Home » پوھوزانت » ماما کا ’’ آخری سفر‘‘ ۔۔۔ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو

ماما کا ’’ آخری سفر‘‘ ۔۔۔ ڈاکٹر عطاء اللہ بزنجو

۔19نومبر کی شام بروز پیر خبرآئی کہ ماماعبداللہ جان جمالدینی کی طبیعت ناساز ہوگئی ہے ۔ ( 94سالہ ماما بہت ۔عرصے سے ناسازطبیعت کے وجہ سے زندگی کی ساتھ بھر پور لڑتے رہے ہیں)
اس خبر سے سنتے ہی ہم اُن کے ہاں جمع ہوگئے ۔ جہاں پروفیسر ڈاکٹر شاہ محمد مری کے علاوہ اُنکے عزیز واقارب موجود تھے۔ ماما جمالدینی کا انتقال ہوگیا۔ گھر میں لوگوں کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری تھا ادب کی تاریخ پر اندھیرا چھا گیا، سائباں چلا گیا۔ مہر ومحبت ، دوستی سنگتی کا پیکر روٹھ گیا۔ میر کارواں کا سفر جو انگریزوں کے دور سے شروع ہوتا ہے جدوجہد سے بھر پور۔۔۔۔۔ سنگت اکیڈمی کا سرپرست اعلیٰ ، بلوچستان یونیورسٹی کا روشن ستارہ ۔۔۔ بلوچستان سنڈے پارٹی کا روحِ رواں ۔ لٹ خانے کالٹ ، شمع فروزاں ۔۔۔۔۔ اب نہیں رہا۔۔۔۔۔ اُداسی دکھ اور تکلیف کی اس حالت میں اُنکے گھر اُنکے ساتھ ۔۔۔۔۔مگر دل کو تسلی دینے والی بات تھی ۔ وہ زندہ ہیں لیکن ایسا نہیں تھا ۔ اس دوران اُن کی زندگی کی سب سے قریبی ساتھی اُنکی رفیق حیات بھلا کیا اپنے اس محبوب کو اکیلے جانے دیتی ؟۔ دونوں نے پوری زندگی ساتھ بتائی اور اب اکیلے کیسے جائیں گے ۔ طبیعت کی ناسازی میں بدستوراضافہ ہوتا گیا ، بے ہوشی کے عالم میں بھی ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بابا جمالدینی کو پکار رہی تھی ، میں آرہی ہوں ۔ اُنکے سرہانے پر میں اور ڈاکٹر طارق مری بدستور ناکام تیمارداری کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ زندگی بچانے والی دوائیوں سے لیکر آکسیجن، ڈرپ انجکشن سب کا استعمال ہوا۔ مگر اُن کا اپنا فیصلہ تھا جو اٹل تھا۔ دوسری طرف عزیز واقارب پروفیسر ڈکٹر شاہ محمد مری ، جیند جمالدینی اور دوستین جمالدینی افسر دہ حالت میں کھڑے تھے۔ باربار پوچھ رہے تھے اب حالت کیسی ہے ہسپتال لے جائیں ، ایمبولینس کا بندوبست کریں ، رات گئے بارہ بچے تک وہ پکارتی رہی ساتھ زندگی گزاری ہے جانا بھی ساتھ ہی ہوگا۔ اس وقت کیا حالت ہوئی ہوگی۔ خاندان اور دوستوں پر کیا کیفیت طاری ہوگی ، سخت مشکل اور تکلیف کی اس حالت میں ہم نے یہی فیصلہ کیا اب ہسپتال جانا ہوگا ۔ ڈاکٹر محبوب علی بلوچ سے متواتر رابطے میں تھے ، اُنہیں سلیم کمپلیکس کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں لے جایا گیا۔ اور ہم اُنہیں بچانے کی ناکام کوشش کرتے رہے ، جن کا فیصلہ اٹل ہواُ ن کا راستہ بھلا زندگی بچانے والی دوائیاں کی روک سکیں گی۔ پوری رات یہی کیفیت رہی ۔ دوسری طرف ماما کے گھر پرصبح سویرے سے ہی دوستوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا، صبح 7:30بجے کے قریب ماما جمالدینی کی میت کایہ قافلہ نوشکی کی طر ف روانہ ہوا اور راستے ہی میں یہ خبر آئی کہ ماما جمالدینی کی اہلیہ نے اپنا فیصلہ سنا دیاہے ، کہاں مجھے ساتھ چھوڑ کر روانہ ہوگئے ہو ۔ میں تو پوری زندگی اس کارواں کا حصہ رہی ہوں۔۔۔۔۔ واہ کیا ساتھ دیا ہے ، کیا نبھایا ہے ۔۔۔۔۔ماما جمالدینی زندگی کے اس آخری سفرمیں بھی اس کارواں کے میر رہے ، اُن کی قیادت میں ہم اُنکے پیچھے ایک بڑے قافلے کی صورت میں رواں دواں تھے، صبح 11بجے کے قریب نوشکی میں ماما جمالدینی کے گھر پہنچے جہاں پہلے سے ہی لوگوں کا بڑا ہجوم اپنے محبوب کے انتظار میں موجود تھا۔ لگ بھگ ایک بجے کے قریب منجھورو پہاڑ کے دامن میں دو جنازے اد ا کئے گئے۔ جس میں سنگت اکیڈمی آف سائنسزاور سنڈے پارٹی کے دوستوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
کیا واقعی ماما جمالدینی زیر زمین ہوگئے، ایک باب ختم ہوا۔ کیا مرجانے سے انسانوں کا نام ونشان مٹ جاتا ہے ؟ جسم مرجاتے ہیں انسان تو زندہ رہتا ہے ، سوچ زندہ رہتی ہے ۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے ۔ باب ختم نہیں شروع ہوا ہے ۔۔۔ماما جمالدینی پیدا ہوگئے ہیں اُ ن کے شعور وآگہی کے ساتھ جن کا پر چار وہ ہر دور میں کرتے آئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں لٹ خانے کا لٹ اب اور لٹ ہوگیاہے ۔۔۔۔۔ جو پختہ ارادہ اُنہوں نے دیا۔ زندگی میں اُن پر عمل پیرا ہونے کا نام ماما جمالدینی ہے ۔ ایسے انسان کیا مرسکتے ہیں ، ہر گز نہیں ، بلکہ رہ جاتے ہیں دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔
یہاں سب کچھ ختم نہیں ہوتا ۔ اُن کی زندگی ، صفحات ، ادب وسیاست پر بہت کچھ لکھنا اور پڑھنا باقی ہے
چاند مدہم ہے آسماں چُپ ہے
نیند کی گود میں جہاں چُپ ہے

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *