Home » شیرانی رلی » غزل  ۔۔۔ اسامہ امیر

غزل  ۔۔۔ اسامہ امیر

خواہ اچھے، برے بناتا ہوں
سوچ کے زاویے بناتا ہوں

شام ہونے سے پیشتر صاحب
کینوس پر دیے بناتا ہوں

میں تصور میں پھول شاخوں پر
کچھ ہرے، کچھ بھرے بناتا ہوں

یہ پرانے ہیں، پھیکے پڑ گئے ہیں
ابر پارے نئے بناتا ہوں

خود کو اک مسئلے میں الجھا کر
اور کچھ مسئلے بناتا ہوں

کل تو خود کو بنایا تھا پاگل
آج دیکھو کسے بناتا ہوں

پہلے کرتا ہوں آپ کو تصویر
بعد میں آئینے بناتا ہوں

یہ ثمر ہے مری مشقت کا
سائے دیوار سے بناتا ہوں

آدمی کے لئے در و دیوار
اْس کے قد سے بڑے بناتا ہوں

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *