Home » شیرانی رلی » ہجرِ مسلسل ۔۔۔ مبشر مہدی

ہجرِ مسلسل ۔۔۔ مبشر مہدی

یہاں اک ہجرِ مسلسل کا پھر آغا ز ہوا چاہتا ہے اے یارو
یہاں ٹوٹے ہوئے دل روز اک انگار جلاتے ہیں نیا
ایک انگار تھا وہ بھی جو دِلوں کے اندر
روشنی کے کئی پیکر ہی تراشے چلا جاتا تھا یونہی
روشنی جس سے عیاں تھا کسی چہرے کا وہ رخ
جس سے جذبوں کی حرارت مہک اٹھتی تھی
ہاں وہ ہنگامِ سحر، وہ متبسم آنکھیں
وہ لبِ لالیں، ہاں وہ کیف مئے آتشِ عشق
ہاں وہ خورشید سارخ شعلہ سے رخسار حسیں
وہ بدن ساز پہ ٹھہرا ہوا اک تار لرزتا ہوا تار
جسکی انگڑائی مجھے شاہ سواروں کی کماں لگتی تھی
سرسراتی ہَوا محسوس ہوا کرتی تھی اْن قدموں کی چاپ
جابجا سْوکھے ہوئے پات ٹھہر جاتے تھے، رْکتی تھی کلی
عنبریں چاپ جوآواز میں شامل تھی کبھی
اْف وہ پلکیں جو کڑی دھوپ میں سایہ کر دیں
اور دم بھر کو جو اْٹھیّں تو قیامت ہو جائے
ٹھہر و ٹھہرو کہ وہی زہرہ جبیں آتا ہے
ٹھہرو ٹھہرو کوئی مہتابِ زمیں آتا ہے
ہم نے دیکھا نہ تھا ایسا جو حسیںآتا ہے
خواب تو گم ہوا ماضی کی کتابوں میں ہمیشہ کے لیے
لو سفر ختم ہوا دل کے سمندر میں کہیں
کہ سفینے پر پری رْو تو اب اتریں گے نہیں
اس سمندر میں
نہ مچلے گی کوئی یاد، کوء لہر نہیں اٹھے گی
وہ جو مہتاب الجھتے تھے کبھی اس کے قریں
کھو گئے کا ہکشاؤں کے قریب
ایسے جادہ سے کوئی آتا ہے چپ چاپ چلا
اس مسافت میں تو بس باقی ہے اب راہ کی دھول
جو کہ دھندلاتی ہے سب عکس رہِ منزل کے
ہم سے پوچھو نہ کہ کیا روگ تھے سہتے رہے جو ہجر میں ہم
ہائے کیا کیا نہ یہاں زیست کی راہوں میں گنوایا ہم نے
اب مغّنی کا کوئی شور نہ آواز ، نہ ساز
اب نہ انجام نہ آغاز کوئی
آنکھیں بند ہوا چاہتی ہیں اب دونوں
حسرتِ دید، سفر کی تھکن اب دونوں کو کملانے کے لائی ہے قریب
کتنی مدّت سے فقط رکھاّ تھا ان آنکھو ں نے
ایک ہی چاپ کو متلاشی کئے
ہاں تو ایسا بھی ہے کہ
قافلہ دشتِ غمِ دل والوں کا
اپے لشکر کا عَلم تھامے چلا آتا ہے
جس پہ چھائی ہے جنوں کی شورش
اب کی بار اس نے پکارا ہے اسی دھج سے ہمیں
یہ صدائیں ہمیں دیتی ہیں سحر کا پیغام
سبھی شور دیدہ سر اِس سمت کھنچے آتے ہیں
سوچتا ہوں کہ کہیں اس کا بھی انجام کوئی شامِ غریباں ہی نہ ہو
کہ بہت تند بہت تیز ہے مقتل کا خروش
جانے اس قافلے والے بھی سحر دیکھتے ہیں یا کہ نہیں
کئی مجبوردلوں میں یہاں جاگی ہے امید
ہاں مگر دستِ عد وبھی بہت بھاری ہے
یہی اب دیکھنا ہے ہوگا اجالا کہ کھْلے گا نیا اک بابِ مسلسل شب کا

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *