Home » پوھوزانت » خزاں میں بہار  ۔۔۔  پروفیسر فیض محمد شہزاد

خزاں میں بہار  ۔۔۔  پروفیسر فیض محمد شہزاد

سفر زندگی رواں دواں ہے اور چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے حصے کی عمر گزارنی پڑتی ہے۔ آج جب میں زندگی کے ماضی کے دریچے سے جھانکتا ہوں تو کتنی منزلیں طے کر چکا ہوں ۔یونیورسٹی کی یادیں نا قابل فراموش ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ آج ماما جمالدینی کی یادحدوں کی دہلیز پار کرچکی ہے۔ وہ ماما جمالدینی جن کی صحبت میں بیٹھ کر میں دنیا جہاں سے بے نیاز بلکہ خود سے بھی بے نیاز ہوجاتا ۔شعبہ پاکستان سٹڈیز سنٹر کا نام ماما جمالدینی ہی تھے ۔ وہ علم کی شمع فروزاں تھے۔ طالب علم مثل پروانے دور دور سے اس شمع کی جانب کھینچے چلے آتے ۔یعنی پروفیسر شکوراللہ،پروفیسر نصیر مینگل ، پروفیسر بہادر خان رودینی، پروفیسر عابد شاہ عابد اور پروفیسر سیال کاکڑ یہ سب احباب تھے جو اسی شعبے کے جو ہمہ وقت موجود رہتے ۔ان کے علاوہ پروفیسر وارث اقبال ،پروفیسر مجتبیٰ حسین ، پروفیسر میڈم گورمانی، پروفیسر برکت، پروفیسر عبداللہ مینگل ، پروفسیر ڈاکٹر فاروق احمد، لائبریرین لاشاری (جو بڑے عملی شخص تھے )،پروفیسر عبدالخالق بلوچ ، میڈم فردوس قاضی انور اور پروفیسر شرافت عباس جیسے عملی ومثالی کردار بلوچستان یونیورسٹی کی عملی روشنی سے نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک کے اکثر گوشوں کو منور کر رہے تھے ۔ یہ وہ مقناطیسی شخصیات تھیں کہ ان کی مقناطیسی خوبی نے جگن نا تھ آزاد کو آزاد کشمیر سے ، پریشان خٹک کو خیبر پشتونخوا سے ، احمد ندیم قاسمی، پروین ،شاکر اور احمد فراز کو پنجاب سے اور سلیم فرخ کو کراچی سے کھینچ کر بلوچستان یونیورسٹی کے سیمناروں میں شرکت کرواتے ۔مذکورہ بال شخصیات کے علاوہ کافی نام جو ذھن سے باہر ہیں اکثر عملی وادبی تقریبات میں شرکت کرنے کیلئے آئے۔ اس طویل تمہید باندھنے کا مقصد آج کے طلباء کو اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ ان منو ر شخصیات کے عملی مقام سے ہم کس طرح فیض یاب ہوئے ۔ مجھے یاد ہے کہ ماما جمالدینی ، بہادر خان رودینی اور مجتبیٰ حسین صاحب جب مل بیٹھتے تو قہقہوں سے فضاء گونج اٹھتی ۔ ان میں ظرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کہ مجتبیٰ صاحب نے میڈم گورمانی کی موجودگی میں ماما جمالدینی سے پوچھا کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ آج آپ میں شان صوفیانہ نظر آرہی ہے کس صوفی کی صحبت کا یہ اثر ہے تو ماما جمالدینی شرمیلے جوان کی طرح شرماتے ہوئے آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر بولے صوفیہ لارین کا اثر ہے ۔ تو اس کے جواب میں حقیقی قہقہوں کا جو ماحول بنا مجھے آج تک یاد ہے۔ یہ ایسے عظیم لوگ تھے کہ آج کے لوگوں کو دیکھ ان کے رویوں کو دیکھتے ہوئے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ وہ انسان نما فرشتے تھے۔کیونکہ مجھے یاد ہے کہ جب بھی یونیورسٹی ہاسٹل میں طلباء تنظیمیں آپس میں الجھ پڑتیں تو صلح وصفائی میں سب سے پہلے یہی لوگ پیش پیش ہوتے اور وہ طلبا ء تنظیموں کے لیڈر ان کی محبتوں سے متاثر تھے اور بے چون وچراں اُن کے فیصلے مان لیتے ۔ ہمارے دور کی یونیورسٹی مارننگ کی طرح ایوننگ میں بابہار وبارونق ہوتی طلبا ء اساتذہ کے ہاتھوں۔
وائس چانسلر اکبر شاہ، پروفیسر ماما جمالدینی ، پروفیسر سیال کاکڑ ، پروفیسر شکوراللہ ، پروفیسر عابد شاہ عابد یکجہتی کے حوالے سے پاکستان سٹڈی سینٹر میں پشتو بلوچی اور براہوئی کلاسزکا باہم آغاز کرتے ہوئے یہ باور کرواگئے کہ ہم سب ایک ہیں۔ اور اس ڈیپارٹمنٹ کے اندر رہنے والے ان لوگوں کی محبتوں کا یہ ثمر ہے کہ آج ڈاکٹر عبدالرزاق صابر، پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید شاہوانی ، پروفیسر ڈاکٹر زینت ثناء ،پروفیسر عبدالحلیم ، پروفیسر ڈاکٹر نصیب اللہ سیماب ، پروفیسر محمد عظیم اپنی علمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور پھر ان کے ثمر موجودہ یونیورسٹی کے بڑے بڑے نام جو آج علمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں انہی بڑی شخصیات کے اگائے پودے ہیں جوآج ثمر وسیایہ دونوں دے ہیں ۔راقم الحروف فیض محمد شہزاد نے پروفیسر ماما جمالدینی ، پروفیسر مجتبیٰ حسین ، ڈاکٹر فاروق احمد سے وہ کچھ حاصل کیا ہے جس پر تاحیات نازو فخر رہے گا ۔ چاہتے ہوئے بھی قلمی حوالے سے انکا حق اد انہیں کیا جا سکتا ہے جہاں جہاں علمی حلقوں میں راقم الحروف کی پہنچ ہے وہاں وہاں انکا ذکر خیر ہوتا رہتا ہے ۔ یہاں ایک بات کا اظہار بھی کرتا چلوں کہ جیسے سب کو علم ہے کہ سردیوں میں درس وتدریس کا سلسلہ منقطع ہوتا تو یونیورسٹی ویران ہوجاتی اور راقم الحروف ایڈمنسٹر یشن سے منسلک ہونے کی وجہ سے سردیوں میں بھی یونیورسٹی آتا اور علمی وادبی و سیاسی سوچ رکھنے کے باعث وسیع حلقہ احباب سے منسلک تھا اور ماما اسی شعبہ کے ڈائریکٹر تھے جس کے باعث وہ بھی موجود رہتے اور ایک روز ماما جمالدینی بجائے اپنے آفس کے(بھول سے ) میرے آفس کو اپنا آفس سمجھ کر ایک شان سے اندر آئے اور میں یہ سمجھا کہ چھا پہ مارنے آئے ہیں۔ میں سمجھ گیا اور فوراً اپنی کرسی سے اٹھا اور میرے کمرے میں جشن بہاراں کا سما تھا ماما نے شفقت سے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ بیٹا بیٹھ جاؤ ۔اور میں بہ ضد تھا کہ میں ماما آپ کو آپ کے آفس لیے چلتا ہوں ‘‘ اس بات پر ماما ہنستے ہوئے بولے ’’مجھے آپ کا جشن بہاراں کھینچ کر یہاں لایا ہے ۔ آپ تو خزاں میں بھی بہار ہو آپ پر کس صوفی کی صحبت کا اثر ہے میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’’صوفیہ کا نام بھو ل چکا ہوں ، نہیں بتاتا ۔ اور اس پر آفس میں بیٹھے تمام بشمول ماما اور راقم الحروف ایک ساتھ اس انداز سے ہنسے کہ شاید کوئی غم ہے ہی نہیں۔ماما میں آپ کی محبتیں کس طرح بھلاؤں۔ آپ وہ پیکر محبت تھے کہ آپ کی محبتوں کے سائے میں بیٹھ کر میں نے قلم چلانا سیکھا۔ ماما میں آج یہ سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب عزیز ماما آپ سے ملنے آئے اور میں نے دفتری کام کے سلسلے میں جب آپ دونوں کو باہم دیکھا تو میری خوشی کی انہتا نہ رہی کیونکہ عزیز اللہ ماما میرے حقیقی ماما بھی تھے اور میں دوماما کے درمیان واقعتا شہزاد لگ رہا تھا۔ ماما آپ اور مجتبیٰ حسین کی برکت سے میں کئی بڑے بڑے ادیبوں سے مل چکا ہوں نام لکھنے کیلئے مضمون کے صفحات نا کافی ہیں۔ واقعی ماما آپ جب تھے تو میں تو مین خزاں میں بہار تھا۔ آج کا انسان محبتوں وشفقتوں سے عاری ہے ان لوگوں کو آپ کی محبتوں کی مثالیں دینا ضروری ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *