Home » پوھوزانت » کاشف حسین غائر ۔۔۔ قاضی دانش صدیقی

کاشف حسین غائر ۔۔۔ قاضی دانش صدیقی

کاشف حسین غائر قابلِ احترام تشخّص رکھنے والا ایک معتبر شخصیت کا حامل شاعر ہے اور یہ بات کتاب بہ عنوان “کہا جائے گی تنہائی ہماری” سے منقول چہار اطراف روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔یہ سخن ساز اپنے سامعین و قارئین کے لئے روایت کے چراغ عالم افروز سے پھوٹتی ایک جدت آمیز روشنی ہے جو تشنگانِ علم و سخن کی قلبی و روحانی تسکین کے لئے نت نئی جہتوں کا سفر تراشتا ہے۔
غائر کی شاعری دل آویز یا ہیجان انگیز تصورات, مضمون آفرینی، تشبیہات و استعارات سے وابستہ و آراستہ، خلّاقی سخن کا وہ نادر و نایاب نمونہ ہے جس کی دلیل وہ آپ خود ہے۔کاشف حسین غائر کی سخن سرائی سے سماعتوں کا چونک پڑنا لطفِ غزلیت کی معراج ہے۔
اس کے اشعار پڑھتے ہی شعریت کی تشخیص کرتی زباں پر کہیں شیرینی تو کہیں ذائقہ ملاحت ابھرنے لگتا ہے جو اپنے آپ میں ایک سرشاری ہے۔

کاشف حسین دشت میں جتنے بھی دن رہا
بیٹھا نہیں غبار مرے احترام میں

مجھ سے بھی ملئے کہ ملنے میں قباحت کیسی
خشک مٹی سے بھی تو آبِ رواں ملتا ہے

پہلے مجھ کو بھیڑ میں گم کردیا
پھر مجھے آواز دی جاتی رہی

ہاں مری پہلی محبت کی گواہ
اْس گلی کی آخری دیوار تھی

کاشف حسین دونوں طرف کی یہ خامشی
ترکِ تعلقات کا آغاز ہی تو ہے

آنا تھا ایک روز برا وقت آگیا
لیکن یہ بات کیا ترے جانے سے جوڑیے

مرے علاوہ نہیں ہے کوئی حریف مرا
میں خود کو تختہ مشقِ ستم بناتا ہوں

کسی کسی پہ ہی ہوتا ہوں منکشف غائر
مرا مزاج ہے میں دوست کم بناتا ہوں

کچھ حرج نہیں اس میں ملا لیجے دل بھی
شانہ بھی تو آخر مرے شانے سے ملا ہے

کاشف حسین غائر اپنے اشعار میں انسانی جذبات و احساسات کی مکمل ترجمانی کا داعی ہے یہ نفسیاتی مسائل یا باہمی تعلقات و کیفیات کو برتنے میں کہیں نہیں چوکتا۔ روّیے مثبت ہوں یا منفی ان کو پرکھنے کا جواز در اصل غائر کی ہی میراث ہے جس کا فلسفیانہ اظہار اپنی مکمل توانائی اور خوش اسلوبی لئے قاری کو اپنا مطیع کرنے سے کسی طور گریز نہیں کرتا اور یہی سحر انگیزی غائر کی شاعری کا امتیازی اعزاز ہے۔شعر دیکھئے

کیا اتنا بڑھ گیا مری تشنہ لبی کا شور
سیلاب دیکھنے مجھے صحرا تک آگیا

بحیثیتِ شاعر حس باطنی و ظاہری کے مشترکہ احوال کو اپنی مکمل قوت کے ساتھ بیان کرنا اگرچہ کوئی کارِ محال نہیں تو کم از کم کارِ دشوار ضرور ہے۔
یہاں سے وہ چونکانے کا عمل سامعین کی ذہنی سطح پر تشنہ لبی کے احساس کو چار و ناچار کسی فرسودہ طرزِ تغزّل سے جدا وہ قد و قامت بخشتا ہے جو تحیر کو سیراب کرتی ایک واضح لکیر ہے، اور یہی لکیر تو وہ نکتہ ہے جو غائر کے یہاں غزلیاتی وصف کا شاہد، آپ کی شاعرانہ رفعتوں کا امین، اور آپ کی تخیّلاتی متانت سے فطری طور پر ہم آہنگ ہونے کا دعویدار ہے ۔

بطور حسیتِ شاعرانہ حیرت کو اگر ایک با مثل مجسماتی چہرے کی طور پر تجسیم کیا جائے تو اس کے زاویے اپنی تمام تر دائرانہ وسعتوں کے مْنافی احساسِ محرومی سے زیادہ استغنا کیفیت میں مبتلا و سرشار نظر آتے ہیں ۔یا یوں کہئے کہ احساس محرومی حیرت کی عارضی صورت، جبکہ استغنائی کیفیت دائمی ہوتی ہے ۔
یہاں محرومیت کی پشت پر لا پروائی سفر کرتی ہے

شعر دیکھئے
عشق والے کبھی نہیں مرتے
اس نے زندہ اٹھا لیا ہے مجھے
یہ وہ مقام ہے جہاں شاعر کا عشق اپنا عملی اختیار ترک کر کے اپنی تمام محریوں سے دامن چھڑا کر خدا کی حکمتوں کا معترف ہوجاتا ہے، جہاں فنا اپنی تمام حدود سے تجاوز کی سعی کرتی بعد از مرگ زندگی کی صرف متلاشی ہی نہیں رہتی بلکہ اس سے بہرہ مند اور سرفراز بھی ہوتی ہے اور حقیقتاً یہی وہ وصف ہے جو ایک شاعر کو بقائے جاوداں عطا کرتا ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *