Home » پوھوزانت » میر گل خان نصیر ۔۔۔ نذر ظہیر

میر گل خان نصیر ۔۔۔ نذر ظہیر

اخبار مشرق کوئٹہ میں خبر شائع ہوئی کہ ممتاز سیاستدان اور دانشور میر گل خان نصیر کو آج سپرد خاک کیا جائے گا تو تمام طبقات میں کہرام بپا ہوگیا اور لوگ ان کے جنازے میں شرکت کے لیے نوشکی پہنچنا شروع ہوگئے بظاہر تو یہ ایک خبر تھی لیکن ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک ایسے آدمی سے جدا ہوگیا تھا جو نہ صرف سیاستدان ، دانشور تھا بلکہ آپ شاعری، تاریخ دانی اور صحافت کے میدان کی بھی مقبول ترین شخصیت تھے۔ آپ کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ آپ نے نہ صرف شاعری فارسی، براہوی اور بلوچی میں کی آپ نے اردو شاعری بھی کی اور ایک دو نہیں بلکہ 72اردو نظمیں اور غزلیں لکھیں جب کہ مطبوعہ اردو نظموں اور غزلوں کی تعداد 22بتائی جاتی ہے۔ آپ فیض احمد فیض کے اچھے دوست تھے۔آپ کی کتابوں میں ’’بلوچستان میں اردو شاعری، بلوچی شاعری میں گل بانگ، تاریخ کے حوالے سے بلوچستان کی تاریخ پر کتاب لکھ کر کافی شہرت حاصل کی اس کتاب کی دو جلدیں یعنی پہلی جلد1952اور دوسری جلد1957میں شائع ہوئی اس کے علاوہ داستان دوستاں اور شیریں (رومانی کہانی) بھی شہرت کا اپنا مقام رکھتی ہے۔آپ کے ہم عصروں میں سید ظہور شاہ ہاشمی، عطا شاد، مراد ساحر، مومن بزدار، اسحاق شمیم، ملک محمد طوقی، صدیق آزاد، میرمٹھا خاں مری وغیرہ ہیںآپ نے بلوچستان کے سرحدی چھاپہ مار کا اردو ترجمہ بھی کیا۔مزید آپ پر کچھ لکھنے سے پہلے آپ کی زندگی کے بارے میں مختصر سی معلومات کرلیتے ہیں۔
آپ کا تعلق ذگر مینگل کی پندزئی قبیلے سے تھا یہ مینگل قبیلے کی ایک شاخ ہے۔ آپ 14مئی 1914ء کو بلوچستان میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام میر حبیب خان تھا جبکہ آپ کی والدہ کانام بی بی حورن تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ میں حاصل کی کیونکہ آپ کے گاؤں میں صرف فورتھ گریڈ تک کی تعلیم تھی کوئٹہ کے گورنمنٹ سینڈیمن ہائی اسکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد ثانوی تعلیم کے لیے آپ لاہور چلے گئے اور اسلامیہ کالج میں داخلہ لیاآپ نے فٹ بال او رباکسنگ بھی کھیلی اور آل انڈیا یونیورسٹیز باکسنگ چیمپیئن شپ کے رنر اپ بھی رہے۔ بارہویں جماعت میں تھے کہ آپ کی آنکھ انگیٹھی سے خراب ہوگئی جس کے باعث آپ کو واپس گھر آنا پڑا۔ یہاں پر آکر آپ نے دیکھا کہ بلوچستان مختلف حصوں میں بٹا ہوا ہے آپ انجمن اتحاد تنظیم کے رکن بن گئے لیکن یہ تنظیم 1936ء تک ہی قائم رہ سکی۔ یہاں کی یوتھ جنریشن نے ایک تنظیم انجمن اسلامیہ ریاست قلات بنائی اور آپ کو اس تنظیم کا صدر چن لیا۔ اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے آپ نے بلوچستان کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں متعارف کرایا۔ آپ کا انتقال 6دسمبر 1983ء کو کراچی کے اسپتال میں مودی مرض کینسر کے ہاتھوں ہوا۔ اسی لیے میرا مضمون آپ کی سیاسی زندگی پر ہے تاکہ نئی نسل آپ کے بارے میں جانکاری کرسکے۔
جب آپ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تو بلوچستان کا ایک حصہ چیف کمشنر کے پاس تھا اور باقی صوبہ ریاستوں میں منقسم تھا اور انگریز کنٹرول کرتے تھے۔ انجمن اتحاد بلوچستان سے قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی اور پھر مسلم لیگ میں شمولیت کی آپ پاکستان نیشنل پارٹی اوراستمان گل(اس پارٹی کے صدر آغا عبد الکریم منتخب ہوئے) نیشنل عوامی پارٹی کا بھی حصہ رہے۔ آپ سوشلسٹ کہلائے۔آپ نے 1970ء کا صوبائی اسمبلی کا الیکشن بھی جیتااور اپنی سیاسی زندگی میں وزیرتعلیم و صحت اور وزیر انفارمیشن بھی رہے یہ دور میر عطا اللہ مینگل کی وزارت عظمیٰ کا تھا۔اس دور میں آپ سینئر وزیر بھی رہے اور بولان میڈیکل کالج کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ جب آپ کی حکومت ختم ہوئی تو آپ پر آپ کے ساتھیوں سمیت غداری کا الزام لگادیا گیا یہ دور ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا ۔ گورنر راج نافذ کردیا گیا ملٹری آپریشن شروع ہوا اور آپ کو اپنے بھائی کے ہمراہ گرفتار کرلیا گیا آپ نے جیل بھی کاٹی اس طرح آپ اکبر بگٹی کے دور میں عتاب کا شکار رہے۔ اور ضیاء الحق کے دور میں رہائی حاصل کی ۔ آپ نے افغانستان میں غوث بخش بزنجو اور سردار عطا اللہ مینگل کے ساتھ پناہ لی۔ آپ کو ستارہ امتیاز(صدارتی ایوارڈ) 2001ء میں نوازا گیا ۔
آئیے پہلے آپ کی تحریر کی ہوئی ایک نظم کا مطالعہ کریں تاکہ ان کے مشاہدے کا علم ہوسکے۔
قوم کا اعلیٰ طبقہ
اب وقت نہیں ہے غفلت کا غافل ہی ہمیشہ کھوتے ہیں
جب وقت گیا ہاتھوں سے نکل ، پھر بیٹھ کے باہم روتے ہیں
اب رقص و سرود دو گانوں میں صد حیف یہ راتیں کٹتی ہیں
اپنے ہی چمن میں گل کی جگہ کم بخت یہ کانٹے بوتے ہیں
یا ٹمٹم موٹر گاڑی میں یہ سیر سپاٹے کرتے ہیں
یادوں کے اجالے پہرں میں یہ عیش کے بندے سوتے ہیں
یا مالی، بجار، پرسی سے یہ قوم کے پیسے لوٹتے ہیں
یا عیش و طرب کے دھندوں میں یہ اپنا مایہ کھوتے ہیں
یہ قوم کا اعلیٰ طبقہ ہے کہتے ہیں انہیں سردار سبھی
یہ جاہل ہیں ، یہ وحشی ہیں ، ہوئیں گے نہ یہ بیدار کبھی
جب آپ نے تاریخ بلوچستان تحریر کی تو غوث بخش بزنجو نے فرمایا:
’’ رفیق محترم میر گل خان نصیر غالباً پہلے بلوچ ہیں جو کئی سالوں کی مسلسل تحقیق و تجسس اور کدو کاوش کے بعد بلوچستان کی ایک جامع تاریخ پیش کر رہے ہیں میر گل خان کی یہ کوشش اور عرق ریزی قابل قدر اور مستحق ستائش ہے……… ہماری آئندہ نسل ان پر فخرکرے گی………‘‘
1970ء کے ہونے والے انتخابات میں جب بلوچستان کی پہلی اسمبلی وجود میں آئی تو آپ کی پارٹی (نیشنل عوامی پارٹی) کو اکثریت ملی اور اس اسمبلی کے پہلے قائد ایوان سردار عطا اللہ مینگل ٹھہرے اس اسمبلی کے اراکین کی تعداد 21تھی جب کہ میر گل خان نصیر بھی چاغی سے منتخب ہوکر اس اسمبلی کا حصہ بنے ۔ آپ نے اپنی سیاسی زندگی میں صعوبتیں بھی برداشت کیں جب بلوچستان حکومت کے اکبر بگٹی سے اختلاف بڑھے تو ذوالفقار علی بھٹو نے آپ سے جان چھڑانا چاہی اور بلوچستان میں آپریشن شروع ہوگیا پاک آرمی کے جوان آپ کے بھائی میر لونگ خان کو گرفتار کرنے آئے تو میر لونگ خان نے مزاحمت کی اور ہلاک ہوگئے جب کہ پاک آرمی کے 29جوان بھی خالق حقیق کو جا ملے۔ میر گل خان اپنے دوسرے سیاسی ساتھیوں کے ساتھ گرفتار ہوئے آپ نے اپنی گرفتاری میں بہت کلام تحریر کیا۔ آپ کے جنازے میں اکابرین کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی اور آپ کو عطا شاد نے اس طرح خراج تحسین پیش کیا ؂
نذر گل خان نصیر
ڈھلی جو شام سفر آفتاب ختم ہوا
کتاب عشق کا ایک اور باب ختم ہوا
وفا کی راہ میں نقد جاں ہی باقی تھا
سو اس حساب میں یہ بھی حسا ب ختم ہوا

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *