میر عبداللہ جان جمالدینی کی یاد میں
مجھے اپنی نوجوانی بلکہ لڑکپن سے ہی اپنی زبان سے گہرا لگاؤ تھا۔ یہ تقریباً1954 یا1955 کا زمانہ تھا جب میں15 یا 16 برس کا تھا۔ ماہنامہ ’’ اومان‘‘ باقاعدگی سے پڑھنے بلکہ کبھی کبھار اس میں لکھنے کی ’’ مشق‘‘ بھی کرتا رہتا رہا۔ 1956 میں جب آزاتؔ جمالدینی نے کراچی میں ماہنامہ ’’ بلوچی‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا تو میں نے اس میں بھی اپنی خامہ فرسائی کی مشق جاری رکھی۔ چونکہ ’’ بلوچی‘‘ کا دفتر ہمارے گھر سے کوئی آدھ میل کے فاصلے پر تھا میں وقتاً فوقتاً آزاتؔ صاحب کے دفتر جاتا تھا اور کبھی کبھی ’’ بلوچی ‘‘ کے انتظامی امور میں اپنی ناچیز حیثیت کے مطابق اُن کا ہاتھ بھی بٹاتا رہتا تھا۔ جب بھی میں ان کے پاس جاتا تھا وہ بہت شفقت اور پیار سے ملتے تھے ۔اس کے علاوہ وہ نہ صرف میری تحریروں کی اصلاح کیا کرتے تھے بلکہ اپنے مفید مشوروں سے بھی نوازتے رہتے تھے۔
ایک دن میں حسبِ معمول ’’ بلوچی‘‘ دفتر گیا تو میں نے وہاں دو نئے چہرے دیکھے۔ آزات ؔ جمالدینی نے ان کا تعارف کچھ اس طرح سے کیا۔ ’’ یہ میرے چھوٹے بھائی عبداللہ جان ہیں۔ اور یہ ہیں مشہور صحافی انجم قزلباش ‘‘۔ اِتفاق سے میں ان دونوں ناموں سے بخوبی واقف تھا۔دونوں بہت خندہ پیشانی سے ملے۔ واجہ عبداللہ جان کی سحرآفریں مسکراہٹ سے میں مسحور و مرعوب ہوگیا ۔وہ کچھ اس طرح سے ملے جیسے مجھے سات پُشتوں سے جانتے ہوں۔ وہ بہت پیار اور محبت سے ملے اور دیر تک میرے بارے میں پُوچھتے رہے۔ اُنہیں میری تعلیم کے بارے میں زیادہ دلچسپی تھی۔میں نے انہیں بتایا کہ میں ابھی دسویں جماعت میں پڑھ رہا ہوں۔ ( اُس زمانے میں طالب علم گیارہویں میں میٹرک کیا کرتے تھے)۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ’’ خوب محنت سے پڑھو ۔ تم جتنا زیادہ پڑھو گے تمہاری تحریروں میں اُتنی ہی زیادہ پُختگی آئے گی‘‘۔
اُس پہلی ملاقات کو میں زندگی بھر نہیں بھلا سکا۔ اُن کے سرخ و سفید چہرے کی تابناکی اور ان کی وہ مخصوص مسکراہٹ مجھے آج بھی اچھی طرح سے یاد ہے۔ دراصل ان کی وہ مثالی مسکراہٹ اُن کی شخصیت کی اٹوٹ پہچان بن گئی تھی۔
اُس پہلی ملاقات کے بعد اُن سے ’’ بلوچی‘‘ کے دفتر میں ہمیشہ ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ وہ ہر وقت نہایت خندہ پیشانی اور محبت سے ملتے تھے بلکہ میں نے دیکھا کہ وہ ہر شخص سے اُس پیار و محبت سے ملتے تھے چاہے اس کی سماجی حیثیت یا قومیت کچھ بھی کیوں نہ ہو۔ ہماری ان ملاقاتوں میں ان سے بلوچی اور اردو ادب کے بارے میں گفتگو ہوتی تھی۔ وہ میری تحریروں کے بارے میں مجھے اپنے استادانہ مشوروں سے نوازتے تھے۔ لیکن ان کے لہجے میں تحکم کا شائبہ بالکل نہیں ہوتا تھا۔اُنہیں بلوچی ، براہوی، اردو، پشتو، فارسی اور انگریزی زبانوں پر پوری پوری دسترس حاصل تھی۔ وہ بلوچی، اردو اور پشتو زبانوں میں یکساں روانی کے ساتھ لکھتے تھے۔ میرے خیال میں مشرقی بلوچستان میں وہ پہلے اور شاید آخری شخص تھے جو پشتو میں لکھتے تھے اور ان کے مضامین اس وقت پشتو رسائل میں چھپتے تھے ۔کاش کہ اُن کے بعد آنے والے بلوچ اور پشتون ادیب بھی ایک دوسرے کی زبانیں سیکھتے اور اپنی تحریریں ان زبانوں میں رقم کرتے !
واجہ عبداللہ جان ترقی پسند تحریک سے خاص طور پر متاثر تھے۔ اردو کے بہت سارے ترقی پسند ادیبوں کے نام میں نے پہلی بار اُن ہی سے سُنے تھے۔ مثال کے طور پر منشی پریم چند، سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، احتشام حسین، ساحر لدھیانوی ، کرشن چندر اور عصمت چُغتائی ۔ وہ کہتے تھے کہ میں ان کی کتابیں ضرور پڑھوں ۔ اس کے علاوہ وہ میکسم گورکی ، صدر الدین عینی اور الکساندر پُشکن کے بڑے مدّاح تھے۔
واجہ عبداللہ جان ماہنامہ ’’ بلوچی‘‘ کی پروف ریڈنگ اور اس کی نشر و اشاعت میں اپنے بڑے بھائی آزاتؔ جمالدینی کا بھی ہاتھ بٹاتے رہتے تھے۔ اُن کے ذمہ نوآموز بلکہ بعض اوقات کہنہ مشق ادیبوں کے مضامین اور افسانوں کی زبان اور اِملا کو درست کرنابھی شامل تھا۔ میں نے ان دو یا تین برسوں میں اُن سے بہت کچھ سیکھا۔ میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ مجھے ان جیسا انسان دوست اور قابل استاد ملا۔ ایک ایسا استاد جو ادب و فن کی باریکیوں سے نہ صرف واقف تھے بلکہ اپنی تحریروں میں ان باریکیوں کو کما حقہ ملحوظ خاطر بھی رکھتے تھے ۔ ان کی بلوچی اور اردو تحریریں اس بات کا بہترین ثبوت ہیں۔
وہ نہ صرف ایک غیر معمولی استاد و بلند پائے کے ادیب بلکہ ایک مقناطیسی شخصیت کے مالک بھی تھے جو ہر کسی کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ ان کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کے رگ و ریشو ں میں پیار و محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ وہ بلا امتیاز تمام انسانوں سے محبت کرتے تھے اور ہر قسم کے بُغض و تعصب سے یکسر پاک تھے۔
ہماری پہلی ملاقات کے چند ہفتوں یا مہینوں کے بعد وہ قادر بخش نظامانی کی توسط سے سویت سفارتخانے ، محکمہ نشر و اشاعت کے ساتھ منسلک ہوگئے۔ سال دو سال کے بعد ارباب اختیار کے دباؤ کی وجہ سے واجہ آزاتؔ کو نہ صرف ’’ بلوچی‘‘ کی اشاعت بلکہ اپنا تجارتی دفتر بھی بند کرنا پڑا۔ جس کے نتیجے میں اُن کو کراچی کو بھی خیر باد کہنا پڑا۔ اس کے بعد واجہ عبداللہ جان سے مہینے دو مہینوں میں ملاقات ہوتی تھی۔ میرے خیال میں ڈیڑھ یا دو برس بعد ان کی ملازمت کسی وجہ سے ختم ہوگئی اور وہ واپس وطن چلے گئے۔1960 کے اواخر میں شیر محمد مری کے ساتھ کوئٹہ چلا گیا چونکہ وہ سخت بیمار تھے اُنہیں چرچ مشن ہسپتال میں داخلہ کرلیا گیا ۔ ان کی دیکھ بھال کے لیے میں بھی وہیں رہنے لگا۔وہ کچھ عرصے بعد بہتر ہوئے۔ اُس نے ’’ حُدّہ‘‘ میں کرائے پر ایک مکان لیا۔ میں بھی وہیں رہنے لگا۔ اس پورے عرصے کے دوران میں واجہ عبداللہ جان سے برابر ملتا رہا۔ وہ اُن دِنوں اپنے دوست ملک عثمان کاسی کی کیمسٹ کی دکان ( چلتن میڈیکل سٹور) سے منسلک تھے بلکہ اُس کو چلانے کی تمام تر ذمہ داری اُنہی کے سپرد تھی۔ واجہ عبداللہ جان جمالدینی کی وجہ سے یہ دکان گویا تحریک کا ایک مرکز بن گئی تھی۔جہاں بلوچ اور پشتون ادیب و شاعر اور قوم پرست و ترقی پسند سیاسی دوست آکر ملتے اور اس دکان کو ایک سیاسی مرکز میں بدل دیا کرتے تھے ۔ ارباب اختیار کو ظاہر ہے کہ یہ بات بالکل بھی نہیں بھاتی تھی۔ سی آئی ڈی کے اہل کار ہمیشہ دکان کے آس پاس منڈلاتے رہتے تھے ۔ ان میں سے ایک صاحب تو ہر روز صبح سے شام تک مسلسل دکان کے بالکل مقابل الف کی صورت کھڑے رہتے تھے تاکہ اُنہیں پتہ چلے کہ کون کون لوگ وہاں آتے ہیں اور واجہ عبداللہ جان سے ملتے ہیں ۔ اِس طرح سے ’’ چلتن میڈیکل سٹور‘‘ ایک اور ’’ لٹ خانہ‘‘ بن گیا تھا۔ ظاہر ہے جہاں اتنے سارے پڑھے لکھے لوگ آکر ایک دوسرے سے باقاعدگی سے ملیں اور جہاں سی آئی ڈی والے چاروں طرف ان کی ’’حفاظت ‘‘ کے لیے موجود ہوں تو اس دکان کا حشر کیا ہوسکتا تھا۔ سال دو سال بعد ’’ چلتن میڈیکل سٹور‘‘ کی آخری رسومات وقت سے بہت پہلے ادا کی گئیں۔ اس طرح اس طبی ، ثقافتی، سماجی اور سیاسی ادارے کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہوگئے۔
اُن ہی دنوں ہمارے جو رہنما قلی کیمپ میں بند تھے اُن سب کو ایک ایک کرکے رہا کردیا گیا۔ ان رہا ہونے والوں میں میر غوث بخش بزنجو، میر گل خان نصیر، محمد حسین عنقا اور مولانا سعد اللہ زہری شامل تھے۔ میر گل خان نصیر رہائی کے بعد سیدھا اپنے گھر نوشکی چلے گئے۔ البتہ میر غوث بخش بزنجو چند دنوں تک ایک ہوٹل میں قیام پذیر رہے۔ میر صاحب کا چھوٹا ساکمرہ بلوچ سیاست کا گویا مرکز بن گیا۔ ملک کی صورتحال بے حد کشیدہ تھی۔ کوئٹہ بلکہ پورے بلوچستان میں خوف و دہشت کی فضا قائم تھی۔ میں نے دیکھا کہ چند اچھے لوگ چاہتے ہوئے بھی میر صاحب کو ملنے سے کتراتے تھے ۔ بہر حال انہی حالات میں واجہ عبداللہ جان اور میں ہر رو ز ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ملکی حالات کے بارے میں رائے زنی کیا کرتے تھے۔ان نشستوں میں نواب خیر بخش مری اورسردار عطاء اللہ مینگل باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔ چند دنوں کے بعد میر صاحب اپنے گاؤں نالؔ چلے گئے۔
میں اپنا زیادہ تر وقت یا تو مطالعے میں یا پھر ’’ چلتن میڈیکل سٹور‘‘ میں واجہ عبداللہ جان کے ساتھ گزارتا تھا جہاں قریبی ساتھیوں کے علاوہ بلوچستان کے گوشے گوشے سے چھوٹے بڑے تاجر اُن سے مختلف بیماریوں کی دوائیں خریدنے آتے تھے۔ اُن کے ذریعے اندرونِ بلوچستان کے حالات کے بارے میں بہت ساری معلومات مل جاتی تھی۔ دراصل ان ملنے والوں میں سے چند لوگ تو محض گپ شپ اور چائے نوشی کے لیے آتے تھے ۔ واجہ عبداللہ جان سے ہررو ز باقاعدگی سے ملنا میرا معمول بن گیا تھا۔ اگر میں کوئی دن کسی بھی وجہ سے ناغہ کرتا تو وہ خود میرے گھر پہنچ جاتے اور میرا حال معلوم کرتے ۔ کوئٹہ کے ان دو چار مہینوں کے قیام کے دوران میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔
کریم دشتی ، حکیم بلوچ، صدیق آزات اور یعقوب بزنجو سے میں پہلی بار اِسی دوران ملا اور ہم سب دوستی کے ایک اٹوٹ رشتے میں منسلک ہوگئے ۔ ان سب نے کم و بیش ایک ساتھ گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا ہوا تھا۔ اُن کے علاوہ عطاؔ شاد اور صورت خان مری سے بھی یارانہ رہا۔ یہ دونوں دوست ان دِنوں کوئٹہ ریڈیو سے بلوچی میں پروگرام پیش کیا کرتے تھے۔
ایک دن ایک ایساخوش گوار واقعہ پیش آیا کہ جسے میں زندگی بھر بھُلا نہیں سکتا۔ کسی نے صبح صبح دروازہ کھٹکھٹایا ۔ دروازہ کھولا تو میر مٹھا خان مری کھڑے مسکرارہے تھے ۔ میں حیرت زدہ ہوکر اُن کو تکتا رہا۔ اُنہوں نے کہا ’’ اندر نہیں بلاؤ گے؟‘‘۔ بلوچ ادیبوں میں میر مٹھا خان مری کی اپنی ایک منفرد حیثیت تھی۔ وہ نہ صرف بلوچی کے بلکہ اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں کے بہت بڑے عالم تھے۔ انہوں نے بتایا کہ واجہ عبداللہ جان نے اُن کو میرے گھر کا پتہ دیا تھا۔ اُن سے پتہ چلا کہ وہ بھی ’’حُدّہ‘‘ میں ہی رہتے ہیں۔ ویسے میں ان سے پہلے بھی مل چکا تھا لیکن اُن کا از خود میرے دروازے پر آنا میرے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ اُس خوش آئند دن کے بعد وہ ہفتے میں دو تین بارمیرے پاس ضرور آتے اور ایک دو گھنٹے میرے ساتھ گزارتے۔ ظاہر ہے ہمارا موضوع سخن بلوچی زبان و ادب ہی ہوتاتھا۔
میں نے ان چند دنوں میں ان کی عالمانہ صحبت سے بہت کچھ حاصل کیا۔ وہ بلاشبہ علمی میدان میں بلوچ ناقدین میں سب سے پیش پیش تھے۔ گو کہ اُن کا تعلق قدیم مدرسۂ فکر سے تھا۔ لیکن وہ حیرت انگیز طور پر بہت آزاد خیال تھے۔ افسوس صد افسوس کہ ہمارے نئے لکھنے والوں نے اُنہیں’’ بوجوہ‘‘ بالکل فراموش کردیا ہے۔
موسم گرما اور خزاں میں میں نے کسی نہ کسی طرح سے وہاں گزارا کرلیا مگر جب جاڑا آیا تو میرے ہاں انگیٹھی نہ ہونے کی وجہ سے مسلسل بیمار رہنے لگا۔ واجہ عبداللہ جان کو میری صحت کے بارے میں بھی بہت زیادہ تشویش تھی۔ وہ بلا ناغہ ہر روز میرے پاس آتے اور دواؤں کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا بھی اپنے ساتھ لاتے۔ انہوں نے میرے لیے ایک انگیٹھی کا بندوبست بھی کیا۔ لیکن میری حالت کسی طو ر بھی بہتر نہیں ہورہی تھی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ میں کراچی واپس چلا جاؤں ۔ میں نے کہا کہ طبیعت تھوڑی سنبھل جائے تو میں چلا جاؤں گا۔ لیکن میری طبیعت سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ میری نقاہت دیکھ کر انہوں نے ایک طرح سے حکم دیا کہ میں شام کا کھانا اُن کے ہاں کھایا کروں۔ میرے لئے سوائے ہاں کہنے کے کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا۔ کوئی ہفتہ یا دس دن تک میں اُن کے ساتھ اُن کے گھر جاتا تھا۔ ان چند دنوں میں جئیند جان کی والدہ نے میرا حد سے زیادہ خیال رکھا۔ وہ بھی واجہ عبداللہ جان کی طرح مجھ پر از حد مہربان تھیں اور مجھ سے ہمیشہ پیار و محبت سے پیش آتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی عادتیں واجہ عبداللہ جان سے ہو بہو ملتی تھیں۔بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ دونوں ایک ہی شخصیت کے دو کردار ہیں۔ جس رِقت انگیز انداز سے یہ دونوں عظیم انسان اس دنیا سے چلے گئے اسکا صدمہ ہمارے دلوں میں اب بھی ویسے ہی تازہ ہے۔
میری طبیعت دن بد ن خراب سے خراب تر ہوتی جارہی تھی۔ واجہ عبداللہ جان نے اب کی بار مجھے گویا باقاعدہ ’’ حکم‘‘ دیا کہ میں کراچی واپس چلا جاؤں ۔ دو تین دن کے بعد وہ گھڑی بھی آگئی جب مجھے اُن کو اور اُن کے تمام گھر والوں کو اور دوستوں کو الوداع کہنا پڑا۔ کوئٹہ کے وہ چند مہینے میری زندگی کے بہترین ایام میں سے تھے۔ واجہ عبداللہ جان کی مجھ پر اتنی عنایات اور اتنے احسانات تھے کہ میں ساری زندگی اُن کو بھلا نہیں پایا۔ کراچی جانے کے بعد میں نے ان سے اپنا رابطہ ہمیشہ پوری طرح برقرار رکھا۔
’’ چلتن میڈیکل سٹور‘‘ اُجڑ جانے کے بعد واجہ عبداللہ جان میر غوث بخش بزنجو کے ساتھ منسلک ہوگئے اور ’’ نیشنل عوامی پارٹی‘‘ کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔ جس کے نتیجے میں انہیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں بلکہ لاہور شاہی قلعے میں بھی محبوس رہے ۔ جہاں اُن پر روزنہ الطاف و عنایات کی بارشیں بھی ہوتی رہیں ۔ مگر ان کے پائے استقامت میں کوئی بھی لرزش پیدا نہیں ہوئی۔ بالآخر وہ شاہی قلعے سے سُرخرو ہوکر نکلے۔ اپنی معاشی صورتحال کی وجہ سے وہ مجبور ہوئے کہ اپنے لیے کوئی ملازمت تلاش کریں۔ سائیں قادر بخش نظامانی کے توسط سے ان کو پھر سے کراچی میں سویت سفارتخانے میں ادارۂ نشر و اشاعت میں ملازمت مل گئی ۔ ان کے کراچی آنے سے میں بہت خوش ہوا۔ ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوا۔ اور آخر دم تک قائم رہا۔
میں نے اپنی زندگی میں اُن جیسے صاف گو، سادگی پسند، انسان دوست اور درویش صفت لوگ بہت ہی کم دیکھے۔ واجہ عبداللہ جان بلوچی، اردو، پشتو اور فارسی ادبیات ایک جید استاد اور عالم ہونے کے باوجود ہر خواندہ و ناخواندہ شخص سے نہایت حلمِ و انکساری اور عزت و احترام سے ملتے۔ اُن کی سب سے بڑی پہچان یہ تھی کہ وہ ہر انسان سے کچھ اس طرح سے غیر مشروط پیار کرتے تھے کہ گویا اُنہیں اسی مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہو۔ میں اپنے آ پ کو نہایت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں ایک عرصہ ان کے ساتھ گزارا۔ واجہ عبداللہ جان کی صحبت ہمیشہ پیار و محبت کی خوشبوؤں سے بسی ہوتی تھی۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے شاید اُن جیسے انسانوں کے لیے یہ شعر کہا تھا:۔
ماٹھون سَب نہ سُھٹا، پکیّ مِژیھیی نہ ھَنج
پر کنھن کَنھن ماٹھوؤ مَنج
اچھی بوہِ بھَار جِیی۔
ترجمہ:۔ لوگ تمام کے تمام خوبصورت نہیں ہوتے
پرندے بھی سب کے سب ہنس کی طرح حسین نہیں ہوتے
مگر کچھ کچھ انسانوں سے بہار کی خوشبو آتی رہتی ہے