Home » کتاب پچار » تاریخ کے دریچے سے۔۔۔ عابدہ رحمان

تاریخ کے دریچے سے۔۔۔ عابدہ رحمان

کتاب کا نام: بلوچ ، مہر گڑھ سے تشکیلِ ریاست تک
مصنف: ڈاکٹر شاہ محمد مری
صفحا ت: ۲۲۸
قیمت : ۴۰۰ روپے
مبصر : عابدہ رحمان

کہتے ہیں کہ اگرتم تاریخ نہیں جانتے تو تم کچھ بھی نہیں جانتے۔تم ایک ایسے پتے کی مانند ہو جسے پتہ ہی نہیں ہے کہ وہ ایک درخت کا حصہ ہے۔
اور پھر جب آرکیالوجی کی بات کریں تو کہاگیا کہ یہ ایک ایسا معمہ ایک ایسی پہیلی کی مانند ہے کہ جس میں نہ تو کوئی نقل کی جا سکتی ہے، نہ ہی سب کچھ ایک ہی جگہ پر دیکھا جا سکتا ہے اور نہ تمام ٹکڑے ایک مقام پر پائے جاتے ہیں۔ اس لیے آرکیالوجسٹ ایک مسلسل جستجو میں رہتا ہے اصل حقیقت تک پہنچنے کے لیے۔
ہم نے بھی آرکیالوجی کے کمالات دیکھنے کے لیے کہ انسان اور پھر بلوچ کی کیا تاریخ ہے، ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب کی کتا ب ’’بلوچ، مہرگڑھ سے تشکیلِ ریاست تک‘‘ اٹھائی اور اس کا مطالعہ شروع کر دیا ۔ کتاب کا آغاز بگ بینگ سے ہوا کہ ایک بہت بڑے دھماکے کے نتیجے میں یہ دنیا وجود میں آگئی ۔ زمین کا پھیلاؤ شروع ہو گیا ، آج تک یہ عمل جاری و ساری ہے۔ آہستہ آہستہ سورج اور پھر ا س کے گرد سیارے بنتے چلے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ، ’’ہمارا بلوچستان دو بلوچستانوں سے مل کر بنا ہے ۔ ملینوں سال قبل آج کے مغربی بلوچستان کی چاہت میں زمین کا ایک بہت بڑا ٹکڑاقطب جنوبی والی برف سے منجمد زمین سے علیحدہ ہو گیا اور اس نے آخر زمین کے ایک اور بڑے ٹکڑے کو ہزاروں میل پرے دھکیل دیا اور خود مشرقی بلوچستان بن کرمغربی بلوچستان کے پہلو میں پیوست ہو گیا ۔ دوسرے لفظوں میں پورا برِصغیر پاک و ہند مشرقی بلوچستان تک ہند آسٹریلیائی پلیٹ پر مشتمل ہے ۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ بلوچستان ہمیشہ سے خشک اور بنجر نہیں تھا بلکہ یہ علاقہ گھنے سرسبز جنگل سے ڈھکا ہوا تھا اور اس کا ثبوت وہ روڈھوسس بلوچستانی سس اور بلوچی تھیریم کا دیتے ہیں ۔ روڈھوسس بلوچستانی سس کے فاسلز جو مشرقی بلوچستان کے علاقے رکھنی میں لاکھا کچ لوھما میں کِن دت کے مقام پر ملے اوربلوچی تھیریم نامی ایک ممالیہ کے فاسلز ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں دریافت ہوئے۔ اور یہ سب ایسے ہی علاقے میں ممکن تھا کہ جہاں گھنے جنگلات ہوں ، پانی کی فراوانی ہو۔
کتاب کے تیسرے باب میں ڈارون کے مختلف نظریات دیے گئے ہیں کہ آخر انسان کی ابتدا ہوئی کیسے۔ کہیں بتایا گیا کہ انسان ۸۰ لاکھ سال پہلے درختوں پر ایپ کی طرح کے جاندار سے شروع ہوا ۔ پھر بتایا گیا کہ ا نسان جانوروں کی مخلوق سے آیا۔
انسان جس طرح سے بھی آیا لیکن اس کے ارتقائی عمل اور اس کے کمالات دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ وہ انسان جو صرف شکار اور ماہی گیری کرتا تھا ، جڑیں ، کیڑے ، گھونگے چنتا تھا اور پھر وہ وقت آیا کہ اس نے ہاتھ کی انگلیوں کو مکا بنانا سیکھا ، درختوں پر پتھر مار کر پھل حاصل کرنے لگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہاتھ کی کرامات دیکھئے کہ اوزار بنانا، عصا ، کلہاڑی بنانا سیکھی۔ ایک بہت بڑی بات یہ کہ آگ کو اپنے تابع کر لیا۔ شکار کرنا، مٹی کے برتن بنانا۔۔۔ اے انسان تو کتنا عظیم ہے!
کسی نے بہت ہی خوب صورت اور بڑے کام کی بات کی ہے ’کہ تاریخ کامطالعہ کرو، تاریخ سے واقفیت حاصل کروکیوں کہ اس میں سیاسی تدبیر کے راز پنہاں ہیں۔‘
تو چلئے ہم آگے چلتے ہیں۔
ایک بہت مزے کی بات جو میں ضرور کرنا چاہوں گی وہ یہ کہ بہت سے ایسے کام جن کی ابتدا کا کریڈٹ عورت کو جاتا ہے، مری صاحب نے خصوصاً بیان کیے ہیں کہ ،’’ زمین جوتنا، اناج پیسنا،خوراک تیار کرنا، دھاگہ بنا کر لباس تیار کرنا، برتن اور زیورات بنانا، آگ کو محفوظ کرنا، باغبانی کرنا۔ خاص طور پر زراعت کی ابتدا اس نے کی۔ دنیا کے مختلف خطوں میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران عورتوں کی قبروں سے ملنے والی اشیا، درانتی، آٹا پیسنے کا پتھر، چمچے، تکلا وغیرہ ان دیو مالائی قصوں کو خاصی حد تک سچا ثابت کرتے ہیں۔ زرعی معاشروں میں عورت زراعت کی ابتداکرنے کی وجہ سے زرخیزی کی علامت بن کر ابھری ۔‘‘
دراصل شاعری اور ادب اگر معروض کے مطابق ہو اور وہ ہماری دسترس میں ہو، ہمیں ملے تویہ تاریخ کی حقیقتوں اور اس کی سچائی تک پہنچنے میں مدد کرتی ہے اور یہاں یہ ہے کہ مری صاحب کہتے ہیں کہ ہم صرف ۵۰۰ سال کے بلوچی ادب سے واقف ہیں لیکن ہم یہ ہر گز نہیں کہتے اورنہ ہی سمجھتے ہیں کہ ہم محض ۵۰۰ سال پرانے لوگ ہیں اس لیے کہ ہم مہرگڑھی ہیں اور یہ تہذیب ۱۱۰۰۰ سال پرانی ہے لیکن اس کے لیے ہمیں آرکیولوجی کی مزید دریافتوں کا انتظار رہے گا۔
مہر گڑھ، جہاں دنیا کی قدیم ترین تہذیب دریافت ہوئی اور جو تقریباً 11000 سال پرانی ہے۔ اپنے ارتقائی عمل میں انسان نے گھاس ، جڑوں اور درختوں کی کاشت شروع کی اور اپنی خوراک کے ذرائع وسیع کر دیے۔ رفتہ رفتہ دال، گندم، جَو اور کھجور کی کاشت اسی دور میں شروع ہوگئی۔ آب پاشی اور تجارت کی ابتدا بھی اسی زمانے کی بات ہے۔ ایک مزے کی بات جو اس کتاب میں بتائی گئی وہ یہ کہ سماج میں فرق بھی تب موجود تھا اور یہ چیز اس بات سے پتہ چلی کہ قبروں کی کھدائی کے دوران دیکھا گیا کہ کچھ قبروں میں قیمتی پتھر اور زیورات بھی دفن تھے جب کہ بہت سے ایسے تھے جس میں میت کے ساتھ ایسی کوئی چیزدفن نہیں تھی۔ اور پھر تجارت کی شروعات ہوئی ایک اور مزے کی بات جو مری صاحب نے لکھی کہ تجارت نہ صرف اشیاکی بلکہ خیالات و نظریات کی بھی۔
سماج میں طاقت اور توازن کب عورت کے ہاتھ سے نکل کر مرد کے ہاتھ میں منتقل ہوا؟ جی یہ بات ہے ۵۰۰۰ سال ق۔م کی جب مادر نسبی اور اشتراکی نظام کے اس آخری مرحلے میں چاک سے برتن بننا شروع ہوتے ہیں۔اسی زمانے میں سماج میں اونچ نیچ کا آغاز ہوتا ہے۔ انسان ایک طرف تو پیداوار میں آسانیاں لاتے رہے اور دوسری طرف وہ مافوق الفطرت سوچ کا شکار ہوتے چلے گئے ۔ آخر وہ وقت آیا کہ سماج تو ترقی کر گیا لیکن ترکھان، کمہار اور سنار کو کم تر طبقہ سمجھا جانے لگا ۔ میرے خیال سے تو یہ وہ وقت تھا جو ترقی کے باوجود انسان ایک طرح سے مزید پیچھے چلاگیا۔
اس دور میں کوئی منظم مذہب نہ ہونے کے باوجود دیوی دیوتاؤں کا غلبہ تھا ۔اس وقت کے امیر لوگوں نے جادو ، دم چھو اور ڈرانا شروع کر دیا۔ مندر اسی دور میں بننے لگے ۔ مندر ہی خوش قسمتی اور بدقسمتی کا ڈھنڈھورا پیٹنے لگا اور لوگوں کو غیر منطقی امید اور خوف کا شکار کرنے لگے ۔ کرامات پر قبضہ ہوتا چلا گیا اور مری صاحب کہتے ہیں کہ کرامات پر قبضہ ہی اصل میں اقتدار پر قبضہ ہوتا ہے۔سائنس کو پیچھے کیا جانے لگا، جس نے ایک جامد سماج کی داغ بیل ڈالی۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں ،’’ سماج جمود کا شکار ہوتا گیا اور یہ جامد سماج ایک طرف قدرتی آفات اور دوسری طرف وحشی حملہ آوروں کے لیے آسان ہوتا گیا۔ سائنسی ترقی رک جانے سے یہ دونوں قوتیں ہزار گنا طاقت ور ہوتی جاتی ہیں۔اور خوف بڑھتا جاتا ہے۔ خوف تو عقائد کی ماں ہوتا ہے۔ عقائد پھر خوف کو جنم دیتے ہیں۔اور اس طرح دگنا ہوا خوف مزید عقیدہ پرستی کی طرف دھکیلتا جاتا ہے۔ یہ سائکل کبھی نہیں ٹوٹتا ۔ عقیدہ، سائنس کی بہ نسبت سہل ہوتا ہے۔ چنانچہ دستکار اور کاشتکار زیردست بنا۔ اقتدار یعنی ریاست کی ابتدائی اور اولین تشکیل ہونے لگی۔‘‘
ایک اور اہم بات جو بتائی گئی کہ مہر گڑھ تباہ نہیں ہوا بلکہ نقل مکانی کر گیا۔سندھ میں آمری اور کوٹ ڈیجی کو آباد کرنے والوں کے بارے میں خیال کیا جاتاہے کہ وہ مہرگڑھ سے گئے ہیں۔ اسی طرح مہر گڑھ سوئم سے لوگ ہڑپہ اور موہنجو دڑو کے علاقوں کی طرف چلے گئے۔
یہ بات بھی ایک معمے سے کم نہ رہی کہ کیا بلوچ آریا بھی ہیں؟ آریا وہ تمام لوگ ہیں جو ۱۵۰۰ ق۔م سے لے کر ۱۷۰۰ ق۔م تک شمال سے موسم کی شدت کے باعث آتے مختلف گرم علاقوں کی جانب ہجرت کرگئے جس میں بلوچستان بھی شامل ہے۔ آریا جو دنیا کی آبادی کی واضح اکثریت کے لوگوں کے عظیم اجداد میں سے ہیں ، ۱۴ ویں صدی ق۔ م میں اپنے مال مویشی سمیت باختر، کابل، ارغنداب سے ہوتے ہوئے بولان میں پھیل گئے اور وہاں کے لوگوں میں جذب ہو گئے یعنی یہ بات ہم بڑے آرام اور یقین سے کہیں گے کہ آج کا بلوچ بہ یک وقت مہر گڑھی بھی ہے اور آریا بھی۔
آگے چل کر بلوچستان کن لوگوں کے مخالف مزاحمت کرتا رہا ،اس کی تفصیل ہے جس میں ایک ہزار ق۔م ایران اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں بسنے والے لوگ ایک ہی قبیلے یا گروہ کے لوگ نہ تھے۔ اس وقت ماد کا فارس پر قبضہ کر لیا تھا اور آشور کی عظیم حکومت کو شکست دے دی۔ اس زمانے میں کہا گیا کہ کر دبلوچ آشورا ( آھورا) کی پرستش کرتے تھے۔ ’’ھورا‘‘ کا مطلب ’’ آگ‘‘اور’’آیا‘‘ کا مطلب ’’آیا ’’ہے۔ بلوچ کرد آتش پرست تھے ۔ بعد از موت زندگی پر یقین نہیں تھا اور نہ مردوں کو دفن کرتے تھے۔ نکاح اور ختنے کارواج نہ تھا۔ بند اور کاریزکی تعمیر اسی دور کے طریقہء آبپاشی اور کاشتکاری کا پتہ دیتے ہیں۔ یورپ اور مصر تک اسی دور کی فتوحات ہیں۔صوبے کی ضلعوں میں تقسیم بھی اسی عرصے میں ہوئی۔ ۳۲۶ ق۔م کا زمانہ تھا جب سکندرِ اعظم مختلف علاقے فتح کرتا گیا لیکن اس سفر میں اس کے چالیس ہزار فوجیوں میں سے پچیس ہزار راستے میں مر گئے تھے ،جن میں اکثر صحرائے مکران میں مرے تھے جس کی وجہ راستے کی صعوبتوں کے علاوہ بلوچ قبائل کے حملے بھی تھے۔
۳۱۰ ق۔م میں افغانستان اور بلوچستان بطورِ تاوان چندر گپت کو دیے گئے جس نے بیس سال حکومت کی۔ اس کے بعد اس کے بیٹے بندوسار نے ۲۴ سال اور پھر اشوکِ اعظم نے ۳۸ سال حکومت کی۔
۳۰ ۱ ق۔م میں مانویت اور مزدکی تحریکیں شروع ہوئیں۔ مزدکیوں نے سماجی براؤں کے خلاف کھلے عام جدوجہد کا اعلان کیا۔ انھوں نے برادرانہ امدادِباہمی کی حوصلہ افزائی اور حرص و ظلم کو کم کرنے کے لیے جائداد کو اجتماعی ملکیت میں دینے کا تصور پیش کیا۔نوشیروان نے بادشاہ بن کر مزدکیوں کا قتلِ عام کیا اور اس طرح مزدکی انقلاب کو کچل ڈالا لیکن یہ تاریخ کی سب سے بڑی طبقاتی تحریک تھی۔
اسلام سے قبل یہاں کے مذاہب آتش پرست، زرتشت اور بدھ مت تھے۔
ساتویں صدی عیسوی میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد سرحدیں بڑھانا شروع کر دیں۔حکومت فوج کو معاوضہ زمین کی بجائے مالِ غنیمت سے دیا جاتا۔ عرب ریاست کے تحت زمین کا بیشتر حصہ یا نجی ملکیت میں تھا یاجرگے کی ملکیت ۔زمینیں مدتِ ملازمت تک دی جاتی تھیں۔ اس طرح زمینداروں اورطاقتور امرا کے ایک نئے طبقے کی تشکیل کا آغاز ہوا، جن کی جائداد ریاست کی ملازمت پر منحصر ہوتی تھی۔ جاگیردارانہ طرزِ سماج کی ابتدا اسی دور میں ہوئی جب خانہ بدوش فوجی بن کرمفتوحہ علاقے میں زمیندار بن گئے۔
حضرت عمرؓ کے زمانے میں بلوچستان کے دشوار گزار پہاڑوں کی وجہ سے حملہ ملتوی کیا گیا لیکن پھر حضرت عثمانؓ کے زمانے میں سیستان پایہء تخت زرنج سے لے کرکیچ مکران تک علاقہ فتح کر لیا۔حضرت علیؓ کے زمانے میں کوہِ قیقان( قلات) فتح ہوا لیکن معاویہ کو بلوچستان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
محمد بن قاسم، محمود غزنوی، چغتائی خان، سلطان التمش اور تیمور لنگ کے بیٹے میران شاہ بلوچستان کے مختلف علاقوں کو فتح کرتے رہے اور پھر رند و لاشار دور آیا۔ عہدِ چاکر جس میں بلوچی زبان بالغ تھی۔ بلوچوں پر کی گئی شاعری تو قدیم زمانے سے ملتی ہے مگر خود بلوچوں کی اپنی شاعری تاریخ کی دھند میں گم ہو چکی ہے۔ صرف رند و لاشار کی شاعری دستیاب ہے۔ پندرھویں اور سولہویں صدی کو بلا شبہ ادب کا دور کہا جا سکتا ہے۔
پہلی بلوچ حکومت کا قیام ۱۵۳۰ میں عمل میں آیا اور باقاعدہ بلوچ ریاست بنی جب سردار عمر خان میرواڑی نے تختِ قلات پر قبضہ کر لیا۔
قسمت کی بات دیکھئے اور میں تو کہوں گی کہ یہ رند و لاشار کی بے وقوفیاں تھیں کہ ۳۰ سال تک خانہ جنگی ہوتی رہی جس کی بنا پر والئی ہرات نے فائدہ اٹھا کر۱۴۷۰ میں بلوچستان پر قبضہ کر لیا۔ یوں قوم دربدر ہو گئی۔
۱۱۰۶ میں اورنگزیب نے بلوچوں پر حملہ کر کے مغلوں کی صورت میں ہمارے معاشرے میں جاگیرداری کا مضبوط طبقہ پیدا کر لیا۔ میر احمد نے ۱۶۶۷ میں مغلوں کو شکست دے کرمستونگ، کوئٹہ اور پشین کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔
فیوڈل نظام کی اصل ترقی ۱۷ ویں صدی میں ہوئی جب میر احمد خان پھر میر نصیر خان کے سرقبیلوی نظام کمزور ہوتا چلا گیا۔میر نصیر خان نے ایک زبردست حاکم بن کر ہندوستان فتح کرکے بلوچستان کو ترقی دی۔ فوج کی تنظیم کاری کی۔ شدید مذہبی ہونے کی وجہ سے ذکری فرقے کو مارا۔ایک شاندار عہد ہونے کے باوجود یہ ایک مکمل فیوڈل دور تھا۔ عورتوں کو جائداد میں حق نہیں دیا جاتا تھا۔غلامی کی مختلف شکلیں آئیں اور غلاموں کی خرید وفروخت عام تھی لیکن ان سے پیداواری کام نہیں لیا جاتا تھا بلکہ یہ سب گھریلو ملازم تھے۔
میر نصیر خان تاریخ میں پہلا بلوچ خان تھا جس نے اپنی قوم کے لیے ایک باقاعدہ نظامِ حکومت قائم کی۔ بلوچی مجلس ( پارلیمنٹ) کی بنیاد رکھی۔ توران کی بجائے وطن کا نام بلوچستان رکھا اور اسے ایک آزاد اور خود مختارملک کی حیثیت سے دیگرممالک سے تسلیم کروایا۔
تاریخ ایک ہم آہنگ، ایک ہم صوت گونج ہے ،ایک نغمہ جو ہم نے کچھ سنا ہوتا ہے ،کچھ نہیں۔ یہ واقعات پر مشتمل ایک نظم کی مانند ہے ۔ اس لیے تاریخ سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پوری نظم سنیں، لہٰذاایسے گوشے جو ہم سے اب تک پوشیدہ ہیں، انہی دیکھنے اور جاننے کو ہم آرکیالوجی کی نئی دریافتوں کے منتظر رہیں گے۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *