Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ اسامہ امیر

غزل ۔۔۔ اسامہ امیر

پکارتا ہے مجھے، رائیگاں پکارتا ہے
یہ کون ہے جو پسِ آسماں پکارتا ہے

بہ وقتِ صبح سڑک کھینچتی ہے اپنے تئیں
بہ وقتِ شام شکستہ مکاں پکارتا ہے

اذان دیتا موذن بلاتا ہے مسجد
مگر خدا مجھے بعد از اذاں پکارتا ہے

میں جانا چاہوں تو، زنجیر کا بہانہ کیا؟
مگر وہ دوست مجھے نا گہاں پکارتا ہے

مرے یقین کو تو رائیگاں سمجھیو مت
بڑا یقین ہے مجھ کو، گماں پکارتا ہے

میں دو پہر میں نکل جاؤں گھر سے تو مجھ کو
درخت کھینچتا ہے، سائباں پکارتا ہے

میں روز جاتا ہوں کچھ شعر اپنے ساتھ لئے
کہ شام ہوتے ہی آبِ رواں پکارتا ہے

تمہیں تو اور کوئی بد گمانی ہے تم جاؤ
مجھے تو اور کوئی بد گماں پکارتا ہے

سراغ اس کا بھلا کس طرح لگاؤں امیر؟
خدا کہاں سے، کسے، کیوں، کہاں پکارتا ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *