آکر عروج کیسے گرا ہے زوال پر
حیران ہو رہا ہوں ستاروں کی چال پر
اک اشک بھی ڈھلک کے دکھائے اب آنکھ سے
میں صبر کر چکا ہوں تمھارے خیال پر
آ آ کے اس میں مچھلیاں ہوتی رہیں فرار
ہنستی ہے جل پری بھی مچھیروں کے جال پر
مایوس ہو کے دیکھنا کیا آسمان کو
اْڑنے کا شوق ہے تو مری جاں نکال پر
میں تنگ آچکا ہوں کہ سمجھاؤں کس طرح
اک روز چھوڑ دوں گا تجھے تیرے حال پر
کچھ یاد ہے کہ میں نے بنائے تھے تیرے نقش
پھر اتنا ناز کیوں ہے تجھے خدو خال پر
مثلِ گلاب آپ جو مہکے ہیں باغ میں
بوسہ وصول کیجیے تتلی کا گال پر
تفریق کس طرح سے کروگے یہاں پہ زیبؔ
انساں لکھا ہوا ہے درندوں کی کھال پر