Home » پوھوزانت » بچوں پر جنسی تشدد ۔۔۔۔ نورین لہڑی

بچوں پر جنسی تشدد ۔۔۔۔ نورین لہڑی

’’وہ تھی ہی ایسی ، ایسی لڑکیوں کے ساتھ تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ دیکھا نہیں تھا کیسے تیار ہوکر جاتی تھی، ارے کپڑے بھی تو ایسے پہنتی تھی کہ اللہ معاف کرے ۔بھئی مردود ایسی کہ مردوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھناتو جیسے کوئی عام سی بات ہو اُس کیلئے۔۔۔
’’گھر سے نکلنے والی لڑکیوں کا یہی انجام ہوتا ہے‘‘۔
’’بہت شوق تھا کہ ماں باپ کو اسے مردوں کے شانہ بشانہ پڑھانے لکھانے کام کرانے کا۔ اب دیکھ لو نتیجہ ۔گھر میں رہتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا‘‘۔۔۔
یہ وہ باتیں یہ وہ رویہ ہے جو اکثر جنسی زیادتی کا شکار بننے والی لڑکی کے بارے اور اس کے خاندان کے متعلق روا رکھا جاتا ہے۔
مجھے ہنسی ان کی پست سوچ پر آتی ہے اور دُکھ ان کی لاعلمی یا اُس مخصوص سوچ کے متعلق ہے جو ’’سرِ آئینہ‘‘ چیزوں کو دیکھنے کی حد تک محدود ہے مگر پسِ آئینہ دیکھنے کی بصیرت نہیں رکھتے ۔
اصل بات یہیں سے شروع کی جاسکتی ہے کہ لڑکی کے متعلق ’’جنسی زیادتی‘‘ کو Justifyلڑکی کا قصور بتا کر یا یہ رُخ دکھا کر ہوتا ہے۔ کہ اس کا لباس، گھر سے باہر نکلنا، مردوں میں اُٹھنا بیٹھنا ، جدید لباس پہننا ۔ یہی وہ تمام محرکات ، وجوہات ہیں جنہیں اُس سے ’’زیادتی ‘‘ کی بنیاد بتا کر اصل جرم اور اُس کی وجوہات پہ پردہ ڈالا جاتاہے مگر وہی جنسی تشدد جب بچوں کے ساتھ ہوتا ہے تو کیا تب بھی الزامات ، وجوہات یہ ہوسکتے ہیں؟۔
۔1۔بچوں کا لباس اُس کی جنسی تشدد کی وجہ بنا؟
۔2۔بچوں کا باہر جانا اُس کی وجہ ہے؟
نہیں ہم بچوں کے ساتھ جنسی تشددپہ یہ جواز یہ وجوہات نہیں بتا پائیں گے۔ وہاں بات سیدھے سیدھے یہی کہی جاتی ہے کہ ’’درندہ صفت‘‘ ،ظالم، انسان نے ایسی شرمناک حرکت کی۔
تو یہاں پہلی بات جو واضح ہوتی ہے وہ ہے یہ کہ ’’جنسی تشدد‘‘ کے متعلق اپنی سوچ ،اپنے تصورات تبدیل کرنا ہوں گے۔ جنسی تشدد بچوں کے ساتھ ہو یا عورتوں کے ساتھ اُس کی وجہ صرف اور صرف ذہنی پسماندگی ، اخلاقی بحران اور ہوس کے سوا کچھ نہیں۔
عورتوں کے معاملے میں تمام ترذمہ اُس کے کندھوں پر ڈال کر اُسے ہی ذمہ دار ٹہرا کر ہم بری الذمہ نہیں ہوسکتے ۔ معصوم بچوں کے ساتھ جب یہ ہو تو تب دل اور ذہن کسی جواز کو نہیں مانتا ۔
جنسی تشدد پست ذہنیت ، اخلاقی طور پر دیوالیہ ہوچکے معاشرے کی پیداوار ہے۔
perceptionیہ بھی ہے کہ جنسی تشدد کا شکار بچے گھر کے اندر محفوظ ہیں ۔یہ واقعات گھروں سے باہر ہوتے ہیں ۔ یہ تصور بھی غلط ثابت ہوتا ہے جب تحقیق کی بنیاد پر یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان میں گھر میں ہی جنسی تشدد کا شکار بنتے ہیں ۔اکثریت خاندان کے گھر کے نوکر چا کر ، دوست عزیز اقارب یعنی زیادہ ترجان پہچان والے لوگ ہی ہو تے ہیں۔
مارچ 2017میں ایک تحقیق کی رپورٹ کے مطابق رواں سال بچوں پہ جنسی تشدد میں 10فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ یعنی گذشتہ سال 4,139تھی جس میں 76فیصد Ruralعلاقوں جبکہ 24فیصد urbanعلاقوں کی رپورٹ کی گئی ۔ یہ تو وہ تعداد ہے جو میڈیا میں آئی ہے۔ یقیناًیہ تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہوگی کیونکہ بد نامی کے خوف غربت اور قانون تک نارسائی یا قانون سے لاعلمی کے باعث اکثر بچوں کے casesدرج ہی نہیں ہوتے۔ پاکستان میں جنسی تشدد کا رجحان پنجاب میں زیادہ ہے۔یہ تعداد رپورٹ کے اعتبار سے کچھ یوں ہے۔
پنجاب2676
سندھ987
بلوچستان166
اسلام آباد 156
خیبر پختونخواہ141
آزاد جموں کشمیر9
گلگت بلتستان4
یہ بات بتاتے ہوئے اور دکھ ہوتا ہے کہ جنسی تشدد کا شکار بچوں کی اکثریت کی عمر 11سے 15سال ہوتی ہے جن میں لڑکا لڑکی دونوں شامل ہیں۔
ہمارے اور آپ کے بچے گھر ، محلہ ، سکول، اورمدرسہ کسی جگہ محفوظ نہیں۔
پاکستان میں ہر روز تقریبا 10بچے زیادہ جنسی ہوس کا نشانہ بن رہے ہیں۔
یہ صرف جنسی تشدد سے ہی نہیں بلکہ ذہنی اور جسمانی تشدد سے بیک وقت گزرتے ہیں۔
ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق جنسی تشدد کے شکار بچوں کی مدد ہم تب کرسکتے ہیں جب ہمیں یہ علم ہو کہ کیا وہ جنسی تشد کا شکار ہیں۔ چند ظاہری علامات کی نشاندہی کچھ لوگوں کی گئی ہے
۔1۔ چھوٹی معمولی باتوں پر بہت زیادہ غصہ کرنا۔
۔2۔اکثر اداس رہنا ، بے جا خاموشی ۔گم سم رہنا۔
۔3۔تنہا پسندی
۔4۔ نشیلی چیزوں کا استعمال
۔5۔جسمانی صحت کا گرنا، کمزور ہونا کسی مخصوص جسمانی تکلیف یادرد میں مبتلا ہونا
۔6۔ کھیل کود ،تعلیمی سرگرمی میں عدم دل چسپی۔ کسی مخصوص شخص کو دیکھ کر گھبرانا، ڈر جانا ،چھپ جانا ۔
۔7۔ بات چیت میں خوف /دقت محسوس کرنا ،ناخن چبانا ، اعتماد کی کمی، گھر سے بھاگنا ۔
۔8۔پُر تشدد رویہ اپنانا ،دوسروں کے سامنے لباس تبدیل کرتے ہوئے رونا ، ڈرنا۔ ان علامات کے ذریعے ہم victimکی مدد یا معاونت کرسکتے ہیں۔
جنسی تشدد کے شکار بچوں کی معاونت کرتے وقت ان باتوں کا خاص خیال رکھیں ۔
۔1۔گویہ مشکل مرحلہ ہے مگر اگر کوئی بچہ آپ کو خود پر جنسی تشدد کے متعلق بتائے تومندرجہ ذیل الفاظ استعمال نہ کریں :’’اوہ او، بہت برا ہوا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ، ایسا ہو ہی نہیں سکتا ، وہ تو ایسا شخص ہی نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو‘‘ ۔
یہ وہ جملے ہیں جو اُس جنسی تشدد کا شکار بچے کو اوربرباد کردینگے۔
بچی کو اپنے ساتھ ہوئی زیادتی کو اپنے لفظوں سے اُسے بیان کرنے دیں ۔ اُسے روکیں ٹوکیں مت ۔اس سے وہ گھبراکر تفصیلات نہیں بتاپائے گی۔
جنسی تشددکا شکار بچوں کو اس بات کی یقین دہانی ضروری ہے کہ جو کچھ ہوا اس میں اس کی غلطی نہیں یا وہ خود ذمہ دار نہیں ۔
اگر جنسی تشدد کا شکار بچہ غیر محفوظ ہے اُسے یا آپکو کوئی خطرہ لاحق ہے تو اس بات کے پیش نظر قانونی معاونت لینے سے بالکل دریغ نہ کریں۔
خوش آئند بات یہ کہ ہے قانونی معاونت کیلئے The Balochistan Child Protection Act, 2016موجود ہے۔ جس سے بچوں پر جنسی ، جسمانی اور ذہنی تشدد سے تحفظ کی فراہمی اور انصاف کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔
بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں جہاں قانون سازی کی اہمیت ہے وہاں میڈیا /سوشل میڈیا خاص کر اس زمرے میں ایک انتہائی اہم ستون ہے ۔
سوشل میڈیا پر نٹ میڈیا پر ایسا مواد بدرجہ اتم موجود ہے جو بچوں اور بڑوں کی ذہنی نشووغا میں انتہائی منفی کردار ادا کررہے ہیں۔ آج کل بچے بڑی آسانی سے انٹرنیٹ پر جا کر ہر طرح کی websiteاور تصاویر یا ویڈیوز دیکھ کر اس پر تشدد رجحان کو ترویج دینے میں اُس کے حصہ دار بن رہے ہیں ۔ جنسی رجحانات کی ترویج کی میڈیا ، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا پر پابندی ہو۔
میڈیا کے علاوہ والدین کا ایک بڑا اہم کردار یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت اس حوالے سے ضرور کریں کہ کوئی بھی شخص والدین کے علاوہ اس بات کامجاز نہیں کہ وہ بچوں کے ذاتی جسمانی حصوں یا پوشیدہ حصوں کو دیکھنے یا چھونے کی کوشش کرے۔ بچوں کو اعتماد دیں کہ ایسا ہونے کی صورت میں وہ فوراً والدین کو بتائیں ۔سکول میں اساتذہ بھی بچوں کے ساتھ یہ رویہ اپنائیں کہ اگر کوئی بھی بچہ /بچی کلاس میں نصابی یا غیر نصابی سرگرمیوں میں دل چسپی نہیں لے رہا، عام بچوں سے بہت مختلف رویے کا شکار ہے ،بے جا خوف یا خاموشی کا شکار ہے تو وہ بچوں کو اعتماد میں لے اور والدین سے بھی رابطہ رکھیں۔ اساتذہ کا کام صرف نصابی سرگرمیوں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بچوں کی حقیقی معنوں میں اخلاقی تربیت اور ذہن سازی میں اساتذہ کا کلیدی کردار ہو تا ہے۔
بچوں سے جنسی تشدد کے متعلق جو مفروضے جو تصورات موجود ہیں وہ حقائق سے بالکل منافی ہیں۔ میں چند مفروضے اور اس کے برعکس اس کی حقیقت بتانا ضروری سمجھتی ہو۔
۔ صرف بڑے لوگ اپنے بچوں سے جنسی تشدد کرتے ہیں۔

01 Myth:
حقیقت:۔ تمام زیادتی کرنے والے جان بوجھ کر جنسی زیادتی نہیں کرتے بلکہ ان میں بہت سارے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو خود جنسی تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔ اس زیادتی کا بدلہ وہ بڑے ہوکر اپنے یا دوسروں کے بچوں سے زیادتی کرکے پور ا کرتے ہیں۔

02 Myth:

اچھے گھرانوں میں بچے جنسی تشددکا شکار نہیں ہوتے ۔یہ غریب یا برے گھرانوں کا مسئلہ ہے۔
حقیقت:۔ جنسی تشدد کا شکار بچے مختلف رنگ ، نسل ، زبان، معاشی پس منظر،مذہب ، ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہ مخصوص گروہ، مذہب ، خاندان یا علاقائی پس منظر کے لوگوں کے بچوں کے ساتھ نہیں ہوتا۔

03 Myth:
۔ بچوں سے جنسی تشدد کرنے والے اکثر اجنبی ہوتے ہیں۔
حقیقت:۔ تحقیقی رپورٹس کے مطابق75 سے 80 فی صد جنسی تشدد کرنے والوں میں جان پہچان والے افراد، خاندان کے افراد، پڑوسی، اوراساتذہ شامل ہوتے ہیں۔

04 Myth:
۔ جنسی تشدد کا شکار بچے ہمیشہ بڑے ہوکر جنسی تشدد ہی کرتے ہیں۔
حقیقت:۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ اکثر بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کو وہ بڑے ہوکر رد عمل میں آکر اسیCycle کو دہراتے رہتے ہیں مگر تمام جنسی تشدد کے شکار بچے ایسا نہیں کرتے ۔ان میں اکثریت بچوں کے تحفظ کے لیے زیادہ احتیاط کرتے ہیں ۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *