Home » پوھوزانت » فیض محمد بلوچ کی یاد میں ۔۔۔ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو

فیض محمد بلوچ کی یاد میں ۔۔۔ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو

فیض محمد بلوچ ایران کے علاقے کسرکند میں شے محمد کے گھر پیدا ہوئے ۔ان کے والد ایران میں محنت مزدوری کرتے تھے، روزگار نہ ہونے کی وجہ سے مند بارڈر سے بلوچستان تشریف لائے اور آخری دم تک یہیں رہے۔ دس سال تک وہ مکران کے علاقے جیونی گوادر، مند، تمپ میں گزارتے رہے۔ اس دوران فیض محمد اپنی بہن مریم جو فیض محمد سے عمر میں بڑی تھی ان کے گھر لیاری میں آباد ہوئے، فیض محمد کے تین بہن، بھائی تھے: محمد حسن، محمد حسین اور دوشنبے ۔ والدہ کا نام زر بی بی تھا جو کہ ایران سے تعلق رکھتی تھیں۔
فیض کے بڑے بھائی محمد حسن حانی شے مرید کی داستان گایا کرتے تھے مگر جو آواز فیض کی تھی وہ محمد حسن کی گائیکی میں نہ پائی جاتی تھی، غربت کی انتہا ہو گئی تو گائیکی چھوڑ کر مزدوری سے وابستہ ہوگئے۔ فیض محمد بھی بھائی کا ہاتھ بٹانے کے لیے انکے ساتھ کیماڑی میں مزدوری پر آمادہ ہوگئے، دورانِ مزدوری وہ شوقیہ غزل گایا کرتے تھے جسے سن کر مزدور کام چھوڑ کر گائیکی سننے کے لیے اسکے گرد جمع ہوتے تھے۔ وہ بلوچی اور فارسی میں زھیروک کا ساز اپنے انداز سے چھیڑتے تھے ، ناکو فیض محمد بلوچ ۔۔ بلوچی گلوکاری کے حوالے سے ایک بہت بڑا نام ہے ۔ فیض محمد کی گائیکی اور موسیقی کا اپنا انداز تھا۔ جسے آج بھی اتنی ہی پذیرائی اور دلکشی حاصل ہے جتنی کی گذشتہ ادوار میں تھی۔ فیض محمداپنی طرز کے واحد گلوکار تھے جنکا اندازِ گائیکی (دھنبورہ)کے ساتھ بڑا منفرد تھا،اور اب تک سر فہرست ہے۔وہ گائیکی سے حاظرین کواپنا گرویدہ کرنے کے ہنر سے آشنا تھے۔ (زھیروک ) انکی شناخت بنی۔ ایک طرف فیض م محمدبلوچ تو دوسری طرف مرید بلیدی نے ،مست توکلی،جام درک ،ھانی شے مرید،ملافا صل ، ملاقاسم،مہناز،گراناز،شہداد ودیگر کیشاعری کو زندہ رکھا ۔ ہم سمجھتے ہیں انہی کی بدولت آج ہماری ثقافت کسی حدتک محفوظ و زندہ ہے۔
فیض محمد بلوچ نے درجنوں ممالک میں اپنے فن کا جادو جگایا اور ہرجگہ اپنے فن کی بدولتُ سرخرورہے۔ مایہ ناز فنکار فیض محمدکے کئی مشہور گانوں کو عابدہ پروین ، محمد علی شیکی،سلیم جاوید،پروین خانم اور دیگر نے اپنی آواز میں گایا۔ مصر کی مایہ ناز گلوکار ہ(اُم کلثوم ) کے ساتھ گلوکاری کا شرف بھی آپ کو حاصل تھا۔فیض مخمدبلوچ نے فارسی الفاظ استعمال تو بہت کئے لیکن باقاعدہ فارسی میں گلوکاری نہیں کی۔
جب ان کی ملاقات نور محمد سارنگی نواز سے ہوا تو انہوں نے فیض محمد کی آواز جو سنی تو داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ اس دوران کراچی میں ریڈیو پاکستان کے زیراہتمام بلوچی آڈیشن کا اہتمام کیا جا رہا تھا تو سندھ بھر سے فنکار اس پروگرام میں حصہ لینے کے لیے موجود تھے تو نور محمد سارنگی نواز انھیں اپنے ساتھ ریڈیو اسٹیشن لے گئے۔ اس وقت فیض محمد 20سال کے نوجوان تھے، گیلانی اور زیڈ اے بخاری کی نظر جب فیض محمد بلوچ پر پڑی تو انہوں نے نور محمد سے فیض کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اسے آڈیشن کے لیے لائے ہیں لیکن اس وقت انکی تیاری کروانی ہے تو زیڈ اے بخاری دیکھتے ہی بھانپ گئے تو انہوں نے فیض کو بغیر کسی تیاری کے اسٹیج پر مدعو کیا یوں فیض پہلی مرتبہ اسٹیج پر نمودار ہوئے۔ اور اپنے مخصوص دنبورہ کے ساتھ پورے محفل پر اثر چھوڑا کہ وہ اسکی آواز کی سحر سے نہ نکل سکے۔ یوں کہیے کہ فیض بلوچ نے کیریر کی سیڑ ھی پر قدم رکھتے ہی اپنا مقام بنا لیا جو بعد کے وقتوں میں اسی سے جڑے رہے۔ یہ 1938-40 کی بات ہے کچھ عرصہ تک آپ یہاں مو سیقار اور گلوکار کی حیثیت سے کام کرتے رہے، مختلف محفلوں کی جان بن گئے۔ریڈیو پاکستان کراچی سے فیض بلوچ کو 80روپے ماہانہ ملا کرتے تھے جب پاکستان نے کوئٹہ میں اپنا ریڈیو اسٹیشن قائم کیا تو وہ بلوچستان کی سرزمین پر اپنا لوہامنوانے کے لیے یہاں کا رخ کر چکے تھے، یہیں سے موسیقی اور گائیکی کے شعبے میں ملازمت اختیار کی،شعبے کی خدمت میں انکا معاوضہ بڑھا کر ماہانہ 225کر دیا گیا، جب کوئٹہ مستقل رہائش پذیر ہوئے تو اپنے بڑے بیٹے خیر محمد کو کوئٹہ لائے، پہلے کواری روڈ، پھر شیخ عمرروڈ، او ر بعدمیں منوجان روڈ ان کا مستقل رہائشی گھر بن گیا، گزر بسر مشکل سے ہونے لگا تو بیٹے نے کام کرنے کی حامی بھر لی۔ انھیں بھی جلد ہی ریڈیو پاکستان میں ملازمت مل گئی، یوں ان کا گزر بسر تھوڑا بہت اچھا ہونے لگا، ان کا ایک بیٹا جو اب بھی موسیقی کے مید ان میں وسیع نام رکھتے ہیں، تاج محمد تاجل کراچی میں اپنی والدہ کے ساتھ سکونت پذیرتھے وہیں کسی بیکری میں مزدوری کرتے تھے، جب والد نے کوئٹہ گھر بسا لیا تو وہ اپنی والدہ کو لے کر کوئٹہ چلے آئے، فیض محمد بلوچ نے اپنے بیٹے تاج محمد کی بطور بینجو نواز تربیت کا بیڑا خود اٹھایا، تاج محمد تاجل کو جب ریڈیو پاکستان کوئٹہ اسٹیشن پر بچوں کے پروگرام کے لیے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے اس مواقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پہلے پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرکے توجہ مبذول کروایا۔
تاج محمد تاجل کہتے ہیں کہ’’ فیض محمد بلوچ کراچی ریڈیو میں کام کرنے کے بعد حاجی ولی محمد پریس کے دوکان پر کام کرتے تھے، انکے دوست ظہور شاہ ہاشمی انکے ہمراہ ہوتے تھے، دونوں نے فیصلہ کیا کہ فیض بلوچ کا گانا ریکارڈ کرا سکیں،مقامی کمپنی کے مالک سے درخواست کی تو پہلے وہ نہ مانے مگر بعد میں جب 500روپے بطور ایڈوانس کامیابی کی ضمانت پر رکھ دیے گئے تو وہ راضی ہو گئے۔ فیض محمد بلوچ نے اپنے گروپ کے ساتھ گانا ریکارڈنگ کرایا جس میں مسقط ئے مہروک، پٹھانی دل پہ، خوب چلے اور ایک نام کمانے کا ذریعہ بنے۔ پہلی کامیابی کے بعد کمپنی مالک نے اب کی بار ان سے خود ریکارڈنگ کی درخواست کی تو ان کی درخواست پر انہوں نے دوسرا کامیاب ریکارڈنگ کروایا۔
گلوکاری کے حوالے سے فیض محمد بلوچ بہت بڑا نام ہے، انکی موسیقی کا اپنا طرز و انداز رہا ہے، اسی طرز نے دھنبورہ کو اپنے عروج پر لے جانے کا کارنامہ سرانجام دیا۔ زھیروک فیض بلوچ کی شناخت بنی، عشقیہ اور رزمیہ شاعری کو داستان اور زھیرونک کی شکل دے کر گایا۔( ’’ تاسکین بچانی مرگ گران انت‘‘)کو گاکراپنا مقام بنایا۔
کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر رمضان بامری فیض بلوچ کی قومی خدمات پر کہتے ہیں کہ بلوچستان حکومت کی جانب سے کبھی بھی فیض بلوچ کے حوالے سے پروگرام نہیں رکھا گیا، البتہ ایرانی حکومت نے فیض محمد بلوچ کی خدمات پر انھیں یاد کیا اور دو اہم پروگرام رکھے، یہ پروگرام ایران کے شہر ایران شاہ ،چاہ بہار اور راسک میں منعقد کئے گئے۔ا س سلسلے میں نور محمد نورل ،استاد ستاربلوچ اور عزیز بلوچ کو ایران مدعو کیا گیا تھا،جنکے ویزے بھی آچکے تھے لیکن ان سیمینار میں شرکت نہ کرسکے۔
واجہ عبداللہ بلوچ ادارہ ثقافت کے ڈائیریکڑوقتاََ فووقتاََ بلوچستان کے بلوچی و براہوی گلوکاروں کو کوئٹہ بلاتے رہے اور مختلف پروگرام منعقد کراتے رہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’ ناکو فیض محمد بلوچ اور مرید بلیدی نے بلوچ ثقافت کو روشناس کرایااور بہت افسوس کے ساتھ کہ ہم نے ان گلوکاروں کو نئی نسل اب تک ہم متعارف نہیں کراسکے ہیں اور نہ ہی جامع انداز میں سیمنار منعقد کرسکے ہیں‘‘۔ ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر بشیر بلوچ نے خود فیض بلوچ کے گائے ہوئے داستانوں کی ریکارڈنگ یکجا کی جو اب بھی ریڈیو اسٹیشن میں موجود ہیں جبکہ اسلام آباد لوک ورثہ میں انکی داستانوں کا کوئی مجموعہ موجود نہیں جو افسوس کا مقام ہی سمجھا جائے گا۔
نورمحمد نورل،عزیزبلوچ،محمد شفیع بلوچ،ستاربلوچ،جاڑوک،ریکی،سبزل سامگی، نور خان بزنجو، محمد عارف،رمضان زیدی، رمضان ٹاپی،مراد پارکوئی،اختر چنال ، رحیم بلوچ ،رحیم بخش ناز، بشیر بلوچ اور بلوچستان کے دیگر گلوکاروں کی گائیکی سے کون واقف نہیں۔فیض محمد بلوچ کے حوالے سے جب نور محمد نورل سے بات ہو ئی تو اُنہوں نے کہا،”فیض محمد بلوچ کا شمار ہمارے استادو ں میں ہوتا ہے میں نے اُن سے بہت کچھ سیکھا۔جب میں ابتدائی دنوں میں کوئٹہ آیا تواُنہوں نے اپنے گھر میں ٹھہرایا۔ اُن دنوں اکثر گلوکار اور مہمان ناکوفیض محمد بلوچ کے پاس آکر ٹہر تے،فیض محمد ایک مخلص انسان، جسے اپنے فن سے محبت اور لگاؤ تھا وہ صا ف دل،مردم دوستی،سنگیت سے پیار کرنے والے انسان تھے وہ گاتے وقت وجد میں چلے جاتے تھے۔ اُن کا اُوڑنا بچھونا سنگیت تھا ۔
“ٹاؤن ہال کوئٹہ میں نیب کے دور میں فیض محمد بلوچ کی سربراہی میں ایک بہت بڑا پروگرام منعقد ہوا۔ فیض محمد بلوچ نے پہلی مرتبہ اتنے بڑے پروگرام میں نورمحمدنورل کو متعارف کروایاجہاں میرگُل خان نصیر سے اُن کی ملاقات ہوئی جنھوں نے اس گلوکار کی بے حد حوصلہ افزائی کی۔
فیض محمد بلوچ نے دو شادیاں کیں، انکے بیٹوں میں خیر محمد، نور محمد، تاج محمد تاجل ہیں، تاجل محمد تاجل اور خیر محمد ریڈیو سٹیشن کے ساتھ وابستہ رہے جبکہ نور محمد ان دنوں کراچی ہسپتال میں بطور گیٹ کیپر اور وارڈ مین کام کر رہا ہے انہوں نے بھی اپنے والد فیض محمد کا روپ دھارنے کی کوشش کی لیکن چند ہی گیت گا سکے۔
لیلا او لیلا انکی گائیکی میں اولیت رکھتا ہے، جسے گا کر وہ دھوم مچاتے رہے، اور اسی طرح اس نے موسیقی کو زندہ اور روشن رکھا۔ لیکن اسکے بعد اسکے خاندان کو اس نظر سے نہیں دیکھا گیا، خاندان کے بیشتر افراد کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، تاج محمد جسے ریڈیو پاکستان میں ملازمت پر رکھا گیا تھا 2014کو جبری طور پر نکالے گئے، بلوچستان حکومت کی جانب سے کبھی بھی فیض محمدبلوچ اور دیگر صف اول کے گلوکارں کے حوالے سے نہ کوئی عملی طور پر پروگرام منعقد کیے گئے اور نہ ہی باقاعدہ کوئی سمینار……ہماری نئی نسل ان بڑے فنکاروں سے ناواقف ہے جنھوں نے ہماری ثقافت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ پوری دنیاء میں ہماری ثقافت کو متعارف کروایا۔حکومت بلوچستان کی جانب سے رنگارنگ پروگرا م ا ور محفلیں تو بڑی سجتی رہی جن پر رقم کا بے جا ضیاع ہوتا رہا۔لیکن بلوچستان حکومت کی جانب سے کبھی بھی فیض محمدبلوچ اور ہمارے دیگر صف اول کے گلوکارں کے حوالے سے نہ کوئی عملی طور پر ،پروگرام منعقد کیے گئے اور نہ ہی باقاعدہ کوئی سمینار……ہماری نئی نسل ان بڑے فنکارں سے ناواقف ہے جنھوں نے ہماری ثقافت کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ پوری دنیاء میں ہماری ثقافت کو متعارف کروایا۔حکومت بلوچستان کی جانب سے رنگارنگ پروگرا م ا ور محفلیں تو سجتی رہتی ہیں جن پر رقم کا ضیاع ہوتا رہا۔لیکن جنھوں نے ہماری ثقافت کو فنکاری کے ذریعے زندہ رکھا ُ انکی نہ تو کبھی حوصلہ افزائی کی نہ ہی توجہ دی گئی۔ در.درکی ٹھوکریں اُن کے خاندان آج بھی کھارہے ہیں،ہم آج بھی اُنکی موسیقی کو سن کر محظو ظ تو ہوتے ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں لیکن عمل سے بہت دور ہیں۔
فیض محمد بلو چ کے چند مشہور نغمے جنھیں آج بھی شوق وذوق سے سناجاتاہے۔۔۔!
۔تئی صورتئے زیباءَ من گرفتاراں۔۔۔!
۔رنگا مچار دوستی مکاں۔۔۔!
۔مجنوں مہ بی دیوانہ دل۔۔۔!
۔اے ناز حسنِ والا۔۔۔!
۔کُشتہ مناں گلا ، اے با غ بلبلا۔۔۔!
۔پاری چداگل گوئستہ ۔۔۔!
مسکتئے مہروک تئی محبتاں گاراں ۔۔۔۔!
صفِ اول کے بہت بڑے گلوکار ناکو فیض محمد بلوچ کا انتقال6 مئی 1980کو کوئٹہ میں ہوا ۔اُن کے خوب صورت اور دلفریب نغموں نے آج بھی فیض محمد بلوچ کو موسیقی اور گلوکاری کی دنیا میں زندہ رکھا ہے ہمیں اپنے فنکاروں کو یاد کرنے کا بہتریں ذریعہ یہی ہے کہ ہم اُن کی زندگی اور فن پر لکھیں اور سیمینار ز منعقد کرایں تاکہ ہم اپنی ثقافت کو زندہ رکھ سکیں اور اپنی نئی نسل کو ان گلوکاروں سے آ گاہ کرسکیں ۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *