پتھر سے ٹکرانا تھا
زخم تو لازم آنا تھا
کیا دھراتے پھرتے اب
قصہ بہت پرانا تھا
کیا پھر جچتا منظر کوئی
آنکھ میں روپ سہانا تھا
کیوں در کھول کے بیٹھے تم
کون تھا جس کو آنا تھا
افضل عشق نہ کرتے تم
دار سے گھبرانا تھا
Check Also
سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید
روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...