Home » پوھوزانت » ہے بے بختی ۔۔۔ عابدہ رحمان

ہے بے بختی ۔۔۔ عابدہ رحمان

۔19ستمبر، جب اندھیرا چار سو پھیل چکا تھا اور رات اپنا سفر شروع کر چکی تھی۔ کہ ایک دم سے موبائیل بجا ۔ کوئی میسج آیا تھا۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر موبائیل اٹھا کے دیکھا تو ایک درد ناک خبر میری منتظر تھی۔ ،، بابا عبداللہ جان جمالدینی انتقال کر گئے،،
،، ہے بے بختی!،،
میں ، جو غم سے ایک دم سے بوکھلا جاتی ہوں ۔ ذہن سن سا ہو جاتا ہے کچھ سمجھ نہیں آتی۔ لیکن پھر وہی غم آہستہ آہستہ میرے اندر تحلیل ہو کر میرے پورے وجود تک محیط ہو جاتا ہے۔ بابا جمالدینی کی وفات کا سن کر بھی میری یہی کیفیت ہوئی۔ غم میرے وجود کی عمارت میں بھر گیا۔
’’ میں تو ان سے کبھی مل بھی نہ سکی‘‘ یہ خیال آتے ہی بے ساختہ میرے منہ سے ایک دفعہ پھر نکلا ، ہے بے بختی!،
اگر میں ان سے کبھی ملی نہیں تو میں اتنے دکھ میں کاہے کو ہوں۔۔۔؟
کیا ان کا دیا ہوا سبق ، ان کی تعلیم ، ان کی پوری شخصیت مجھ تک نہیں پہنچی؟
وہ بابا جو صرف سوشلزم کی نعرے بازی تک ہی محدود نہیں تھے بلکہ وہ اپنے لوگوں کو اپنے عمل، اپنی میٹھی باتوں، اپنی محبت، اپنے کام اور اپنے علم سے سوشلزم سے گزرواتے تھے۔ سوشلزم ان سب پر بیتتی تھی۔ انسانیت کا احترام کرنا اپنے عمل سے سکھاتے تھے۔ وہ ایک باقاعدہ تربیت کر دیتے تھے اور اس طرح ایک غیر محسوس انداز میں یہ نوخیز ذہن ، یہ روشن خیال ان کے قافلے کا کا حصہ بن جاتے تھے۔
قافلے کے اب تک کے آخری مسافروں میں سے ہوں لیکن پھر بھی کیا یہ سارا سبق ، یہ سب کچھ مجھ تک نہیں پہنچا۔۔۔؟
یہ سب تو مجھ تک اپنی پوری وضاحتوں کے ساتھ پہنچا ۔۔۔!
بابا کی پوری شخصیت میرے سامنے ہے۔ پھر میں کیوں کہوں کہ میں ان سے نہیں ملی ۔۔۔؟
بابا جو اپنے یارِ غار کمال خان شیرانی کے ساتھ مل کر سرکاری نوکری کو ٹھوکر پررکھ کر عوام الناس میں شامل ہو گئے۔
نوخیز ذہنوں کی تربیت کا علَم جو انھیں اپنے استاد صاحبزادہ ادریس سے ملا تھا جسکی سربلندی کے لئے لٹ خانے کی صورت میں پہلا مورچہ ۱۹۵۰ میں سنبھالا جہاں ہاتھوں کو نہیں بلکہ ذہنوں کو مسلح کیا جانے لگا۔ انھیں ایک سطح پر لایا جانے لگا۔ ذہنوں کی سلیٹوں پر لکھی گئی روایتی تحریروں کوکھرچ کر تعفن کو ختم کر کے اک نئی سوچ کی تازگی بخشی۔ وہ انسان تھے ایک بہت اچھے انسان ۔اسی لئے انھوں نے ہمیشہ دوسرے انسانوں کی قدر کی اور انسانیت کا درس دیا۔ وہ سہی معنوں میں انسان بناتے رہے۔
قوم دوست و انسانیت دوست مفکر بھوک، جہالت اورغلامی کے خلاف علَم اٹھانے والوں میں سے تھے۔ قافلے کے لوگ طبعی طور پر جدا ہوتے گئے لیکن قافلہ چلتا رہا اور اسی دوران وہ لکھتے بھی رہے لیکن لکھنے کے ساتھ ساتھ وہ لکھاری بھی بناتے رہے۔ اس طرح وہ روشن خیالی اور روشن خیالوں کو Multiply کرتے رہے۔
سنڈے پارٹی میں وہ پچھلے 24 سال سے اپنی محبتیں اور اپنا علم بانٹتے رہے کیوں کہ وہ پکے سوشلسٹ تھے کہ تقسیم پر یقین رکھتے تھے۔
ایک ایسا انسان اب ہم میں نہیں رہا۔
، ہے بے بختی،
لیکن ان کی سوچ ، ان کی باتیں ، ان کے الفاظ تو ابھی تک فضا میں گونج رہے ہیں اور سدا گونجتے رہیں گے جنھیں تمام صاحبِ سماعت سن رہے ہیں۔ بابا تو ہمارے دلوں کے تاروں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔
کیسے کہیں کہ اب وہ ہم میں نہیں رہے۔۔۔؟
اگر ہم یہ مان گئے کہ وہ ہم میں نہیں رہے۔ ان کے کام، ان کے پیغام کو اگر ہم بھول گئے تو ہم سے بڑا غدار تو کوئی اور نہ ہوگا۔
ہمیں ان سے جدائی کے اس غم کو اپنی Strength بنانا ہوگی ۔۔۔!
تاکہ قیامت کے دن ہم سرخرو رہیں!!

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *