Home » پوھوزانت » کیوبا کا سفرنامہ۔۔۔۔۔۔۔فیض احمد فیض

کیوبا کا سفرنامہ۔۔۔۔۔۔۔فیض احمد فیض

انہیں جنگی تربیت کے لےے ہسپانیہ کے ایک آزمودہ فوجی افسر کرنل البرٹو کی خدمات بھی حاصل ہوگئیں جو فرانکو کی بغاوت کے دوران ہسپانوی جمہوری دستوں کی کمان کرچکے تھے ۔ میں نے ہوانا کے مضافات میں ایک بہت دلچسپ سہ پہر اُن صاحب کے ساتھ گزاری ہے۔لحیم شحیم جثہ، سرخ سفید رنگ، چگی ڈاڑھی، عقابی آنکھیں ۔ یوں لگتا ہے جیسے ابھی کسی مار دھاڑ والی فلم میں سے اٹھ کر چلے آرہے ہےں۔
” دیکھو! جب میں فیڈل اور اُن دوسرے بچوں سے ملا تو میرا دل بھر آیا۔ میں نے سوچا کہ اِن نوجوانوں کے تو ابھی ہنسنے کھیلنے، دل لگانے اور گیت گانے کے دن ہیں۔ انہیں موت کے منہ میں آنے کی کیا پڑی ہے۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ ضمیر اور فرض کا کہا ٹالنا بہت مشکل ہے ۔ مجھے دیکھو!اگر مجھے مذہب سے رغبت ہوتی تو میں ضرور بدھ مدت اختیار کرتا ۔ اِس لےے کہ مجھے سب مخلوق اچھی لگتی ہے۔ مجھے سب انسان عزیزہیں، لیکن میری تمام عمر اِن سے لڑنے میں کٹ گئی ہے“۔
تو خیر سال بھر کرنل البرٹو سے گوریلا لڑائی کے داﺅ پیچ سیکھ کر فیڈل کاسٹرو، بیتستا کی تیس ہزار مسلح فوج سے ٹکر لینے 2 دسمبر 1956 کو پھر کیوبا کے ساحل پر اترا ۔ اب کے اُس کے ساتھ صرف اسّی ( ایک روایت کے مطابق اِکاسی) آدمی تھے ۔ اُن میں سے صرف بارہ زندہ بچے ، اور جب یہ بارہ نڈھا ل اور بے سروسامان لڑکے سیرا میسڑا پہاڑیوں کی چوٹیوں پر پہنچے تو فیڈل کاسٹرو نے کہا:
” بس اب ظلم کے دن تھوڑے ہیں، ہم جیت کر رہیں گے“۔
” اس کا دماغ چل گیا ہے “۔ اُ س کے ساتھ راڈ ریگر نے کہا ، لیکن آخر کاسٹروکی بات پوری ہوئی ۔ آہستہ آہستہ بیسیوں سینہ چاک ، پہاڑیوں میں اُن سے آملے۔ جگہ جگہ خفیہ باغی دستے پیدا ہوگئے ۔ دو برس تک معرکے ہوتے رہے اور آخر یکم جنوری1959 کو رات کے دو بجے صدر، وزیراعظم اور سپہ سالار بیتستا اپنے ذاتی ہوائی جہاز میں رفو چکر ہوگئے۔ اگلے دن کیوبا میں کاسٹرو کی انقلابی حکومت قائم ہوگئی۔

انقلابی حکومت

یہ پوری داستان بیان کرنا اِس لےے ضروری تھا کہ اِس کے بغیر کیوبا کی انقلابی حکومت اور کیوبائی عوام کی موجودہ ذہنیت اور طریقِ کار ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آسکتے ۔ اِس داستان کے جملہ واقعات بجائے خود اِس قدر محیر العقل ہیں کہ زیبِ داستان کے لےے کچھ بڑھانے کی ضرورت ہی نہیں ۔ انقلاب، کھاتے پیتے گھرانوں کے چند دانش ور اور آشفتہ سر نوجوانوں نے برپا کیا جنہیں کوئی سیاسی اور انتظامی تجربہ نہیں تھا‘ جو کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں تھے ‘جن کے پاس نہ سپہ تھی نہ سرمایہ ۔جو یقین سے صرف اتنا جانتے تھے کہ سیاسی آزادی اور معاشی اصطلاحات کے بغیر اُ ن کے پسماندہ ملک کی نجات ممکن نہیں۔ جنہیں اپنی کامیابی پر محض اِس لےے بھروسہ تھا کہ ذاتی شجاعت کے علاوہ بیتستا کی آمریت سے رائے عامہ کا متنفر ہونا اور ملک کی بہ ظاہر لا علاج زبوں حالی، انقلابی اقدامات کے معاون اور مددگار تھے۔
جب ہم ہوانا کے ہوائی اڈے پر اترے تو لاﺅڈ سپیکر پر فیڈل کاسٹر و کی ایک تقریردہرائی جارہی تھی:
” یہاں وہ لوگ جمع ہیں جو بھوک، بے کاری ، اور جہالت کے عادی تھے؛ وہ لوگ جمع ہیں جو مستقل تذلیل اور بدسلوکی کے عادی تھے، جنہوں نے افسروں کی گالیاں اور جھڑکیاں سہی ہیں ؛ پولیس کا تشدد برداشت کیا ہے ؛ سیاسی لیڈروں کے جھوٹ سنے ہیں؛ جوڑ توڑ کا تماشا کیا ہے ؛ جوا ہوتے دیکھا ہے ؛ عورتیں بکتی دیکھی ہےں۔ وہ لوگ جن کی زندگی میں کسی آس، کسی امنگ کو دخل نہیں تھا۔ ہاں یہاں وہ لوگ جمع ہیں جو کل تک یہی سمجھتے تھے کہ اُن کی زندگی میں امید کی شعاع کبھی نہیں پھوٹے گی۔ اُن کے بچوں ، بھائیوں ، بیویوں، اور ماں باپ کی زندگی میں اور اُن کے علاقے میں مدرسے تھے نہ ہسپتال اور نہ ڈاکٹر، جو یہ جانتے تھے کہ ہسپتال میں داخلے سے پہلے کسی بڑے آدمی کی سفارش ضروری ہے اور داخلے کے بعد فرش پر سوئے بغیر چارہ نہیں‘ جو یہ جانتے تھے کہ تعلیم ، دوا، مزدوری اور مستقبل اُن کے مقدر میں شامل نہیں۔ انقلاب کے بعد اور بھی بہت کچھ ہوا ہے ، لیکن سب سے بڑی بات یہ ہوئی ہے کہ عوام کی تحقیر اور تذلیل کا دور ختم ہوچکا ، اُن کی مایوسی اور بے آبروئی کے دن بیت چکے ہیں۔
” ہم نے کبھی آپ سے جھوٹ نہیں بولا؛ کبھی آپ کو دھوکا نہیں دیا ؛ ہم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ہم بہت بڑے مدبر اور منتظم ہیں۔ اِس کے خلاف ہم نے آپ سے یہ کہا تھا کہ ہمیں حکومت کا کوئی تجربہ نہیں ، لیکن ہم سیکھنا چاہتے ہیں ؛ ہم کچھ نہیں جانتے ، لیکن ہماری نیت صاف ہے ۔ ہم صرف ایک قول دیتے ہیں کہ ہم آپ کے کام آئیں گے ۔ آپ کے وفادار رہیں گے۔ آپ سے کبھی دغا نہیں کریں گے۔ یہ قول ہم نے نبھایا ہے اور نبھاتے رہیں گے“۔
فیڈل کاسٹرو کی شکل و شباہت اوراندازِ خطابت سے سیّد عطا اللہ شاہ بخاری مرحوم کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ وہی قوی ہیکل دہرا جسم ، بار عب طباقی چہرہ، بلند اور موثر آواز ، اور ہزاروں کے مجمع کو پہروں ہنسانے ، رلانے، بھڑکانے ، اور بہلانے پر قدرت۔ اِس سحر بیانی کے علاوہ اُس کی شجاعت کے بیسیوں قصے زبان زدِ عام ہیں اور اُس کی فراست اور علم و فضل کا لوہا اُس کے مخالف بھی مانتے ہیں۔ جہاں تک میں معلوم کرسکا ہوں فیڈل اور اُس کے ساتھیوں کی مقبولیت کا بڑا راز یہ ہے کہ اُن لوگوں میں اور اُن کے عوام میں قطعی کوئی بعد یا دوری نہیں ہے۔گنے کی کاشت کے دن آتے ہیں تو یہ سب لوگ کسانوں کے ساتھ مل کر گنا کاٹتے ہیں۔ لڑائی کا وقت آتا ہے تو پہلی صف میں لڑتے ہیں۔کسی قومی عمارت کی تعمیر شروع ہوتو ٹوکری اور کدال اٹھالیتے ہیں اور یہاں کوئی شخص جناب ِ عالی، جی حضور اور تو یا تم نہیں ہے ۔ فیڈل کاسٹرو کے عام جلسے میںمسلسل نوک جھونک چلتی رہتی ہے۔” فیڈل ٹوپی اتاردو گرمی بہت ہے۔فیڈل ٹوپی پہن لودھوپ تیز ہوگئی ہے ۔ فیڈل کوٹ پہن لو بارش آرہی ہے “۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنے قائد اور رہنما سے نہیں کسی ضدی بچے سے خطاب کررہے ہےں ۔ میرے ڈرائیور ” نیرا“ کے الفاظ ہیں۔” ہم لوگ فیڈل پر حکم چلاتے رہتے ہیں۔ فیڈل یوں نہ کرو، فیڈل ووں نہ کرو، لیکن ہم کرتے وہی ہیں جو فیڈل کہتا ہے“۔
اِس سے یہ نہ سمجھنا چاہےے کہ کیوبا میں فیڈل یا فیڈل کی حکومت کی مخالفت یک سر معدوم ہے ۔ کم از کم دو چار بڑے شہروں میں اُن کے بہت سے مخالف بھی موجود ہیں اور اُن کی تلاش میں کہیں بہت دور جانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی، لیکن اُن کا ذکر میں بعد میں کروں گا ۔ اِس سے پہلے یہ دیکھنا چاہےے کہ کیوبا کے ماضی و حال کے بارے میں فیڈل کا دعویٰ کہا ں تک صحیح ہے۔
کہتے ہیں کہ ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں اور صرف ایک رخ کی بات کرنا جانب داری کی دلیل ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ اِس کلےے کے بھی دور خ ہیں۔ افکار اور آرا کے بارے میں یقینا اختلاف کی گنجائش ہوتی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ سچ او رجھوٹ یا حقیقت اور عدم حقیقت کے دورخ نہیں ہوتے ایک ہی رخ ہوتا ہے اور محض اپنی غیر جانبداری ثابت کرنے کے لےے واقعات کوتوڑ مڑوڑ کر پیش کرنا صحیح نہیں۔

جدید کیوبا

یوں کیوبا میں ابھی تک تصویر کے دونوں رخ موجود ہیں۔ یہاں پر آپ کو ابھی تک کیڈیلک سوار لوگ بھی نظر آئیں گے ، برہنہ پا بھی ۔ دریدہ پیرہن بھی دکھائی دیں گے؛اطلس قبا بھی ، لیکن ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوگا کہ تصویر کے یہ دونوں رخ بہت سرعت سے مٹتے جارہے ہےں اور ان کی بجائے ایک نئی تصویر تشکیل پارہی ہے جس کے خدوخال بہت مختلف ہیں۔
انقلاب سے قبل کیوبا کے اقتصادی اورمعاشرتی کوائف کے بارے میں اقوام متحدہ اور امریکی محققوں کے جمع کردہ اعداد و شمار موجود ہیں ۔ اُن سے پتہ چلتا ہے کہ انقلاب سے پہلے کیوبا کے کل رقبہ میں سے تقریباً دو تہائی زمین بے کاشت پڑی تھی اور اُس میں سے بیش تر پر بڑے زمینداروں کے ڈھور چرائے جاتے تھے۔آباد اراضی جس کا دو تہائی حصہ شکر کمپنیوں اور بڑے زمینداروں کی ملکیت تھا۔ پناﺅی ریونامی صوبے کی تقریباً تمام زمین ایک سیاسی لیڈر کی ملکیت تھی۔صرف تین امریکن کمپنیوں کے قبضہ میں چھ لاکھ ایکڑ زمین تھی ۔
کیوبا کی ایک تہائی سے اوپر آبادی قطعی نا خواندہ تھی۔ دو تہائی بچوں کے لےے کوئی سکول نہیں تھا۔ ایک چوتھائی آبادی مستقل بے کار تھی۔باقی تین چوتھائی میں سے بیش تر سال میں صرف تین چار مہینے روزی کما پاتے تھے۔ جب گنے کی فصل کٹتی تھی۔
کسانوںاور معمولی کاشت کاروں کے معیارِ زندگی کا اندازہ اِس سے ہوسکتا ہے کہ سو میں سے اٹھانوے گھروں میں پانی کا نلکا نہیں تھا۔ نوے گھروں میں بجلی نہیںتھی۔سترگھروں میں نہ غسل خانہ تھانہ بیت الخلا۔ ہوانا اور دو چار بڑے شہروں کے امیر محلے نظر انداز کر دیجےے تو قریب قریب ہر آبادی ” لالوکھیت“ اور ” گولی مار“ کا نمونہ تھی۔ ہوانا شہر میں تین سو کے قریب لائسنس یافتہ قحبہ خانے تھے اور جسم فروش عورتوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی تھی۔ سات سو سے اوپر شراب خانے تھے جن میں گاہکوں کی تفریح کے لےے شراب کے علاوہ میزبان عورتیں بھی مہیا تھیں۔ قمار خانے شمار سے باہر تھے کیوں کہ اُ ن کی تعداد کہیں درج نہیں۔ ملک کی صنعت اور زراعت دونوں کا دارومدار گنے کی فصل اور شکر کے کارخانوں پر تھا۔ ملک کی جملہ برآمدات کی مالیت کا تقریباً اَسی فی صد حصہ شکر سے وصول ہوتاتھا۔
کیوبا کی بیش تر ریلیں ، ٹیلی فون ، لوہے، تانبے اور میگا نیز کی کانیں ، بڑی بڑی دکانیں اور سٹور ، ہوانا کے بڑے ہوٹل اور شکر کے تقریباً نصف کارخانے امریکی کمپنیوں کی ملکیت تھے۔زندگی کی روز مرہ ضروریات چاول، سبزی، مٹھائی، ماچس ، دوا وغیرہ بیش تر امریکا سے درآمد کی ہوئی اشیا سے پوری ہوتی تھیں۔
یہ سب اعداد و شمار تو کتابوں میں درج ہیں ان پر مستزاد لوگوں کی روایت یہ ہے کہ بیتستا کی حکومت میں اُ س کے رشتہ داروں اور حواریوں کے سوا کسی کے جان ومال کی ضمانت نہ تھی۔قمار خانوں اور قحبہ خانوں کا شمار نہ تھا۔ غنڈوں اور نو سر بازوں کی بن آئی تھی۔رشوت اور چور بازاری کا بازار گرم تھا ۔ سینکڑوں سرکاری ملازم ایسے تھے جو باقاعدہ تنخواہیںوصول کرتے ، لیکن دفتر کا منہ بھی نہ دیکھتے تھے ایسی ملازمت ’ بوتلیا‘ کہلاتی تھی اور اس کے حصول کا طریقہ یہ تھا کہ آپ نے پیسے دے کر کسی دفتر کے رجسٹر میں اپنا نام لکھوالیا اور گھر بیٹھے تنخواہ وصول کرتے رہے۔ تعلیمی اداروں میں خاص طو رپر بیش تر مدرس’ بوتلیا‘ ہی پر پل رہے تھے۔ ملک کے بڑے بڑے ہوٹل ، کلبیں ، ساحلی تفریح گاہیں، امریکی سیاحوں یا ملکی امرا کے لےے مخصوص تھیں۔ مثلاً ہوانا کے جس ہوٹل میں میرا قیام تھا اُس میں انقلاب سے پہلے کمرے کا شبینہ کرایا چالیس ڈالر یعنی تقریباً دو سو روپے سے اوپر تھا۔اچھے کلبوں اور قمار خانوں میں داخلے کی فیس پچاس روپے سے ڈیڑھ سو روپے تک تھی۔
کاسٹرو کے سیاسی مسلک اور اُس کی خارجی حکمتِ عملی کے بارے میں شاید اختلافِ رائے کی گنجائش ہو، لیکن یہ واقعہ ہے کہ گذشتہ چار برس میں کیوبا کی معیشت اور معاشرت کا مندرجہ بالا نظام یک سر نا بود ہوچکا ہے۔ اس کی وجوہ یہ ہیں۔ انقلابی حکومت نے سب سے پہلے زرعی اصطلاحات کا قانون نافذکیا جو ایک لحاظ سے ہماری زرعی اصلاحات کے قانون سے بھی زیادہ نرم ہے۔اِس لےے کہ ذاتی ملکیت کی حد قریباً ایک ہزار ایکڑ مقرر کی گئی جو کیوبا کی انتہائی زرخیز زمین کے پیش ِ نظر ایک کنبے کے لےے بہت کافی سمجھنا چاہےے اور ساتھ ایک رعایت یہ بھی رکھی گئی کہ اگر کوئی زمین دار اپنے علاقے کی اوسط شرح پیداوار سے زیادہ فصل پیدا کرے تو اُس کی ملکیت کا رقبہ تین ہزار ایکڑ تک بڑھایا جاسکتا ہے ، لیکن ہم سے فرق یہ ہے کہ اوّل تو خود کاشت کے علاوہ زرعی ملکیت سے استفادے کی اور سب صورتیں ممنوع ہیں۔ کوئی زمین بٹائی ٹھیکے یا پٹے پر نہیں اٹھائی جاسکتی۔ دوم، یہ کہ ضبط شدہ املاک میں سے ہر مزارع اور چھوٹے کاشت کار کو ساٹھ ایکڑ زمین کے مالکانہ حقوق بلا معاوضہ اور بلا قیمت عطا کےے گئے ہیں ۔ سوم، یہ کہ کوئی غیر ملکی شخص ، کمپنی یا اشتراک، زرعی زمین کی ملکیت کا مجاز نہیں۔ میری اطلاع یہ تھی کہ گنے چنے چند اشخاص کے علاوہ کسی زمیندار نے ایک ہزار ایکڑ زمین اور حکومت کا مقرر کردہ معاوضہ قبول نہیں کیا۔ امریکن کمپنیوں کی اراضی ویسے ہی ضبط قرار پا چکی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سب کسانوں ، مزارعوں، اور کاشت کاروں میں تقسیمِ املاک کے بعد بے شمار اراضی حکومت کے تصرف میں ہے۔ جہاں کواپریٹو ( شراکتیں) اور سرکاری فارم قائم ہوچکے ہیں۔
اِن اصطلاحات سے تین اہم نتائج برآمد ہوئے ۔ اوّل ، یہ کہ اب کسانوں، مزارعوں یا کاشت کاروں پر سرکاری مالیا نے کے علاوہ بٹائی، ٹھیکہ اور واجبات کا بوجھ نہیں ہے اور اپنے لےے بیج، آلات، آبپاشی اور دیگر زرعی لوازمات سہولت سے فراہم کرسکتے ہیں۔ دوم، یہ کہ محض شکر ، تمباکو اور کافی کی کاشت کی بجائے اب بہت سا رقبہ اور اجناس کے لےے وقف کردیا گیا ہے تاکہ غذائی ضروریات ملکی پیداوار سے پوری ہوسکیں۔ چاول، مکئی، گندم، سلاد، سبزیاں اور پھل یعنی کیلا، نارنگی، انناس ، آم ، پپیتا وغیرہ وسیع پیمانے پر کاشت کےے جارہے ہےں۔ اِس کے علاوہ مرغی فارم ہیں، مویشی فارم ہیں، ڈیری فارم ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ زمین کی تقسیم، فصلوں کے تنوع اور سرکاری فارموں کے قیام سے دیہاتی علاقوں میں مستقل اور موسمی بے کاری کا وجود قریب قریب نا پید ہوچکا ہے۔
زرعی اصلاحات کے بعد اِس نوع کی اصلاحات شہروںمیں رائج ہوئیں، جائیداد کی حد ، کرایوں کی شرح ، کاروبار میں منافع کی شرح ، مزدوروں کی اجرت، اوقاتِ کار اور اشیا کی قیمتیں سب حکومت کی طرف سے مقرر ہیں۔ یہاں بھی یہ ہوا کہ بڑے بڑے ہوٹلوں، عمارتوں اور کارخانوں کے مالک کم منافع اور کم آمدنی پر قناعت کرنے کے بجائے، انقلاب اور کاسٹرو کو جلی کٹی سناتے ہوئے بھاگے اور جو نہیں بھاگے وہ ابھی تک جلی کٹی سنانے میں مصروف ہیں۔ اُن کے محلات میں اب طلبا کے ہوسٹل ہیں؛ سرکار ی دفاتر ہیں؛ مزدوروں، ادیبوں اور دانشوروں کی رہائش گاہیں ہیں۔
جسم فروشی اور قمار بازی کے لےے سخت سزائیں نافذ کی گئیں اور بہ ظاہر اِن نتائج کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ بازاری عورتوں کی تعلیم و تربیت اور اخلاقی اصلاح کے لےے شہر سے دور بہت بڑے بڑے مراکز قائم ہیں۔ اِن کے متعلمین یعنی دلال، نشئی، پیشہ ور غنڈے ، بائنز کے جزیرے میں جبری مزدوری پر مامور ہیں۔ شہروں میں مفلوک الحال لوگوں کے ٹین اور ٹاٹ سے جوڑے ہوئے محلے، ساحل پر ماہی گیروں کی بانس کی جھونپڑیاں، دیہاتی علاقوںمیںکسانوں کے لکڑی اور چھال کے گھروندے ، تیزی سے گرتے جارہے ہےں اور اُن کے بجائے شہروںمیں کئی منزلہ فلیٹ اور ساحلی اور دیہاتی علاقوں میں صاف ستھرے ایک منزلہ مکانات تعمیر ہورہے ہےں۔ اِن تعمیرات میں مزدور، کسان، فوجی، سپاہی اور رضا کار سبھی طرح کے لوگ مصروفِ کار ہیں۔ کرایوں کی شرح عام طور سے تنخواہ یا آمدنی کا دس فیصد مقرر ہے ، لیکن سو ڈالر یعنی تقریبا ساڑھے پانچ سو روپے یا اِس سے کم اجرت پانے والوں کو کرایہ معاف ہے۔ کسانوں اور ماہی گیروں کے نئے تعمیر شدہ مکانات اُن کی اپنی ملکیت ہیں۔ مزدوروں کی کم سے کم اجرت 37 سینٹ یعنی تقریباً دو روپے فی گھنٹہ مقرر ہے۔
متفرق کام کرنے والے لوگ ، ریڑھے والے، چھابے والے، موچی، لوہار، بڑھئی، ٹیکسی ڈرائیور، جوتے پالش کرنے والے وغیرہ وغیرہ سب اپنی مخصوص شراکت یا سنڈیکیٹ کے رکن ہیں۔ اُن کے لےے کام کی فراہمی، اوقاتِ کار اور اجرت کی شرح کے تقرر کے علاوہ اُن کی رہائش، تفریح ، تعلیم و بہبود کے انتظامات کی ذمہ داری سنڈیکیٹ کی انتظامیہ پر ہے۔
صنعتی میدان میں سب سے مقدم روزمرہ استعمال کی اشیا کے کارخانے ہیں یعنی پارچہ جات، چرم سازی، برتن، ماچس، کیل کانٹے، پیچ، ڈِھبریاں، عمارتی ضروریات وغیرہ۔
کاسٹرو کی حکومت نے غالباً سب سے زیادہ توجہ اور سب سے زیادہ سرمایہ عوام کو تعلیمی سہولتیں بہم پہنچانے پر صرف کیا ہے۔ اِس سلسلے میں یہ بات مجھے اچھی لگی کہ جہاں جہاں انقلابی تحریک میں لہو بہا ہے۔ وہاں مقبرے اور مینار کھڑے کرنے کے بجائے یادگار کے طور پر بچوں کے سکول قائم کےے گئے ہیں۔ مانساد ا کی فوجی بارک اب بچوں کا سکول ہے۔ بے آف پگز کے ساحل پر ماہی گیروں کے بچوں کے لےے تربیت گاہ ہے اور سب سے عظیم الشان سکول سیرا میسٹرا پہاڑیوں کے دامن میں آج کل زیرِ تعمیر ہے۔ جس میں تکمیل کے بعد بیس ہزار بچے تعلیم پاسکیں گے۔ یہ سکول فوجی سپاہی اور فوجی رضا کار، قومی یادگار کے طور پر خود بنا رہے ہےں۔ ہسپتال، سینما ، کارخانے ، بجلی گھر اور بہت سی اراضی اِس درسگاہ سے متعلق ہیں۔ابتدائی مدارس سے لے کر یونیورسٹی تک طلبا کے جملہ اخراجات(فیسیں، رہائش، خوراک، وردی،کاغذ، قلم دوات وغیرہ) سب حکومت کے ذمے ہیں۔ اِس کے علاوہ چھٹی جماعت کے بعد بالائی خرچ کے لےے بہت سے وظائف ہیں۔ یونیورسٹی کے طلبائ20 ڈالر سے لے کر 27 ڈالر تک وظیفے پاتے ہیں۔

 

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *