جانے کیسی یہ راہ گزر میں ہے
آدمی آج تک سفر میں ہے
آج ہر ایک کی نظر میں ہے
وہ تماشہ جو میرے گھر میں ہے
اْڑ رہا تھا ہوا کے دوش پہ جو
اب تو وہ دستِ کوزہ گر میں ہے
خون اتنا بہا ہے گلیوں میں
ایک وحشت سی بام و در میں ہے
یہ قیامت سے کم نہیں کہ خلوص
آج تشکیک کی نظر میں ہے
تیرے ہاتھوں سے اب نہ اْترے گا
خون ایسا مرے جگر میں ہے
کتنی صدیاں گزر گئیں نعمان
لمحہ لمحہ مری نظر میں ہے