Home » پوھوزانت » تھیلاسیمیا  ۔۔۔ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو

تھیلاسیمیا  ۔۔۔ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو

یہ ایک وراثتی بیماری ہے، ایک موروثی مرض ۔ اس بیماری میں خون کے اندر سرخ رنگ کے خلیے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے جسم میں خون میں کمی ہوتی ہے اور مریض کو پوری زندگی متواتر خون کی ضرورت ہوتی ہے۔تبھی جا کر ایک حد تک اس بیماری سے ہم بچ سکتے ہیں لیکن اسے ختم نہیں کرسکتے۔ ماں اور باپ کی طرف سے یہ خطرناک بیماری بچے میں منتقل ہوتی ہے اور خاندانوں میں یہ بیماری منتقل ہوجاتی ہے۔ اس بیماری کا پھیل جانا خسرہ، پولیو اور ٹی بی کی طرح نہیں ہوتا۔ یہ ایک دوسرے سے نہیں لگتا بلکہ یہ موروثی مرض ہے۔ اس کی روک تھام بہت ضروری ہے ۔ اس کے لیے چاہیے کہ خاندان سے باہر رشتے کیے جائیں اور ہر بچے کا اور بڑے کا ٹیسٹ کیا جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ یہ بیماری ہے کہ نہیں ۔۔ تب جا کر بڑی حد تک اس مرض کو کم کیا جاسکتا ہے۔
یہ مرض اپنی علامتیں عموماً چھ ماہ کی عمر سے ہی ظاہر کرتا ہے جس میں خون کی کمی ، جگر اورسپلین کا بڑھ جانا ، سانس کی تکلیف ، یرقان ، ہڈیوں کا چوڑا ہونا اور مدا فعتی نظام کا کم ہوناشامل ہے ۔ جس سے بچہ بار بار بیمار ہوجاتا ہے ۔ اور اُسے خون کے علاوہ دیگر ادویات کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایسے بچوں کے اندر فولاد کی مقدار بڑھ جاتی ہے کیونکہ اُنہیں بار بار خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ فولاد کی تعداد بڑھ جانے سے یہ بچے دل کے امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ شوگر کے مریض بن جاتے ہیں۔ قد کا کم ہونا اور جگر کی بیماریاں اُسے لاحق ہوجاتی ہیں۔
اس بیماری کے لیے نئی گولیاں آئیں جو اس کی علامات کو کم کرتی ہیں۔ مگر قیمتی گولیاں ہیں لیکن یہ بھی ان کا حتمی علاج نہیں۔ حتمی علاج ہڈی کے گودے کی تبدیلی ہے جس پر 30 ‘ 20لاکھ کا خرچہ ہوتاہے۔ اس سے بچہ عمر کے کسی حصے تک جی پاتا ہے اور ساتھ ساتھ اُسے سخت قسم کی (Cytotoxic) دوائیاں بھی استعمال کرنی پڑتی ہیں۔
ہر سال آٹھ ہزار سے زیادہ بچے اس مرض میں مزید مبتلا ہورہے ہیں۔ جس کی روک تھام بہت ضروری ہے۔ یہ ایسی بیماری ہے جو ماں باپ میں پوشیدہ حالت میں موجود ہوتی ہے اور اُن کے ہر حمل میں 25%آنے والے بچے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ 25%بچے نارمل زندگی گزارے ہیں اور 50%بچوں میں بیماری پوشیدہ حالت میں ہوتی ہے۔ جو اپنے علامات ظاہر نہیں کرتی۔ اور اگر ایسے خاندان میں جو یہ بیماری پوشیدہ حالت میں موجود ہوتی ہے اور وہ آگے چل کر رشتہ ازواج میں منسلک ہوجاتے ہیں تو یہ بیماری جو پوشیدہ حالت میں ماں اور باپ میں موجود ہوتی ہے۔ اس کے اثرات پیدا ہونے والے بچے پراثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ بیماری خطرناک ہے ۔پوری زندگی بچے کو خون کی ضرورت ہوگی اور پوراخاندان اس سے متاثر ہو گا۔ جس کا اثر ہمارے پورے معاشرے پر پڑے گا ۔اس لیے اس بیماری سے نجات کا واحد ذریعہ رشتہ ازاواج سے منسلک ہونے سے پہلے خون کے ٹیسٹ ہوتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ آیا یہ بیماری پوشیدہ حالت میں ہے کہ نہیں۔ یہی ذریعہ اس بیماری کی روک تھام میں مدد گار ہوتا ہے ۔اس مرض میں چونکہ متواتر خون کی ضرورت ہوتی ہے لہذا خون کے ذریعے منتقل ہونے والی بیماریاں بھی بچے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ جس میں ہیپٹائٹس بی، سی اور ایڈز شامل ہیں ۔ یہ پھر ایک بچے سے دوسرے بچے اور معاشرے میں پھیل جاتی ہیں۔ جس طرح خسرہ اور پولیو نے ہمیں مفلوج کر کے رکھ دیا ہے ایسا نہ ہو کہ آگے چل کر ہر گھر میں تھلیسمیا کا بچہ موجود ہو۔ اپنی مدد آپ کے تحت مل کر ایسے بیماریوں کی روک تھام نہایت ضروری ہے ۔
ہمارے ہاں ابھی تک ماؤں کو پتہ نہیں کہ بچوں کو کس طرح دودھ پلایا جاتا ہے۔ حفاظتی ٹیکے لگانے کے حوالے سے معلومات کم ہیں۔ ہمارے ماں روزانہ بچے بڑی تعداد میں خوراکی Malnutriatimکی وجہ سے مررہے ہیں۔ یہ سب ہماریHealth Educationکی وجہ سے ہے۔ حکومت اب تک اس معاملے میں کامیاب نظر نہیں آتی ۔ باہر کے اینجیوزکا پیسہ عام اور غریب لوگوں تک خرچ نہیں ہوپا رہا ہے۔ سب کچھ زبانی جمع خرچ ہے زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ ورنہ 21ویں صدی کمپیوٹر کا دور ہو اور ہمارے ہاں لوگ بے خوراکی سے مررہے ہوں تو اگر یہ ہماری کامیابی ہے تو آگے چل کر حالات مزید خراب ہونگے۔ لوگوں کو عوام کو گھر گھر تعلیم کی ضرورت ہے ، صحت کی ضرورت ، ایک صحت مند ماں ، ایک صحت مند بچہ جنم دے سکے گی اور صحت مند بچے اور مائیں بھی صحت مند معاشرے کی تشکیل نو میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔یہی بچے ہمارا مستقبل ہیں ہمارا کل ہیں۔ جن خاندانوں میں یہ بیماری موجود ہے اور وہ مزید اُولاد کے خواہش مند ہیں انہیں چاہیے کہ وہ ڈاکٹر سے باقاعدگی سے اپنا چیک اپ کرائیں کیونکہ پہلے تین مہینوں کے اندر (حمل کے دوران) ٹیسٹ کیے جاتے ہیں اور آنے والے بچے کی بیماری کا ہم پتہ لگا سکتے ہیں جس سے اس بیماری کے روک تھام میں مزید مدد مل سکتی ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *