووٹ“کے لیے ان کو برقعہ پہنا کر باہر بھی لاتی ہیں ۔ حتّٰی کہ ان کے سیاسی حلقے بھی بنائے ہیں ۔ سیاست میں ان کی عددی برتری سے فائدہ حاصل ہو تو پھر جبہ و دستار کو بھی بہت ساری باتیں یاد نہیں رہتیں ۔ میں نصف سے زائد آبادی میں ان خواتین کی بات کر رہا ہوں جن کی آمدن قلیل ہے ، شریف النفس ہیں ، گھر یلوحالات ، بچوں کی تعلیم اور شادی بیاہ اوربزرگوں کی بیماری کے مسائل سے پریشان ہیں ، بجلی اور فون کے بلوں سے عاجز ہیں ، میاں کی سفید پوشی کے ہاتھوں اڑوس پڑوس میں آنے جانے سے کترا رہی ہیں کہ مبادا دوپیسے خرچ ہوں ، رشتہ داروں میں بھرم رکھنے اور آپس کی نا چاقی سے نالاں ہیں یا نافرمان اولاد کے ہاتھوں تنگ ہیں۔ پختونخوا کی ایسی خواتین کے لیے میں ایک کتابچہ لکھوں گا ۔ البتہ صاحب ِ استطاعت خواتین کو سوچنا چاہیے کہ اگر بقول مولانا حالی قوموں کی عزت ہم سے ہے تو ہماری پختون قوم آج بے عزّتی کے دن کیوں دیکھ رہی ہے ؟بد قسمتی سے بدطینت معاشرہ ، آزادی¿ نسواں کے مخالفین اور رجعت پسندحلقے خواتین میں شعوری بیداری کے سخت مخالف ہےں ۔ کوئی استحصالی طبقہ عورت کی آزادی نہیں چاہتا ۔ جاگیردارانہ اور ظالمانہ نظام کے خلاف سو مردوں کی آواز ایک طرف اور ایک نحیف و نزار عورت کی آواز دوسری طرف ۔کاش! خواتین اس نکتے کو سمجھیں۔ بعض لوگ ایسی باتیں کر تے ہوئے گھبراتے ہیں کہ مخالف عناصر فوراً پروپیگنڈا کر یں اور گھنا¶نی سازش کا جال بچھا ئیں گے ۔ میں کہتا ہوں یہ کام خواتین خود کریں تاکہ کوئی بنارسی ٹھگ اور یہودوہنودکے خیر خواہ اِس مقدس فریضے کو آلودہ نہ کر سکیں ۔ میں جانتا ہوں کہ اس ملک میں کس سطح اور کس شعبے میں کس قدر گندی سوچ اور غلیظ ذہنیّت کے لوگ بیٹھے ہیں جو آپ کے ہر اچھّے کام کے لیے ایک بُری اور بھیانک توجیہہ پیش کر کے فوج ،حکومت اور عوام کو آپ سے بر گشتہ کریں گے ۔ سرکاری دفاتر میں گمنام خطوط پر ایکشن اور بعض سخت گیر قوانین بھی صرف غریب صوبوں اور غریب لوگوں کے لیے ہیں ۔ غریب اور درمیانی لوگو ں کو اُبھرنے ہی نہیں دیا جا رہا ۔پتہ نہیں انجامِ گلستان کیا ہو گا؟۔ قبل اس کے کہ پختونخوا کے مرد ذلیل ہوں ، مرے یا بُری طرح مارے جائیں ، در بدر ہوں ، اغیار کے ہاتھوں چند ڈالروں پر بک جائیں یا کسی انتہا پسند کے ہتھے چڑھ جائیں ہماری تعلیم یافتہ اور غیرت مند ما¶ں بہنو بیٹیوں کو اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ اُن کو اپنی بھرپور نسائی شعور کا ثبوت دینا چاہیے ۔بعض طبقوں کی رجعت پسندی اور تسلّط کے خلاف خود خواتین کو کھڑا ہونا چاہیے ۔ ایران کی شاعرہ پروین اعتصامی کہتی ہے :”ہم سبزہ نہیں کہ ندی نالوں کے کنارے اُگتی رہیں ۔ نہ پرندہ ہیں کہ مٹھی بھر دانے دُنکے پر خوش رہیں ۔ اغیار کے بُنے ریشم سے ہمارا ٹاٹ ہزار درجہ بہتر ہے ۔ جو عورت ، کانوں کے جھمکوں ، گلو بند اور مرجان کے کنگنوں کی وجہ سے خود کو بر تر سمجھتی ہے وہ عورت نہیں ہے“۔فروغ فرخ زاد کہتی ہے :”میرے ہونٹوں پر خموشی کا قفل نہ لگا¶۔ مجھے اپنا راز کہنے دو ۔ مجھے اپنی آتشیں آواز کی گونج دنیا بھر کے لوگوں کی سماعتوں تک پہنچانے دو ، اگر مجھے اُڑنے دو گے تو میں شاعری کے باغ کا پھول بن کر مہکوں گی “۔امریکی بمباری میں زخمی ہونے والی عراق کی نازک الملائکہ کہتی ہے :”ہمیں بتایا گیا تھا کہ کہیں جادو کا ایک ٹھکانا ہے ۔ خوش ذائقہ نشے اور دھند لکے میں کھلتے گلاب جیسا ۔ کہاں ہے وہ ٹھکانا ، کہاں ہے وہ سر زمین ۔ کیا ہم اسے کبھی دیکھ بھی پائیں گے ؟یا پڑی رہے گی یہ جنّت یونہی ہمارے وجود کے اندر ، تہہ در تہہ اور کبھی حاصل نہ ہونے والی“۔استحصالی عناصر کے خلاف احتجاج کر تے کرتے خود کشی کرنے والی برطانوی شاعرہ سلویا پلاتھ نے کہا : ”دل تھم گیا ہے ۔ سمندر کی لہریں پیچھے ہٹ گئی ہیں ۔ آئینوں پر چادر ڈال دی گئی ہے ۔ عورت نے اپنی تکمیل کا مقام حاصل کر لیا ہے ۔ اس کے ننگے پیر کہہ رہے ہیں کہ ہم نے طویل سفر طے کیا اور سفر اب ختم ہوا “۔ یہ ہر آواز ایک سلگتی چیرتی چیخ ہے ۔ کاش !پختونخوا کی عورتیں بھی ایسی ہی کوئی آواز بلند کریں ۔ ان کا سفر تو ابھی شروع ہی نہیں ہوا ہے ، طے کیسے ہو گا اور ختم کیسا ہو گا ؟۔ وقت آگیا ہے کہ خواتین کی بیداری اور تہذیب ِ نسواں کی ایک نئی تحریک شروع کی جائے ۔ پختونخوا کے دانشور اس بات پر غور فرمائیں ۔ جو تعلیم یافتہ خواتین اس موضوع پر پڑھنا چاہتی ہیں وہ ڈاکٹر فاطمہ حسن کی ”کتابِ دوستاں“،”ادب اور فیمنزم“”بلوچستان کا ادب اور خواتین “اور ڈاکٹر عصمت جمیل کا مقالہ پڑھ لیں ۔ ڈاکٹر سلمیٰ نا ہید اور ڈاکٹر عظمی فرمان کے مقالے بھی پڑھیں ۔ رہے نام اللہ کا ۔

 

 

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *