Home » پوھوزانت » پروفیسر نادر قمبرانی کی یاد میں ۔۔۔ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو 

پروفیسر نادر قمبرانی کی یاد میں ۔۔۔ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو 

انسان زندگی سے پیار کرتا ہے او ر شاید ہر کسی کو زندگی عزیز ہوتی ہے ۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے زندگی پیار کرتی ہے ، اسے یاد کرتی ہے۔ اس کی دوستی، سنگتی، پیار ومحبت ، یادیں، باتیں اور سب سے بڑھ کر اس کی خود داری۔وہ مسکراتا چہرہ جس میں اپنی زندگی کے آخری سالوں کو جس دور تکلیف اور کرب کے ساتھ گزارا اور آہ تک نہیں کی۔ ایسے انسانوں سے ہی ز ندگی پیار کرتی ہے ۔ ہم جیسے دوست سنگت ان جیسے انسانوں کو بھلا کیسے بھول سکتے ہیں جن سے ہمیشہ زندگی پیار کرتی رہی ہے ۔ ایسے انسان خواب بن جاتے ہیں ہم جیسوں کو جگانے کے لیے ، بیدار کرنے کے لیے۔ وہ آج بھی ہمیں جگارہے ہیں اورہم اٹھنے کا نام نہیں لیتے ۔ ’’کیا ہور ہا ہے کیونکہ اس طرح ہورہا ہے ، دیمک نے تم لوگوں کو اس طرح چاٹ کر رکھ دیا ہے کہ اب صرف سانس لینے کے لیے زندہ ہو اور اسے بھی نہیں لے پار رہے ہو۔‘‘
ہاں میں اُس انسان کی بات کررہا ہوں جو اتنا کچھ دے جائے گا جو میرے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا۔ ایسے انسان اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں، شاید ہم سکوں سے رہیں لیکن اب تو نیند نہیں آتی اور سوبھی نہیں پاتے اور جب سونے لگتے ہیں تو آپ کا مسکراتا چہرہ ہمیں پھر سے لمبی زندگی دے جاتا ہے ۔
پروفیسر نادر قمبرانی پہ بات کرنے کے لیے میں حیران ہوں کہ انہیں کیا ٹائٹل دوں۔ وہ طبیعتاً آزاد تھے، (Naturalist)فطرت پسند تھے جو فطرت کے ہر objectمیں حسن ڈھونڈتے تھے۔ وہ ایک ایسا Nationalistتھا جو دنیا کی ہر قوم ہر زبان سے محبت کرتا تھا۔ ایک ایسا درویش جو ہر شے کو ’’محبت کا مظہر مانتا تھا ایک ایساMarxistجو’’نجی ملکیت‘‘ کو Curseیعنی لعنت سمجھتا تھا۔ وہ عملا کمیونسٹ تھا۔ ان کی شخصیت کے وہ پہلو جو ہماری مفلوک الحال قوم کے بچوں کی رہنمائی کر سکتے ہیں ان پر کام ہونا چاہیے۔پروفیسر نادر جان کی شخصیت اور تعلیمات بچوں کو ایک خالص اور بہادر انسان بنانے میں جوcontributionدے سکتی ہیں ہمیں ان پر غور کرنا چاہیے کہ کیسے ہم اپنے بچوں کو بلا تفریق محبت کرنا سکھا سکتے ہیں۔ دولت پرستی کی دوڑ میں علم پسندی اور انسان دوستی سے ان کے دماغ روشن کرسکتے ہیں ۔وہ علم انہیں دیں جو سرشار اور مست رکھتا ہے۔ نادر صاحب قول اور فعل میں تضاد نہیں رکھتے تھے وہ عورتوں کے حقوق پر واضحStandرکھتے تھے۔ اور اپنی بیٹیوں کو انہوں نے بیٹوں کی طرح پالا۔انہیں بینک بیلنس اور پلاٹ ، عیش اور چین کی زندگی کی خواہش نہیں تھی، انہیں زندگی کے حسن ، علم اور انسان دوستی کا نشہ تھا۔ ایسی Valuesپہ کام ہونا چاہیے۔
اپنے بچوں کو پہاڑ جیسا حوصلہ دینے والے محبت اور عشق کی تعلیم دینے والے ، فطرت کے ہر رنگ اور روپ کی پرستش کرنے والوں کی آج بہت ضرورت ہے اور Crisisکے دنوں میں ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے ۔ اگر ہم اپنے پیاروں کی ان اقدار پہ کام کریں گے تو اچھے اور برے راستے کافرق ہمارے بچوں کے سامنے واضح ہوجائے گا۔
پروفیسر نادر جان قمبرانی کے ساتھ میری(یادیں) بہت ہیں انہیں بہت قریب سے دیکھا اس کے اندر کے انسان کو بھی۔ عبدالغفور سے پروفیسر نادر جان قمبرانی تک کا سفر انتہائی کٹھن ، دشوار ، نشیب وفراز سے بھرپور ، دکھ ، درد، غم اور جدوجہد سے لبریز رہا۔ چہرے پر مسکراہٹ ، لبوں پہ ہنسی رقص کرتی رہی اور خود موسم کے کنارے چلتا رہا، اندر ہی اندر کا یہ سفر علم، روشنی، شعورو آگاہی کو لیکر بلوچستان کے کونے کونے میں روشنیاں بکھیرتا رہا۔ جتنے خوش اخلاق خوبصورت انسان اتنے ہی خوبصورت ذہن کے مالک۔State Forward،ہمت اور حوصلہ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ صبر کا سمندر، دوستوں کا دوست ، یاروں کا یار، شفیق استاد کٹھن مشکل اور سخت دور کا ہمسفر ۔۔
پروفیسر نادر قمرانی کی اردو، براہوی وفارسی شاعری مہر، دوستی، وطن سے عشق، محبت سے سرشار اور عشق سے لبریز ہے۔
زندگی کے آخری 8,10سال کی مدت جگر اور شوگر کی بیماری میں گذرے ، لیکن اپنی روز مرہ Activitiesکو ساتھ ساتھ جاری رکھا۔ مختلف پروگراموں میں طبیعت کی ناسازی کے باوجود بھی آپ نے رہنما یانہ کردار ادا کیا۔ پروفیسر نادر جان کیWill Power کو سلام ہے ۔ ڈاکٹروں نے جواب دیا تو Will Powerنے ساتھ دیا ، ہار ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے۔ زندگی کی ہر تکلیف کو مسکراتے ہوئے سہہ لیا ، تبھی تو موت ان سے ہارگئی اور زندگی نے ساتھ چھوڑ دیا ۔
’’جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی
جسم مٹ جانے سے انسان نہیں مرتے‘‘
ہم کچھ دوستوں نے مل کر بابا میر غوث بزنجو فاؤنڈیشن تشکیل دی تو زندگی کے آخر ایام تک ہمارے پروگراموں کی صدارت کی جب تک حیات تھے ان پروگراموں کے روحِ رواں تھے۔
پروفیسر نادر جان قمبرانی کے ساتھ ہمارا رشتہ عقیدت واحترام کا ہے ایسے انسان ہمیشہ کے لیے زندہ رہ جاتے ہیں اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں زندہ قومیں اپنی محبوب ہستیوں کو یاد کرتی ہیں۔ پروفیسر نادر قمبرانی زندگی کے آخر ایام تک اپنے دوستوں کے ساتھ رہے۔طبیعت کی ناسازی کے باوجود خود دوستوں سے ملنے جاتے اور انہیں یاد کرتے ۔ میں جب بھی ان سے ملنے جاتا وہ اپنے دوستوں کاحال احوال لیتے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ان کی طبیعت بہت خراب تھی۔ ڈاکٹروں کے پاس جانا تھا اسے داخلے کی ضرورت تھی، لیکن وہ بضد تھے کہ ایک شرط پر چلوں گا۔ پہلے مجھے مستونگ لے چلو ملک سعید احمد دیوار کی فاتحہ خوانی کے لیے جانا ہے ۔ منت سماجت کرنے کے بعد انکو ڈاکٹر کے پاس لے آئے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *