Home » قصہ » اوورٹائم ۔۔۔ س۔ م ۔ساجد

اوورٹائم ۔۔۔ س۔ م ۔ساجد

آج سویرے ہی شیفالی کی آنکھ کھل گئی اور اس کے کانوں میں جب چاروں طرف سے فجر کی اذان کی آوازیں سنائی دینے لگیں تو کمرے میں تاریکیوں کا بسیرا بھی ختم ہوتا محسوس ہونے لگا۔ اب کچھ ہی دیر میں روشنی کی کرنیں بانس کی چٹائی سے بنی ہوئی دیواروں سے چھن چھن کر کمرے میں آنے لگیں گی اور بستی میں معمولاتِ زندگی کے آغاز کے لئے شورو ہنگامے بھی شروع ہوجائیں گے ۔ بچوں کے رونے کی آوازیں ، باہر نلکے سے پانی لینے کے لئے عورتوں کے جھگڑے ، مزدوروں کی دوڑ بھاگ ، سائیکل رکشوں کی گھنٹیوں کی آوازیں اور پھیری والوں کی صدائیں شیفالی کے لئے اب نئی نہیں تھیں۔ وہ ان تمام چیزوں سے مانوس ہوچکی تھی۔ اس لئے نیند ٹوٹ جانے کے بعد بھی آنکھیں بند کئے بستر پر پڑی رہی تا کہ کچھ دیر اور سو سکے تاکہ وقت تیزی سے گزر جائے اور وہ وقت جلدآن پہنچے جس کا اُسے کافی دنوں سے انتظار تھا۔
آج سہ پہر منیجنگ ڈائریکٹر نے اُسے گھر پر بلایا تھا ۔ آج ہی اس کی قسمت کا آخری فیصلہ بھی ہونیوالا تھا کیونکہ بڑی مشکلوں سے آج اسے یہ موقع حاصل ہونے والا تھا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کی داستان ایم ۔ ڈی کو سنا سکے اور انصاف کی بھیک مانگ سکے۔
یہ باتیں سوچ سوچ کر وہ رات بھر الجھنوں کا شکار رہی تھی، کروٹیں بدلتی رہی تھی اور گہری نیند میں کھوجانے کی کوششیں کرتی رہی تھی۔ لیکن اُسے اچھی طرح یاد ہے کہ وہ رات کے پچھلے پہر تک جاگتی رہی تھی۔ اس کی آنکھیں اب بھی جل رہی تھیں اسی لئے وہ اب بھی اس کوشش میں تھی کہ وہ دیر تک سوتی رہے ۔ لیکن وہ سونہ سکی ۔ کیونکہ تھوڑی ہی دیر بعد روز مرہ کی طرح سکینہ خاتون کی آواز کمرے میں گونج اٹھی۔
’او !رابعہ، اوشیفالی ، اے جوشنا۔ اٹھو جلدی کرو، کام پر جانے میں دیر ہوجائے گی۔ ‘‘
سکینہ خاتون کی آوازسن کر رابعہ اور جوشنا جلدی اپنا بستر موڑتے ہوئے اٹھ بیٹھیں۔ لیکن شیفالی اپنی آنکھیں بند کئے پڑی رہی۔ سکینہ خاتون کو غصہ آگیا اور انہوں نے شیفالی کی چوکی کے قریب جاکر اسے تقریبا جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔
’’تجھے یہ موت جیسی نیند کہاں سے آگئی؟ ۔کام پر نہیں جائے گی کیا؟‘‘۔
’’نہیں خالہ طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔‘‘
’’کتنے نخرے ہیں تم لوگوں کے ، جب دل چاہا کام پر گئے ، ورنہ نہیں گئے۔۔۔اس کے باوجود نوکری سلامت۔۔ہاں !جوان رہنے کا یہی فائدہ ۔۔‘‘
’’جوانی تو ہم پر بھی آئی ہے ۔۔۔ ’’اس بار جو شنانے لقمہ دیا’’۔۔لیکن جوانی کا اصل مصرف لینا تو کوئی شیفالی سے سیکھے ،سبھوں سے تعلقات ہیں ،سبھوں کی نظرِ عنایت ہے تو نوکری جائے کیسے؟۔ مجھے تو ایک دن دیر ہوجاتی تو سپروائزر کی ڈانٹ ہفتوں جاری رہتی ہے ۔۔۔ اور چھوٹی چھوٹی باتیں پروڈکشن مینجر سے لے کر ایم ۔ ڈی تک پہنچادی جاتی ہیں۔ ‘‘
’’میں نے کہا نا میری طبیعت ٹھیک نہیں۔ ’’اس بار شیفالی جھلا سی گئی ۔’’جسے کام پرجانا ہے جائے!۔۔۔ مجھے سونے دو۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے سوتی رہو اور سہانے سپنے دیکھتی رہو۔ ہم لوگ ہاتھ منہ دھو کر کام پر چلے ۔’’سکینہ خاتون یہ کہتے ہوئے رابعہ اور جوشنا کولے کر کمرے سے باہر چلی گئیں اور تاکید کی وہ اندر سے دروازہ بند کرلے تا کہ کوئی سامان چوری نہ ہوجائے۔
آج یہ پہلا اتفاق تھا کہ شیفالی ان لوگوں کے ساتھ کام پر نہیں گئی۔ حالانکہ جب سے اس نے ایک گارمنٹ فیکٹری میں کام پکڑا تھا تب سے وہ ان لوگوں کے ساتھ کام پر جایا کرتی تھی اور ایک ساتھ ہی کام سے واپس بھی آیا کرتی تھی ۔ ۔۔صرف اوو رٹائم کی صورتوں میں واپسی الگ الگ ہوا کرتی تھی۔
شیفالی نے یہ کسی کو بھی نہیں بتایا تھا کہ آج اُسے اپنا دکھڑابیان کرنے کے لئے ایم ڈی کے گھر جانا ہے ۔ یہ بات صرف شیفالی ہی جانتی تھی۔ اس لئے وہ پریشان بھی تھی۔ لیکن دل ہی دل میں کچھ حد تک مطمئن بھی تھی کہ کم از کم ایم ۔ ڈی اسے اپنا قیمتی وقت دینے کو تیار ہوا ہے۔ ورنہ کہاں جاتی ۔ کس کے آگے اپنا دامن پھیلاتی۔؟
اسی الجھن اور پریشانی میں وہ ساری رات تڑپتی رہی اور ماضی کی داستانوں کو دہراتی رہی ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ گاؤں چھوڑ کر ڈھاکہ آتے وقت اس نے تو کبھی ایسی کوئی تمنانہ کی تھی اور نہ کبھی ایسا کوئی خواب دیکھاتھا کہ جینے کی آرزو اور اپنی بقا کی جدو جہد میں اس کی پوری زندگی ایک ایسے تیز رفتار پہیے سے لپٹ جائے گی جس کے نیچے آتے آتے اس کی روح بھی زخمی ہوجائے گی۔
’’شاید کبھی حاصل نہ ہونے والی شے کانام ہی خواب ہے ! ۔شیفالی نے خود کو تسلی دینے کی کوشش کی اور پھر دل ہی دل میں خود سے سوال کیا کہ اگر وہ تمام خواب جھوٹے تھے تو زندگی کی وہ تمام ترحقیقتیں کیونکر بھیانک صورت اختیار کر گئیں جن کی یادوں پر بھی اب خواب کا گمان ہوتا ہے ؟۔ اس نے سوچا کہ یہ چند دنوں قبل کی تو حقیقت ہے کہ وہ ایک ننھا سا پودا تھی اور اپنے گاؤں میں فراک پہنے اکاد کا کھیلا کرتی تھی۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں تتلیاں پکڑنے کے لئے دوڑتی پھرتی رہتی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ دن بھی جلد ہی آگئے جب گاؤں کے نوعمر لڑکوں نے شیفالی کو دیکھنا شروع کردیا۔ اس کی ماں نے اسے فراک پہننے سے منع کیا اور اسے اپنی ایک پرانی ساری پہنادی ۔ اس دن شیفالی پر بھی یہ بات واضح ہوگئی کہ اب اس کے خواب دیکھنے کے زمانے آگئے ہیں اور ننھا سا پودا اب ایک تنا وردرخت بنتا جارہا ہے ۔ جس میں کونپلیں بھی پھوٹنے لگی ہیں۔
شیفالی نے اپنے آپ میں یہ تبدیلی دیکھ کر یہ بھی محسوس کرنا شروع کردیا تھاکہ اس کا باپ اب پہلے سے زیادہ محنت کرنے لگا ہے اور دن بھر ہاٹ بازار میں پھیری کرنے کے بعد جب رات گئے گھر واپس آتا ہے تو اس کی ماں کے ساتھ آہستہ آہستہ کچھ باتیں کرتا ہے اور اسے قریب پاکر خاموش ہوجاتا ہے ۔ شیفالی پر ایک استعجابی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ اپنے والدین کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں دیکھ کر اسے یہ سمجھنے میں دشواری نہیں ہوئی تھی کہ کوئی ایسی بات ضرور ہے جو اس سے چھپائی جاتی ہے ۔۔ ۔ لیکن وہ بات چند دنوں کے بعد اس پر اُس وقت عیاں ہوگئی جب گاؤں کی دوسن رسیدہ عورتیں اسے دیکھنے کی غرض سے اس کی جھونپڑی میں آئیں۔
شیفالی کو آج بھی یہ اچھی طرح یاد ہے کہ اس دن گفتگو شیفالی سے متعلق کم اور چیزوں کی لین دین سے متعلق زیادہ ہوئی ۔۔پھر گفتگو ختم ہوگئی۔۔۔۔ وہ عورتیں چلی گئیں اور پھر کبھی لوٹ کر نہ آئیں۔جہیز کے مسئلے نے اس کے باپ کو بالکل الجھا کر رکھ دیا تھا۔ وہ اب پہلے سے بہت زیادہ پریشان رہنے لگاتھا۔ اسی الجھن اور پریشانی میں اس نے وقت پر کھانا پینا ترک کردیا تھا۔ کافی لوگوں سے ملا ،کئی دروازوں کے پھیرے لگائے کہ اس کی اوقات کے مطابق شیفالی کے لئے کوئی مناسب لڑکا مل جائے۔ لیکن اس کی یہ حسرت پوری نہ ہوسکی۔۔۔اور ایک دن وہ جو پھیری کرنے ہاٹ گیا تو واپسی میں چکر اکر کھیت میں ایسا گرا کہ پھر کبھی اٹھ نہ سکا۔
باپ کی موت کے بعد شیفالی کے گھر میں شادیادنے کی بجائے کھانے اور زندہ رہنے کی فکر ستانے لگی۔ گھر میں بچا کھچا جو سامان تھا وہ ندی کے تیز دھارے کی طرح نکل گیا۔ ماں بیمار رہنے لگی اور چھوٹی دو بہنیں اکثر بھوک سے نڈھال ہو کر بھیگے پرندوں کی طرح ادھر اُدھر رینگتی نظر آنے لگیں۔
گھر کی یہ حالت دیکھ کر شیفالی نے گاؤں کے مختلف گھروں میں دھان کوٹنے کاکام شروع کر دیا۔لیکن دن بھر کام کرنے کے باوجود اسے اتنا بھی حاصل نہ ہوپاتا تھا کہ ماں اور بہنوں کے ساتھ مل کر کم از کم ایک وقت پیٹ بھر کر کھاسکے۔ پھر بھی زندہ رہنے کی خواہش میں وہ دن بھر محنت کرتی تھی اور مصروف رہتی تھی۔ ۔۔اب نہ اسے تتلیاں یاد تھیں اور نہ چڑیوں کی چہکار ۔ اب وہ سڑک پر گزرتی ہوئی تیز رفتار گاڑیوں کوبھی نہیں دیکھ سکتی تھی۔
رات کے سناٹے میں وہ اکثر رویا کرتی تھی۔ صرف باپ کے لئے نہیں ،بلکہ اورنہ جانے کس کس چیز کے لئے جو وہ خود بھی نہیں سمجھ پاتی تھی۔ اسے ایسا لگتا تھا کہ وہ صرف روتی رہے ورنہ اس کا سینہ پھٹ جائے گا۔ اس کا کلیجہ اس کی حلق سے باہر نکل آئے گا۔ وہ سسکتی رہتی اور روتے روتے کسی انجانے وقت اس کی آنکھ لگ جاتی تھی۔ لیکن اب جب آنکھ لگتی تھی تو کوئی خواب بھی نہیں دیکھتی تھی!
’’خواب میں بھات دیکھنے سے پیٹ نہیں بھرجاتا!‘‘یہ بات سکینہ خاتون نے ایک دن شیفالی کی ماں کو سمجھانے کے انداز میں کہی تھی۔ اور یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ شیفالی کو ان کے ساتھ ڈھاکہ بھیج دیں۔ شیفالی کی ماں کو یہ یقین تھا کہ سکینہ خاتون اگر چاہیں تو شیفالی کو کوئی کام ضرور دلوادیں گی۔ کیونکہ وہ یہ بھی اچھی طرح جانتی تھی کہ گذشتہ بارہ برسوں سے ڈھاکہ میں کام کرتے کرتے سکینہ خاتون کے تعلقات اس قدر وسیع ہوگئے ہیں کہ وہ سال میں دو تین مرتبہ جب گاؤں جاتی ہیں تو اپنے گاؤں کے علاوہ دوسرے گاؤں سے بھی ایک دولڑکیوں کو اپنے ساتھ ڈھاکہ لے جاتی ہیں اور وہ لڑکیوں کو ان کی ایک ماہ کی تنخواہ کے عوض کہیں نہ کہیں کام پر ضرورلگادیتی ہیں۔ پچھلی بار جب وہ گاؤں آئی تھیں تو لالومانجھی کی بیٹی جوشنا کو بھی اپنے ساتھ لیکر گئی تھیں۔ ان باتوں کو جاننے اور سمجھنے کے باوجودشیفالی کی ماں شیفالی کوخود سے جدا کرنے کو تیار نہ تھی۔ جس کا اندازہ شیفالی نے اپنی ماں کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے آنسوں سے بھی لگایا تھا۔آنسوؤں کے قطرے شیفالی کے ملگجے گالوں پر بھی ایسی لکیر کی مانند گزر گئے تھے جیسے کوئی قسمت کی لکیر ہو۔ ایک انمٹ لکیر۔۔۔
شیفالی ڈھاکہ چلی آئی۔ یہ فیصلہ خود اسی نے کیا تھا اس لئے کہ مختلف گھروں میں کام کرتے کرتے وہ اس حقیقت سے بھی آشنا ہوچکی تھی کہ اب گاؤں میں بھات نہیں ہے۔ اس لئے کہ دینے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہوجارہی ہے اور مانگنے والوں کی تعداد میں بڑی تیز رفتاری کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ جب گاؤں کا ہی کوئی مستقبل نہیں تو کسی فرد واحد کے مستقبل کی فکر کون کرے؟۔
یہ شعور اسے ٹھوکروں نے بخشا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ اب یہ بھی اچھی طرح سمجھنے لگی تھی کہ اس کی مدد کے لئے جو بھی گنے چنے ہاتھ اس کی طرف بڑھتے ہیں وہ نہ تو صحیح معنوں میں اس کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اسے سہارا دینا چاہتے ہیں۔ بلکہ صرف اسی تاک میں رہتے ہیں کہ موقع ملتے ہی اس کی جھولی میں انگارے جھونک دیں۔
اوّل اوّل اسے ڈھاکہ میں گارمنٹ فیکٹری کی نوکری بھی بہت زیادہ پسند نہ ہوئی تھی کیونکہ اس نے اپنی زندگی میں پہلی بارلوگوں کے ایک بہت بڑے ہجوم کو ایک ساتھ کسی جگہ کام کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ جس سے اسے ایک قسم کی دہشت ہوئی تھی۔ اور گھن بھی آتی تھی۔ جسے دیکھو کسی نہ کسی بہانے اس کے جسم سے ٹکرانے کی کوشش کرتا۔وہ سہم سی جاتی اور وہاں سے بھی کہیں دور بھاگ جانا چاہتی تھی۔ لیکن فیکٹری میں اپنی ہی طرح گاؤں دیہات سے آنے والی لڑکیوں کی کثیر تعداد کو دیکھتے دیکھتے اس کی ہمت کچھ بندھنے لگی تھی اور پھر اسے اس حقیقت کا بھی اندازہ ہوچکا تھا کہ کسی چیز کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا تعلق دل یا دماغ سے نہیں ہے ۔ بلکہ پیٹ سے ہے ۔ پیٹ خالی ہو تو ہر شے قابل قبول ہے ۔ بالکل اس باسی بھات کی طرح جو بساند ہونے کے باوجود وہ اکثر صبح کھا کر آتی ہے۔
پیٹ بھر کھانے اور گاؤں میں اپنی ماں اور بہنوں کو زندہ رکھنے کی فکر میں وہ دل وجان سے محنت کرنے لگی تھی جس کے نتیجے میں وہ دوڈھائی مہینوں تک ابتدائی کام کرنے کے بعد ہی باقاعدہ کپڑے سینے لگی تھی۔ اس کی کامیابی پر رابعہ ، جوشنا اور سکینہ خاتون بھی خوش ہوئی تھیں۔ شیفالی بھی اپنی کارگردگیوں سے مطمئن تھی۔ اور وہ جوشناکی بھی بہت احسان مند تھی کہ اس نے اسے زندہ رہنا سکھایا تھا۔ وہ نہ ہوتی تو شاید اس کے بے جان جسم کو جِلا نصیب نہ ہوتی اور وہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تن کر کھڑی ہونے کی بجائے زمین پکڑ لیتی۔
یہ باتیں وہ جب جب سوچتی تو دل ہی دل میں اپنے سپروائزر کی بھی بے حد شکر گزار ہوا کرتی تھی۔ اس لئے کہ وہ جانتی تھی کہ جہاں سکینہ خاتون اور جوشنانے اس پر احسانات کئے ہیں وہاں سپروائزر کی ہمدردیاں اور مہربانیاں بھی کم نہیں۔ ورنہ وہ اتنی جلدی اس مقام تک نہ پہنچ سکتی۔شیفالی کو یہ بھی احساس تھا کہ سپروائزر کی ہی مہربانیوں کی وجہ سے اسے اوور ٹائم بھی ملنے لگا تھا۔ ورنہ دوسری بہت سی لڑکیوں کو تو پروڈکشن مینجر اور ایم۔ ڈی سے گذارش کرنے کے بعد بھی حسب خواہش اوور ٹائم نہیں ملتا۔ اپنے لئے سپروائزر کے اس ہمدردانہ رویئے پر شیفالی کے دل میں اس کے لئے ایک احترام کا جذبہ پیدا ہوگیا تھا۔
ویسے حقیقت یہ ہے کہ احترام کا جذبہ شیفالی کے دل میں ان ہی دنوں سے پیدا ہوگیا تھا جب وہ یہاں نئی نئی آئی تھی۔ اس نے اپنے سپروائزر کو دوسروں کے مقابلے میں مختلف پایا تھا کیونکہ اس کے طور طریقے مختلف تھے۔ رکھ رکھاؤ میں انفرادیت تھی اور جب گفتگو کرتا تو ایسا لگتا تھا کہ منہ سے لعل اگلتا ہے۔ یہی وہ اسباب تھے کہ شیفالی کی نگاہوں میں وہ زیادہ پروقار اور قابل احترام ہوگیا تھا۔ رفتہ رفتہ شیفالی اسے اپنا ہمدرد اور غمگسار بھی سمجھنے لگی تھی۔ کیونکہ کام کے دوران اسے جب کسی قسم کی دشواری محسوس ہوتی تھی تو اس نے اس کے حل میں ہمیشہ اسے اپنے قریب پایاتھا۔
قربتوں کا یہ سلسلہ دھیرے دھیرے اس قدر شدت اختیار کرتا گیا کہ اب کسی دن شیفالی اُسے اگر اپنے قریب نہ پاتی تو بے چین ہوجایا کرتی تھی اور اسے اس وقت تک قرارنہ آتا جب تک اسے ایک نگاہ دیکھ نہ لیتی ۔ اسے اپنے قریب پاکر شیفالی کے چہرے پر خوشی کی ایک لہر دوڑجاتی اور وہ اپنے اندر ایک انجانا ساسرور محسوس کرنے لگتی تھی۔ اسے ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ پھر چڑیوں کی چہکار سن رہی ہے۔ اسے بے حد خوشی حاصل ہوتی۔
خوشیوں کے اس نئے احساس نے اس کے اندر ایک نئی توانائی اور ایک نئی امنگ بھی پیداکردی تھی۔پہلے جب وہ دن بھر کام کاج کرنے کے بعد گھر واپس آتی تھی تو بیجان سی ہوجایا کرتی تھی اور بستر پر لیٹتے ہی بیہوشی کی سی نیند میں گم ہوجاتی تھی۔ لیکن اب تو جیسے اس کی نیند اڑ گئی تھی۔
سونے سے پہلے سویرے اٹھنے کی فکر ستانے لگتی کہ کام پر جانے میں کہیں دیر نہ ہوجائے۔ اگر کام پر جانے میں دیر ہوگئی تو اس سے ملاقات بھی دیر سے ہوگی۔
جلد ملنے اور ہروقت ملنے کی خواہش میں اب وہ اوورٹائم کے بہانے شام کے بعد بھی اُس سے ملنے لگی تھی۔ شیفالی بالکل مطمئن تھی کہ اسے اپنی زندگی کا ساتھی مل گیا ہے اور پھر سپروائزر نے بھی جلدہی اس سے شادی کرلینے کا وعدہ کر لیا تھا جس سے اُسے یہ یقین ہوگیا تھا کہ اب نہ صرف اس کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے بلکہ وہ تمام خواب بھی پورے ہوجائیں گے جو ایک عمر سے اس کی آنکھوں میں بسے ہوئے ہیں۔ لیکن۔۔۔ دوتین ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد شیفالی کو اپنے تمام خواب اس وقت پھر بکھرتے دکھائی دینے لگے جب اس نے یہ محسوس کیا کہ سپروائزر کی دلچسپیاں ختم ہوتی جارہی ہیں اور وہ اس سے دور دور رہنے لگا ہے ۔ پہلے پہلے وہ اپنے اس احساس کو اپنا وہم سمجھتی رہی اور اپنے شکوک وشبہات دور کرنے کی کوشش کرنے لگی لیکن وہ جتنا اس سے ملنا چاہتی ، سپروائزر اتنا ہی کتراتا، اپنا وقت دینے سے گریز کرتا اور جلد سے جلد اپنا پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا۔
شیفالی کو دلی صدمہ پہنچا۔ اور اُسے سپروائزر کی حرکتوں پر بیحد غصہ بھی آیا۔ پھر بھی اس نے اپنے طور پر یہ کوشش جاری رکھی کہ حالات بگڑنے نہ پائیں لیکن سپروائزر کی بے اعتنائی اور بد سلوکی اپنی انتہا تک پہنچ گئی۔اورایک دن سپروائزر نے بڑی بے رخی کے ساتھ شیفالی کو یہ دھمکی بھی دیدی کہ اگر وہ اسے زیادہ پریشان کرے گی تو وہ اسے نوکری سے بھی نکلوا دے گا۔
یہ سن کر شیفالی سکتے میں آگئی ۔ ایسے حالات کا سامنا کرنے کے لئے وہ قطعی تیار نہ تھی۔ اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ اسے کبھی سپروائزر کے منہ سے اس قسم کی باتیں سننا پڑیں گی۔ وہ بہت افسردہ ہوئی اور سوچنے لگی کہ اگر واقعی نوکری چلی گئی تو وہ کیا کرے گی؟ سکینہ خاتون ، رابعہ اور جوشناکوکیا منہ دکھائے گی ؟ کہاں جائے گی اور اپنی ماں اور بہنوں کا پیٹ کس طرح پالے گی۔ کیا اسے دردر کی ٹھوکریں کھانے اور خونخوار بھیڑوں کا نشانہ بننے کے لئے پھر گاؤں واپس جانا پڑے گا۔۔۔؟ اس تصور سے اس کا لہو خشک ہوجاتا ۔
ایک لمحے کے لئے وہ نوکری چھوڑ دینے کے لئے بھی تیار ہوگئی تھی ۔ مگر اپنے پیار کو بھول جانے اوراپنی رسوائی برداشت کرنے کو ہرگز تیار نہ تھی ۔ وہ سمجھ چکی تھی کہ اس کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ فریب کیا گیا ہے۔ اس نے خود اپنی وکالت کرنے کے اندازمیں سوچا کہ اسے اپنا پیار واپس ملنا چاہئے۔ ۔۔۔اپنا حق مانگنا چاہئے۔۔۔ورنہ ایسی نوکری کیا اور زندگی کی بھی قیمت کیا، کہ دوسروں کی سترپوشی کے لئے اپنا لہو پانی کر کے دن رات کپڑے سینے کے باوجود اپنے جسم پرکپڑے سلامت رکھنے کی ضمانت نہ ملے۔ ۔۔ وہ اپنا حق ضرور مانگے گی۔ !شیفالی نے پُر عزم انداز میں فیصلہ کیا۔
اپنے اسی فیصلہ کے تحت بڑی مشکلوں سے اُسے آج یہ موقع حاصل ہوا تھا کہ وہ اپنی فریاد لے کر ایم ۔ڈی کے گھر جائے۔ جسے وہ سوچ سوچ کر ساری رات پریشان رہی تھی اور ایم۔ڈی سے منت سماجت کرنے کے طرح طرح کے انداز پر بھی غور کرتی رہی تھی۔
کرب واضطراب کی گھڑیاں گزارنے کے بعد وہ ایک رکشے میں بیٹھ کر ایم۔ڈی کے گھر کی طرف روانہ ہوئی تو اس وقت بھی اپنے ذہن میں اچھے اچھے جملے سجاتی رہی تھی تاکہ ایم۔ ڈی کے سامنے اُسے اپنی المناک کہانی سنانے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔
شیفالی کا رکشہ جب ایم ۔ڈی کے گھر کے پاس آگیا تو وہ جلدی رکشے والے کو پیسے دے کر اپناتیز تیزقدم بڑھاتے ہوئے ایم ڈی کے گھر کے احاطے میں داخل ہوئی۔ لیکن احاطے میں داخل ہوتے ہی اس کے قدم جیسے وہیں منجمد ہوگئے۔ اس نے دیکھا کہ جوشنا ایم ۔ڈی کے گھر سے نکل رہی تھی ۔ جوشنا نے ابھی اُسے دیکھ لیا تھا۔ شیفالی ایک انجانے خوف سے لرز گئی ۔ ۔۔اگر جوشنانے یہاں آنے کا سبب پوچھ لیا تو وہ کیا جواب دے گی؟۔ شیفالی نے اپنے آپ پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے خود سے سوال کیا اور ساتھ ہی ساتھ جواب بھی تیار کر لیا کہ وہ یہ کہہ دے گی کہ بڑی تنگی جارہی ہے کچھ زیادہ اوور ٹائم کے لئے گذارش کرنے آئی ہے!۔۔۔ لیکن نہیں ایسا کہنا ٹھیک نہ ہوگا۔ شیفالی نے اسی لمحے اپنا فیصلہ بدل لیا۔ اسے احساس ہوا کہ ایسا کہنا مناسب نہ ہوگا ورنہ اوورٹائم کی نسبت جوشنا کے ذہن میں سپروائزر ۔۔جوشنا ، شیفالی کے بالکل قریب آچکی تھی اور اس نے شیفالی کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
’’تمہاری تو طبعیت ٹھیک نہیں تھی !یہاں کیسے آگئی !کوئی اہم ۔۔۔‘‘
’’اپنی ایک چچا زاد بہن کی نوکری کے سلسلے میں آئی ہوں۔ ‘‘شیفالی نے جوشناکا جملہ مکمل ہونے سے قبل ہی اپنے چہرے پر بھولپن کے آثار سجائے ایک ہی سانس میں جواب دیا اور فوراً گفتگو کارخ موڑنے اور جوشنا کو مزید سوالات کا موقع نہ دینے کی کوشش کرتے ہوئے خود جوشنا سے سوال کیا۔
’’تم کس لئے آئی ہو، تمہارا کیا کام تھا؟‘‘
جوشنانے سوال کو زیادہ اہمیت نہ دینے کے انداز میں اپنا قدم احاطے سے باہرکی طرف بڑھاتے ہوئے بڑی بے دلی کے ساتھ کہا۔ نہیں کوئی خاص بات نہیں تھی۔۔۔۔’’اوورٹائم کے لئے آئی تھی۔۔!!‘‘

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *