Home » شیرانی رلی » کلیدِ نشاط ۔۔۔ عرفان شہود

کلیدِ نشاط ۔۔۔ عرفان شہود

گوشہ نشینی کے چِلوں سے پرھیز،
پھیکے زمانے کی تسبیح کے طے شدہ سب وظیفوں سے بے لذتی ،
کارِ دنیا کی بے رنگ قوسِ قزح،
ھانپتی زندگی کے وھی رات دن
میں نے دفتر سے کچھ روز وقفہ کیا
اور جنگل کی جانب کا رستہ لیا
میں تجھے ٹوٹ کے دیکھتا ھوں خداے زمن
جھومتی شاخ پہ پھول کھلنے کی رنگینیاں
پیڑ کی ٹہنیوں پہ فلک سے اترتی ہوئیں بارشیں
اور بھیگے ہوئے جانور
بے تحاشا پرندے جو غوطے لگائیں کھلے آسماں میں
تو جھیلوں کی سب مچھلیاں تیرتی ہیں کھڑے پانیوں میں
مرے گاوں کے کھیت میں شارکیں، باغ میں کوئلیں
غار کی تیرگی میں بسیرے ہیں چمگاڈروں کے،
ہرن بدحواسی میں جیون کی خواھش کی تعبیر ہیں
ریگ زاروں میں بارش نے سبزے کے فرشے کو روشن کیا تو کئی رنگ کی تتلیاں جھاڑیوں سے نمودار ھونے لگیں اور
آبی دھانوں پہ اک دوسرے کی زباں کو سمجھتے ھوئے طائرانِ فلک کا اخوت بھرا سلسلہ
زرد مٹی کی دیوار پہ رینگتی یہ سیہ چیونٹیاں
نیلگوں آسماں پہ مہاجر پرندوں کی سب ٹولیاں
اور لاوہ اگلتی زمیں پہ بھی خیمہ نشیں ہیں کئی کیکڑے
گویا تمثیل کا اک جہاں پیچ در پیچ کھلتا گیا
میری بے لذتی کسمساتی ہوئی خاک ہونے لگی
ایسے ارژنگ میں، میَں تو گوشہ نشیں ہو گیا

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *