Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ ساحر لدھیانوی

غزل ۔۔۔ ساحر لدھیانوی

پونچھ کر اشک اپنی آنکھوں سے مسکراؤ تو کوئی بات بنے
سر جھکانے سے کچھ نہیں ہوتا سراٹھاؤ تو کوئی بات بنے

زندگی بھیک میں نہیں ملتی زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے
اپنا حق سنگ دل زمانے سے چھین پاؤ تو کوئی بات بنے

نفرتوں کے جہان میں ہم کو پیار کی بستیاں بسانی ہیں
دُور رہناکوئی کمال نہیں، پاس آؤ تو کوئی بات بنے

*******

چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو، کچھ اور نہیں ہے جام ہے یہ
قدرت نے جو ہم کو بخشا ہے ، وہ سب سے حسین انعام ہے یہ

شرما کے نہ یونہی کھو دینا رنگین جوانی کی گھڑیاں
بے تاب دھڑکتے سینوں کا ارمان بھرا پیغام ہے یہ

اچھوں کو بُرا ثابت کرنا دنیا کی پرانی عادت ہے
اس مئے کو مبارک چیز سمجھ ، مانا کہ بہت بدنام ہے یہ

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *