Home » پوھوزانت » اپنے لیے وقت نکالو ۔۔۔ لالین

اپنے لیے وقت نکالو ۔۔۔ لالین

میں یونیورسٹی میں پڑھتے وقت سوچتا تھا کہ پڑھائی ختم کرنے کے بعد آزاد ہوجاؤں گا اور اپنی مرضی چلے گی ۔ مجھے کسی کے لیکچر سننا نہیں پڑیں گے اور میں اپنی من مانی کروں گا ۔لیکن وقت کے چکروویوں میں میں ایسا پھنسا کہ اب چاہوں تو بھی فرار نہیں ۔ مگر کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے ۔ شاید ہر انسان کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ وہ قید میں چلا جاتا ہے اور نیلی چھتری والا اس کے وارنٹ گرفتاری کے آرڈر جاری کردیتا ہے۔ انسان کبھی سرکاری یا غیر سرکاری نوکری کے ذریعے گوانتا موبے جیل کی کال کوٹھڑی کا قیدی بنایا جاتا ہے اور اس سے کبھی بیوی اور بچوں کی دیکھ بھال کی مچھ جیل والی چکی پیسنے کی ڈگری جاری ہوتی ہے پس وہ قیدی بنایا جاتا ہے۔ وہ قیدی کہ جس کے فرار کے تمام راستے سیل کردیے جاتے ہیں اور اس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔
ہمیشہ سے ہم سنتے آئے ہیں کہ بھائی ز ندگی تو بچپن اور نوجوانی کی ہے یعنی جب تک ذمہ داریوں سے آدمی آزاد ہوتا ہے، بعد میں قید و بند سے بس ۔ بعد کی زندگی تو دوسروں کی ضروریات اور خواہشات کے تابع ہوتی ہے۔ تو لیجئے صاحب اس ضمن میں ہماری بھی کچھ سنیے۔ بھائی ٹھیک سنا تم نے اور جو بچپن اور جوانی کی عمر میں ہیں تو ہم سنا ئے دیتے ہیں کہ بھائی یہی زندگی ہے اِس کو جیو، پھر قید ہی قید ہے اور تنہائی ہی تنہائی ہے۔ اکیلے کو زندگی کی بے رحمیاں برداشت کرنا ہوگی۔
کسی بچے کے ٹی شرٹ پر کچھ الفاظ تحریر تھے انگریزی میں لکھا تھا
’Dont Grow up. Its a trap‘
لیکن ہمیں ان الفاظ کی سمجھ اوراہمیت اس وقت پتہ چلتی ہے جب ہم Growکر گئے ہوتے ہیں۔ جب ذمہ داریوں کے بوجھ تلے کبھی خود کو اور کبھی آس پاس کے لوگوں اور چیزوں کو گالیاں دیتے ہیں ۔تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم اب Growکر گئے ہیں۔ لیکن راہ فرار کوئی نہیں ہے۔ ہاں چھٹکارے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے فرار۔ بس فرار ہوجاؤ بن سوچے بن سمجھے نکل پڑو، بھاگ جاؤ ظالم سماج سے ۔ ارے ڈرتے کیوں ہوں میں ہوں ناں ۔ مانا کہ تم پر بہت ساری ذمہ داریاں ہیں۔ مانا کہ تم پر بہت سے لوگوں اور کاموں کا انحصار ہے۔ ہاں یہ بھی ہے کہ کچھ کام تمہارے بنا نہیں ہوسکتے۔ ہمیں اس بات سے بھی انکار نہیں کہ تم بہت مصروف ہو ۔ لیکن کرنا پڑتا ہے اپنے لیے، اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے اور یقین کیجیے اس فرار سے آپ کے کام کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی ہوگا۔ بس فرار ہوجاؤ کچھ وقت کے لیے میرے اچھے دوست۔
گیارہویں بارہویں میں پڑھا تھا غزل تھی شائد۔ عنوان تھا۔ بارش کا پہلا قطرہ۔ تو جناب بہت مشکل ہوتا ہوگا۔ شناور بننے کے لیے بارش کا پہلا قطرہ بننا پڑتا ہے۔ توکل کرنا پڑتا ہے اور کودنا پڑتا ہے آتش نمرود میں۔ طویل سفر کے بعد راہِ فرار کا پہلا قدم رکھنا پڑتا ہے۔ اور اگر چھٹی نہ ملنے کا ڈر ہو تو بھی نکل پڑو اور اطلاع بعد میں دو ۔ اب نکلنا کہاں ہے یہ بہت اہم ہے۔ راہِ فرار کے مسافر کے لیے جناب کسی پر فضا مقام پر نکلو،یا کم از کم اس شہر سے نکلو۔
زندگی کی کٹھن پیچیدگیوں کو سر کرنے کے لیے ضروری ہے کچھ دن اس ماحول سے نکلا جائے۔ کولہو کے بیل کی طرح اگر ہم انسان ایک ہی روٹین کو فالو کریں گے تو مشین بن جائیں گے۔ چڑچڑاپن اور ڈپریشن جیسے موذی امراض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ ہماری زندگی اور اس سے جڑے لوگوں کی خوشحالی کے لیے ہمارا صحت مند ہونا ضروری ہے۔ ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے میں ایک مضمون لکھ رہا تھا، عنوان تھا ’’ فرسٹریشن‘‘۔ اس لفظ کے اگر اردو میں لفظی مطلب پر غور کریں تو وہ ہے مایوسی، بے بسی، بے قراری۔ مجھے اس عنوان پر لکھتے ہوئے کافی مشکل ہورہی تھی۔ دماغ ٹک کر یکسوئی سے کام کرنے اور اس موضوع پر لکھنے سے انکاری تھا ۔ تب میرے ایک اور لکھاری دوست نے مشورہ دیا کہ بھائی کچھ دن مضمون پر لکھنا موقوف کردو اور فرار ہوجاؤ ۔ میں نے یہی کیا اور میرے وہم و گمان کے برعکس کمال ہوگیا۔ میں کچھ دن بعد ہشاش بشاش ذہن سے جو بیٹھا لکھنے تو مضمون پورا کرکے ہی اٹھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ آپ فرسٹریشن جیسے مضمون پر بھی لکھ سکتے ہیں بنا فرسٹریٹ اور مایوس ہوئے۔ بس کچھ دن کی چھٹی کچھ ساعت کے لیے فرار ہوجائیے اور کمال دیکھیے اپنی خوبصورت آنکھوں سے۔
کسی نے ایک شرابی سے شراب پینے سے پہلے گلاس ٹکرانے کی منطق اور وجہ پوچھی۔ تو جواب عجیب تھا ۔ اس نے بتایا کہ شراب دیکھنے سے آنکھوں کو نشہ ہوتا ہے، اسے سونگھنے سے ناک کو، اسے پینے سے زبان کو نشہ ہوجاتا ہے مگر اس بیچ کان بھی بے قرار ہوتے ہیں کہ کسی طرح اُن کو بھی نشہ ہوجائے۔ تو شرابیوں نے اس کا علا ج یہ نکالا کہ شراب پینے سے پہلے گلاس ٹکرا کر کانوں کو بھی مظوظ کرتے ہیں اور ان کو نشے میں شامل کرتے ہیں۔ تو اسی طرح خوبصورتی کو انسانی ذہن ایسے قبول کرتا ہے جیسے نشے میں موجود آدمی کسی چیز کو قبول کرتا ہے۔ خوبصورتی کو بار بار دیکھنے میں اسے وہی سرور ملتا ہے جو شرابی کو شراب میں ملتا ہے۔ اللہ نے اس کائنات کو بہت خوبصورت بنانے کے ساتھ ساتھ انسانی آنکھ کو اس خوبصورتی کو سراہنے اور تعریف کرنے کے لیے وہ تمام تر جزیات سے نوازا ہے جس کی ضرورت تھی۔ انسان خوبصورت چیز منظر یا چہرے کو فوراً جانچ لیتا ہے۔ اس کاذہن خوبصورتی کو ایک بار ہی اپنے اندر سمانے اور اس کو بار بار دیکھنے کی خواہش کرتا ہے۔ خوبصورت آنکھ ہی ایک بے جان پتھر میں سونے چاندی اور ہیرے کی جاذب نظر چمک اور کشش کو فوراً دیکھ لیتی ہے۔
تو جناب اس کائنات کی خوبصورتی اپنی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تسخیر کرتے جاؤ دنیا کو اور اپنی آنکھوں کی بینائی ( اصل بینائی تو کھلی آنکھ سے کائنات کی خوبصورتی دیکھنے میں ہے ) کو تیز سے تیز کرتے جاؤ ۔ نکلو کہیں کسی دیس، کسی پہاڑ، کسی جنگل، کسی صحراہ کی طرف۔ چل پڑو ۔تم اپنے پیچھے اپنے آفس ، اپنا کاروبار، اپنے گھر کی وجہ سے پریشان تو نہیں ہو۔ ارے بھائی یہ سائنس بڑی کمال چیز ہے ، موبائل ، وٹس ایپ، ٹویٹر، اور جانے کیا کیا بلا ایجاد ہوچکے ہیں تو مستفید ہوجاؤ سائنس سے۔ اور اپنے کام سنبھالو وہیں سے جہاں ہو لیکن خدارا اپنے لیے وقت نکالو۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *