Home » شیرانی رلی » غزل  ۔۔۔ اسامہ امیر

غزل  ۔۔۔ اسامہ امیر

سامنے آئینہ رکھا ہوا تھا
بات کرنے کا حوصلہ ہوا تھا

میں نے دریا سے گفت گو کی تھی
اور میں رمز آشنا ہوا تھا

اْس گھڑی زندگی ملی تھی مجھے
جس گھڑی تجھ سے رابطہ ہوا تھا

زندگی اک سرائے خانہ ہے
کسی درویش سے سنا ہوا تھا

منتظر تھا کسی پری کا وہ
باغ میں پھول جو کھلا ہوا تھا

میری ہمت کی داد دو کہ مرا
پاگلوں سے مکالمہ ہوا تھا

سب مگن تھے نگار خانے میں
اپنا اپنا نشہ چڑھا ہوا تھا

آنے والے سے یہ کہا میں نے
جانے والے کا دل دکھا ہوا تھا

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *