Home » کتاب پچار » صرف عقل ہی آزاد کرسکتی ہے!۔۔۔۔ عابدہ رحمان

صرف عقل ہی آزاد کرسکتی ہے!۔۔۔۔ عابدہ رحمان

کتاب : ماں
مصنف: میکسم گورکی
صفحات: ۴۰۰
قیمت: ۶۰۰ روپے
مبصر: عابدہ رحمان
انقلابِ روس کے پس منظر میں لکھا جانے والا یہ ناول’ماں‘ کارخانے کی اس سیٹی سے شروع ہوتا ہے کہ جس پر مزدور بستی کے تمام مزدورادھوری کچی نیند سے اٹھ کرنیم وا آنکھوں ، ایک نا ختم ہونے والی تھکن سے چور وجود کو لیے فیکٹری کے اس کالے دھویں کا رخ کرتے ہیں کہ جو ان کی سانسوں، ان کے وجود اور زندگیوں میں اس قدر بھر گیا ہے کہ جہاں اور کچھ سمونے کو جگہ ہی باقی نہ رہی۔ ان کی پوری زندگیاں اس تلخ دھوئیں کی گھٹن میں گزر رہی تھیں ۔ شدید محنت و مشقت کہ جس کا ثمردوسرے کھاتے تھے ، کو کم کرنے کے لیے وہ ووڈکا جیسی کمزور شئے کے محتاج تھے یا پھر بیوی بچوں کے ساتھ مار پیٹ کرتے ہوئے اس فرسٹریشن کا نکاس ہوتا تھا۔ شدید تھکن، گھٹن اورکوفت جو ان کے اندر جمع ہوتی تھی، انھیں نکالنے کی کوئی صورت نہ ہونے وجہ سے ذرا سی بات پر اشتعال میں آ کر قتل بھی کر دیتے تھے۔یوں لگتا تھا کہ یکسانیت نے ان کے دماغ کو ایک نشے کی طرح سلا دیا تھا۔
’ماں‘ پلاگیانلوونا اپنے نشئی مزدور شوہرمیخائیل ولاسوف سے اس کی موت تک مار کھاتی رہی اور گالیاں سنتی رہی کہ جس نے اس کی خود اعتمادی کو چھین کراس قدر ڈرپوک بنا دیا تھاکہ ذرا سے کھڑکے سے بھی کانپ اٹھتی تھی۔
میخائیل ولاسوف کی موت کے بعدنلوونا کا بیٹا پاویل ، ایک خود اعتماد اور مضبوط نوجوان جس نے وہاں کے گھسے پٹے راستے پر چلنے کی بجا ئے سوشلزم کی راہ اختیار کی۔ اس نے کتابیں گھر لا کر پڑھنا شروع کی ۔ اس نے ووڈکا پینا چھوڑ دیا۔ اس کی شخصیت، اس کے اٹھنے بیٹھنے اور رویے میں ایک نمایاں تبدیلی آنے لگی۔ نلوونا اس سب سے خوف زدہ تھی اور پاویل کہتا تھاکہ ، اسی خوف نے ہم سب کو برباد کر دیا ہے اور یہ لوگ ہم پر حکمرانی کرتے ہیں ۔ وہ ہمارے خوف سے ہی فائدہ اٹھا کرہم پر اور زیادہ ظلم کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ جب پاویل ماں کو کتابوں کے بارے میں بتانے لگااور اس کے دوست گھر آنے لگے، اخبارات اور کتابیں پڑھ کر سنائے جاتے۔ ان پر بحث ہوتی رہتی تو ماں کے اندر کا خوف کم ہوتا چلا گیا اور پھر اس بات پر حیران ہونے لگی کہ یہ کتابیں آخر کیوں ممنوع ہیں ،اس میں تو کچھ غلط نہیں ہوتا۔ پاویل نے بتایا کہ’’حقیقت جاننے کے لیے کہ محنت کشوں کی زندگیاں اتنی کٹھن کیوں ہیں، وہ ممنوعہ کتابیں پڑھتے تھے کہ ہمیں اپنے ذہنوں کو ادراک اور عقل و دانش کی روشنی سے منور کرنا چاہیے اور ان لوگوں کو روشنی دکھانا چاہیے جن کے ذہنوں پر لاعلمی کا اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ ہمارے پاس ہر چیز کا ایماندارانہ اور سچا جواب ہونا چاہیے۔ ہمیں مکمل صداقت اور مکمل جھوٹ کا علم ہونا چاہیے‘‘۔جب کہ سرمایہ دار اُن سے حقیقت کو پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے۔ ایک اور جگہ پاویل نے کہا کہ ،’’ہر شخص دل ہی دل میں رکھے ہوئے ہے ۔ ضرورت یہ ہے کہ لوگ ذرا اونچی آواز میں سوچیں‘‘۔
یوں اس سٹڈی سرکل سے نکل کروہ کارخانے کے مزدوروں میں خفیہ طور پرپرچے تقسیم کرنے لگے کہ ’’ جن میں کارخانے کے انتظام و انصرام پر سخت تنقید ہوتی ، ان میں پیٹرز برگ اور جنوبی روس کا تذکرہ ہوتااور مزدوروں سے کہا جاتا کہ وہ اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے متحد ہو جائیں‘‘۔ پھر یوں ہونے لگا کہ پاویل اور اس کے ساتھیوں کے گھر وں کی وقتاً فوقتاً تلاشی ہونے لگی اور مختلف ساتھیوں کو جیل ہونے لگی۔ خفیہ اخبار نکالنا شروع کر دیا۔ اسی اخبار میں دلدل کے کوپک کے واقعے کو چھاپا گیااور اس ہڑتال کے بارے میں بھی جو اس وقت فیکٹری کے مزدوروں نے کی تھی۔
یہ اخبارات اور پرچے محنت کشوں کی سوچ میں تبدیلی لا رہے تھے اور انھیں متحد کر رہے تھے جس سے فیکٹری کا ڈائریکٹر اور حکومت بوکھلا گئے تھے۔ اسی ہڑتال کے پیشِ نظر پاویل کوگرفتارکر لیا گیا ۔
وہ ماں جو ہر وقت ایک انجانے خوف میں مبتلا رہتی تھی، وقت کے ساتھ ساتھ اس کا اعتماد بحال ہوتا گیا ۔ وہ اپنے ہونٹوں پر ہر وقت ایک پُر شفقت اور خوب صورت مسکراہٹ لیے رکھتی ۔ اس کی محبت صرف پاویل کے لیے نہیں رہی بلکہ اس کے سارے دوستوں کو بھی اپنی محبت سے اپنے قریب کر لیا۔ اپنے ارد گرد سے اس کی محبت پھیل کر عام غریب ، مظلوم انسان تک چلی گئی۔ پاویل کی گرفتاری کے بعد ماں وہ پرچے فیکٹری پہنچانے لگی جس کے نا پہنچنے سے پولیس اس بات کو پاویل کے خلاف استعمال کر سکتے تھے ۔ اس طرح ماں بیٹے کی سوشلسٹ تحریک کا باقاعدہ حصہ بن گئی۔اور اس کے انقلابی کاموں میں اس کا بھر پور ساتھ دینے لگی۔
پاویل ہی کا ایک ساتھی ربن گاؤں چلا گیا اور وہاں کے کسانوں کو متحد کرنا شروع کر دیا ۔ ماں پرچے اور اخبارات وہاں بھی پہنچاتی رہی۔
لوگوں کو ایک سطح پر لانا ہمارا کام ہے۔ دماغ نے جو کچھ سوچااور ہاتھ نے جو کچھ بنایا ہے، اس سب کو تقسیم کر دیں۔ انھیں لالچ اور حماقت کا شکار نہ ہونے دیں۔
پہلا عظیم جلوس جس نے تہلکہ مچا دیا اور جس کے بعد ہی مقدمہ چلا اور پاویل اور اس کے ساتھیوں کو وطن بدر کر دیاگیا ۔ پاویل نے کہا ،’’لوگ کہتے ہیں کہ دنیا میں مختلف قومیں آباد ہیں : یہودی اور جرمن، انگریز اور تاتاری لیکن میں نہیں مانتا۔ صرف دو قومیں ہیں ،دومخالف قومیں :امیر اور غریب۔ لوگوں کے لباس جدا ہوتے ہیں ، زبان الگ ہوتی ہے لیکن مالدار فرانسیسی مالدار، جرمن اور انگریز مالدار محنت کشوں سے کیسا برتاؤ کرتے ہیں اور پھر معلوم ہوگا کہ ہم مزدوروں کے لیے وہ سب کے سب پاجی اور بدذات ہیں۔ لعنت ہو ان پر! اور دوسری طرف دیکھو تو نظر آئے گا کہ فرانسیسی اور تاتاری اور ترکی مزدور سب کے سب بالکل ہم روسی مزدوروں کی طرح کتوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں۔‘‘
مقدمہ چلا جسے پاویل اور اس کے ساتھیوں نے بالکل غیر قانونی اور نا جائز قرار دیا۔ وہ لوگ نجی ملکیت، جسمانی اور اخلاقی غلامی کے خلاف تھے اور صاف کہتے تھے کہ ایسی صورت میں کہ جب تک محنت کشوں اور مزدوروں کے ساتھ انصاف نہ ہو اور جب تک حکمران محنت کشوں کی خون پسینے کی کمائی پر قبضہ نہ چھوڑ دیں تب تک مصالحت ممکن نہیں۔ اور یہ کہ مزدوروں اور محنت کشوں کو صرف روٹی ہی نہیں چاہیے بلکہ ہر وہ سہولت جو کسی بھی انسان کو میسر ہے، وہ ان محنت کشوں اور مزدوروں کو پوری طرح ملنی چاہیے۔
لہٰذا یہ سوشلسٹ نوجوان اور اس کے ساتھی ان نام نہاد تہذیب و تمدن کے روحانی غلاموں کے خلاف لڑتے رہے ۔ انھوں نے لوگوں کی سوچ کو بدلا اور انھیں ایک نئی سوچ دی ۔ انھیں سچ اور جھوٹ او ر اصل حقیقت بتائی جس کے بعد آزادی کی جدوجہدمیں سب جت گئے ۔ اور یہی بیداری اصل جیت تھی۔
اصل بات یہ ہے کہ انسان کو پتہ چل جائے کہ میری زندگی میں گھٹن کیوں ہے اور یہ کیسے ختم ہوگی۔ میں غلام کیوں بنا دیا گیا اور مجھے اس غلامی سے آزاد ہونا ہے ۔ جب یہ سوچ اس میں آگئی تو سمجھو وہ آزاد ہو گیا ہے۔ یہی بات کتاب کے آخر میں اس طرح بتائی گئی ہے ، ’’میرے خیال میں غلام جس نے اپنی افسوس ناک زندگی پر کانپنا چھوڑ دیا ، جس نے اپنی آزادی کے لیے لڑنے کا فیصلہ کیا وہ آزاد انسان بن گیا ،چاہے ابھی اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لٹک رہی ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ غلام نہ ہوں ۔ میں غلاموں کو نہیں پسند کرتا، مجھے ایسے مجاہدوں سے، ایسے لوگوں سے پیار ہے جن میں آزاد انسان کی مردانگی ہوتی ہے۔‘‘
اس غلامی سے آزادی کے لیے عقل اور جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ بغیر ڈر اور خوف کے چاہے کچھ بھی ہو جائے کیوں حق و صداقت کو بالا خر تسلیم کروانا ہی پڑتا ہے،کہ خون کا ساگر بھی صداقت کو نہیں ڈبو سکتا۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *