Home » پوھوزانت » سورج کا شہر، گوادر ۔۔۔ شاہ محمد مری

سورج کا شہر، گوادر ۔۔۔ شاہ محمد مری

بدوک میں ایک دلچسپ چیز دیکھی۔ وہاں ملیشیا کا چیک پوسٹ ہے ۔آس پاس بلوچستان ہے ۔۔۔۔۔۔ ذومعنویت مت تلاش کیجئے، مطلب ہے کہ آس پاس کوئی آبادی، کوئی بستی گاؤں وغیرہ نہیں ہے۔ مگر پھر بھی وہاں عصر کی اذان بہت زوردار لاؤڈ سپیکر پر دی جارہی تھی آ واز مین البتہ موذن عمر خیام کا بیان کردہ جیسا تھا۔
اور پھر گوادر۔ اسے گوادر(Gawadar) کی بجائے گو آدر (Guadar) پڑھنا چاہیے ۔اس کی شکل کیا ہے؟۔ جیسے پانی کے بڑے تالاب کے کنارے سے ایک دیوھیکل پیرپانی میں رکھا ہوا ہو۔ خود پاؤں بھی خشکی ہے اس کی ایڑی کی طرف بھی خشکی اور اس کے پنجے پر بائیل پہاڑ کا ابھار۔ پیرکے دائیں بھی پانی اور بائیں بھی سمندر۔ پیر کے دائیں بائیں نیم دائرہ کی شکل کے کنارے بناتا ہوا نیلگوں سمندر۔
گو آدر پرشیں گلف کے دھانے پر واقع ہے۔ سٹریٹس آف ہر مز سے ذرا سا باہر۔ پرشیں گلف میں آنے جانے کے بحری جہازوں کے اہم ترین روٹ پر۔یہی تو وہ اہم ترین سمندری شاہراہ کی اہم ترین جگہ ہے جہاں سے دیو کے دادا ہیکل سے بھی بڑے بحری جہاز خلیج فارس آتے جاتے ہیں۔اسے اسی خطے میں موجود مغربی بلوچستان کے چاہ بہار بندرگاہ جتنی اہمیت حاصل ہے۔قلات ریاست میں شامل 72 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود اِن دو بندرگاہوں کو گولڈ سمتھ نامی ایک بدبخت کی تیار کردہ سرحد صدیوں کا فاصلہ دیے بیٹھی ہے۔
عجب چکر چل رہے ہیں ۔ایران ،گو لڈ سمتھ کے عطا کر دہ چا ہ بہا ر کو گو ادر کے مقا بل کھڑا کر رہا ہے ۔چاہ بہار جو اُس کا اپنا نہیں ہے۔ چاہ بہار بھی گوادر کی طرح مہر گڑھ والوں کی ہے۔ ایران افغانی بلوچستان میں زرنج نامی علاقے تک ریلوے لائن لے جائے گا۔ جہاں سے تاجکستان کو ریل سے ملایا جائے گا۔ایشیائی عظیم الجثہ ڈریگن، چین ، خود کو تاجکستان سے ریل کے ذریعے ملا ئے گا۔ ابھی تو ایران اُس بین الاقوامی شاہراہ سے کام لے رہا ہے جو اس نے چاہ بہار سے زرنج تک بنائی ہے۔ اسی شاہراہ کو کئی ممالک ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
اِدھر پا کستا ن چین کے ساتھ مل کر گو ادر کو ’’تر قی ‘‘ دے رہا ہے ۔ Rootاور Route کے قصے اخبارات اور ٹی وی پر دھڑا دھڑ چل رہے ہیں ۔ زون ہی زون ۔ پیسہ ہی پیسہ ۔لہذا جھگڑے ہیں،فسا د ہیں ۔اخبا ر ی بیا نا ت ہیں ،ٹی وی ٹاک ہیں ،شا ک ہیں ،صدمے ہیں ، زورہے ،شو رہے،زبر دستی زیر دستی ہے۔ کو ئی نا ک کو اِدھر سے مسخ چا ہتا ہے کو ئی اُدھر سے ۔
مگر،گو ادر بے چا رہ سے کو ئی پو چھتا ہی نہیں ہے کہ بھا ئی صا حب ! بتا تیر ی رضا کیا ہے۔ اور یہی ہے خر ابی کی اصل بنیا د ۔ گو ادر سے پو چھنا بہت ضروری ہے ۔ آج ،کل ،یا پرسوں ۔ پتہ نہیں ہم اپنے نو اسو ں پو تو ں کے لیے مسا ئل کیو ں چھو ڑ جا نا چا ہتے ہیں؟ ۔ بھلا ایسا کہیں ممکن ہو ا ہے کہ اتنے بڑے بین الاقوامی منصوبے بغیر مقامی رضا مند ی سے کا میا ب ہو ئے ہوں ۔اور مقا می رضا صر ف سیا سی نہیں ہو تی ۔ آپ کو جغر افیا ئی مو جو د ات تک کی رضا کا خیا ل رکھنا پڑ تا ہے ۔ ڈنڈ ے اور پیسے سے رضا نہیں خر ید ی جا سکتی ،صر ف معا ہد ے ہو جا سکتے ہیں ۔اور معاہد ے طے اور قا ئم صر ف اُس وقت تک رہتے ہیں جب تک اُس کا مصنف طا قتور رہتا ہے ۔اور طاقت تو بہت خا نہ بد وش چیز ہو تی ہے۔ آج یہ آپ کے پا س ہے کل یہ �آ پ کو ہلا کت میں ڈال کر کہیں اور مہما ن بن جا تی ہے۔
گوادر کو ساتھ لیا جاتا تو گوادر بلوچ کی زندگی بدل ڈالنے کا وسیلہ ثابت ہوتا ۔ ہم فیوڈل ازم سے ایک ہی جھٹکے میں باہر نکلتے، ہماری غاروں والی زندگی اور مائنڈ سیٹ یک دم بخارات بن جاتا۔ ہمارا تعار ف اور ہماری شناخت دنیا سے ایک اور،اور ایک بلند صورت ہوتی ۔ علم حلم کے ساتھ مل جاتا، ٹکنالوجی سائنس کی ہم جولی بنتی ، اور ہم ایک باوقار مددگار کے بطور دنیا کے کام آتے۔ گوادر ہماری تہذیبی، معاشی اور سیاسی ،ہمہ جہت ابھار کا موجب ہوتا۔گلف سے لے کر ایران و افغانستان اور پاکستان تک بلوچ سماج میں صدیوں بعد، گوادر نے محسوس کیا جانے والا ہلچل پیدا کرنا تھا۔ ایک بین الاقوامی سطح کا پروجیکٹ بننا تھا اسے، بہت بڑی سرمایہ کاری ہونی تھی یہاں ۔۔۔۔۔۔ اگر ہم ہوتے۔
شام سات بجے ،ہم پلٹتی لپٹتی راہوں کوکار موٹر کی بانہوں میں سمیٹے سیدھا ایک لاکھ آبادی والے گوادر میں اپنے میزبانوں کے پاس پہنچے۔۔۔۔۔۔۔ موبائل فون پر دوستوں سے راستہ کی ہدایات لیتے لیتے ہم بالآخر ایک بنگلہ کے مین گیٹ پر تھے۔تقدیرنے میرے اچھے دوست بخشی کو موت دیس کوبدر کردیاتھا، مگراُس کا بھتیجا بہرام تو موجود ہے۔ اتنا اچھا اور متحرک بلوچ کہ سارے مہمانوں کو اپنے بڑے گھر میں جمع کرایا۔ دعوت کھلائی اور کچھ احباب بالخصوص خواتین مہمانوں کو اپنے گھر ٹھہرایا بھی۔خدا گھروں گھرانوں کے گیٹ دوستوں کے لیے بند نہ کردے شالا۔
شامیں، گوادر کی شامیں۔ ’’ آنکھوں میں تو دم ہے‘‘ والے غالب کو دو شاموں کے لیے گوادر لاؤ وہ پوری کلیات نہ بخش دے تو جو سزا ضیاء الحق کی وہ میری۔مگر، ایک حقیقت بتاؤں؟ برا لگتا ہے وہ شاعر جس نے زندگی بھر محبت کا قطرہ نہ چکھا ہومگر عشقیہ شاعری کے مجموعے در مجموعے شائع کرتا ہو۔برا لگتا ہے جو آدمی پیتا نہ ہو اور ساغرو مینا پہ صفحے پہ صفحے کا لا کرتا جائے۔ چنانچہ،۔۔۔۔۔۔ ہم گوادر پہنچے۔
یہ چار روزہ کتابوں کا میلہ تھا۔ مگر اِسی میں سیمینار بھی تھے، پینٹگز کی نمائشیں بھی ، ڈرامہ، مشاعرہ تھے، ’’سینڈ آرٹ‘‘ یعنی ریت سے مجسمے بنانے کی فنکاری تھی۔ موسیقی کی بزم آرائی تھی۔ گویا بلند ترین سطح کی سرگرمیاں تھیں آرٹ و ادب کی ۔
میلے کا افتتاح اُسی روز ہمارے پہنچنے سے پہلے جان بلیدی کرچکا تھا۔ جان بلیدی سیاسی ورکر سے کم رفتاری مگر مستقل مزاجی سے ترقی کرتا رہا۔ اپنی سیاسی پارٹی کے لیے ایک روزنامہ کی ایڈیٹری کرتا رہا اور بالآخر اب وزیراعلیٰ کا سیاسی مشیر اورحکومت کا ترجمان ہے۔مدہم طبیعت کا بظاہر مودب نظر آنے والا یہ سیاسی کارکن اپنی سیاسی ( وغیر سیاسی) شرارتوں کے حوالے سے کبھی کبھی اخباروں میں آجاتا ہے۔ مگر مجموعی طور پر گفتگو کے قابل انسان ہے۔
دو لاکھ روپے امداد کے اعلان کے ساتھ اس نے یہ افتتاح’’ فرمایا‘‘۔ اچھا ہوا کہ ہم’’ اپنے‘‘ کرنے کے کام کے وقت پہنچے۔ افتتاح و اختتام تو سرکار کے سیشن ہوتے ہیں۔ سپاسنامے ، مطالبات، اعلانات،انعامات۔ ہمیں بتایا گیا کہ مقررین کتاب کی اہمیت اور علم کی ترویج کی ضرورت پہ بھی بولے۔ کچھ کچھ وزیراعلیٰ اور اُس کی حکومت کی تعریف ہوئی۔ اصل میں جس تنظیم نے چار روزتک گوادر کو جنگل منگل کرناتھا اس کا سر برا ہ، واجہ سو رابی سمیت تقریباً سا رے عہدیدار اِسی پارٹی سے قر بت رکھتے ہیں۔ لہٰذا اگر سیدھا سیدھا نہ بھی کہیں تو بھی اشاروں کنایوں میں، مونچھوں کے نیچے، چھپ چھپا کر ،اس حکومت کی تعریف تو کرنی تھی۔
ہم گوادر، بخشی کے بھتیجے بہرام کے گھر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں تو ایک ’’ مچیں پور‘‘ سجا ہوا تھا۔ کراچی کی بہت اچھی شاعرہ شہناز نور کو ہم نے پہلے نہ دیکھا تھا نہ پڑھا تھا۔ لہٰذا سنا بھی نہ تھا۔ اُسے یہ بتایا تو وہ بالکل بھی حیران نہ ہوئی۔ اسے پتہ تھا کہ اِس دیس میں علم و فن کی دنیا کے ستاروں پہ کمندیں پھینکنے والوں کے ساتھ ساتھ بہت سے ’’خلیفے‘‘بھی موجود ہیں۔ لہذا ، وہ بس مسکرادی۔
شہناز نورمیری طرح بے وفا نہیں، اس نے تو ابھی تک سگریٹ سے دوستی نبھائی ہوئی ہے۔ ۔۔۔
پہلے ہم نے سب سے پہلے اُسے سنا ، اُس کی تکریم کی ۔
ایک عدد اور نور بھی موجود ۔ مگر وہ ’’تھی ‘‘نہیں،’’ تھا‘‘، تھا۔ وحید نور جس نے کراچی کے کسی ادبی سیمینار میں میرا مذکر و مونث سے خالی ایک مقالہ سن رکھا تھا ۔۔۔۔۔۔ وہ ابھی تک اُسی مقالے کے سامع کے بطور اپنا تعارف کراتا ہے۔ سادہ آدمی ! اپنی بلند قامتی کسی کے سیمینار کے پیچھے کب تک چھپا سکو گے؟۔ مجھے اپنا ہر سامع دانش میں بلند قامت بنتا اچھا لگتا ہے۔
عمران ثاقب اپنی بھرپور جواں شاعری کے ساتھ وہیں تھا۔یہ نوجوان توکافر قسم کی گلوکاری بھی کرتا ہے، اُس دن معلوم ہوا۔ مجھے’’ماما‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتا ہے۔
بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچی ڈیپارٹمنٹ کا اُستاد سنگت رفیق موجود ہے۔ چھلا وہ روح کا آدمی۔ ابھی تک جدیدیت میں جگہ پانے کی تگ و دو میں ہے۔ فارم اور کانٹنٹ میں سے ایک کے انتخاب کی روح سوزجدوجہدمیں ہے۔اُسے ہم سب کی طرح’’بلوچیت ‘‘اپنی رو میں بہا لے جائے گی کہ وہ ادبی طور پر بے برگ و بے طرف و بے راہ خطے میں نہیں رہتا۔ اُس کے فن و ادب کے ’’ گام گیژ‘‘مہر گڑھ تک اُس کی راہنمائی کرتے جاتے ہیں۔ ذرا اُس کے شعور کے سر کے دو بال سفید تو ہولینے دو!!۔
مگر اس کی موجودہ متجسس ذہنی کیفیت مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ خواہش ہے کہ وہ دوبارہ ’’ سنگت‘‘ راہبروں کی صف میں آن موجود ہو۔ بے شک وہ پہلے ستاروں کو معبود بنائے، پھر چاند کو، پھر سورج کو ۔۔۔۔۔۔ اور بالآخر حقیقت تک آن پہنچے۔ راستے میں پیر چھالے تو ہو ہی جاتے ہیں۔
شُکر ہے کہ اُس نے لفظ’’ ڈیپارٹمنٹ ‘‘کا بلوچی ترجمہ کرنے نہ دیا۔کچھ لوگوں نے ’’ تخلیقیت‘‘ کی ٹانگیں توڑ ڈالیں جب انہوں نے لفظ’’ناول ‘‘کا بلوچی میں ترجمہ کرڈالا۔ نہیں نہیں ’’ رومان‘‘ نہیں، ’’گدار‘‘۔ انہوں نے نیٹ کو بلوچی میں ’’دام‘‘ بنایا، نیٹ ورک کو کار دام، انٹرنیٹ کو دامگ، ویب کو تَند ، ویب سائٹ کو تَنجاہ، ویب پیج کو تَندیم، ہوم پیج کو لوتاک، لِنک کو کرس، لوڈ کو گیج، اپ لوڈ کو سرگیج، ڈاؤن لوڈ کو ایرگیج۔۔۔۔۔۔ سب بلند آواز میں بولو’’ لا حول و لا قوۃ اللہ باللہ العظیم!!‘‘
مُر اد اسمعیل بھی اِدھرتھا ۔وہی ڈیلٹا والاجس کے پرائیویٹ تعلیمی ادارے کی شاندار پیداواریت نے تشویش کی لہریں دارالحکومت تک پہنچادیں۔ اور اباسین کے اُس پار سے خرد کے ویریوں کو جمع کرکر کے علم کے ’’بلوچستان چیپٹر ‘‘پر حملے کرنے پر اکسائے رکھا۔بھئی یہاں فرد کی طرح اداروں کی گردنیں بھی بلند نہیں چا ہییں۔
محفل میں ظہیر ظرف بھی تھا،حب کے چیکو کی طرح خوش ذائقہ گفتگو کرنے والا اچھا شاعر ۔اُس کی جونیئری،مؤدبی دو منٹ میں تحلیل ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔ ہم سے جو ملا تھا !
سعدیہ بلوچ اور رژنا کی ماں نوشین تو ہمارے ساتھ ہی آئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔ رژنا کا با پ بھی تھا ۔بھئی ۔ میر ے یا ر کا بیٹا ،سیف ۔ڈاکٹر عثما ن با دینی کا بیٹا سیف واپڈ ا میں انجنیر ہے۔ ڈاکٹر عثما ن میڈیکل کا لج میں مجھ سے ایک دو سا ل جو نیئر تھا۔ شا م کے وقت وہ ریڈیو پا کستا ن میں بلو چی کا مزاحیہ پروگرام کر تا تھا۔ہم جب چھٹیوں پر گا ؤں جا تے تھے تو ہر شا م اس کا پر وگر ام سنتے ۔ اس لیے کہ وہ اشا روں کنا یو ں میں کا لج کی خبر یں سناتا ۔ہم لیٹ ہو جا تے اور کا لج میں باز پر س کا خطر ہ ہو تا تو وہ اپنے پروگرام کے مخصو ص انداز میں کہتا ۔: ’’نا کو شاہ محمد! بختا ور، تو کجا ئے من پرتہ زہیر کر تہ۔۔۔ ‘‘ اور بس ہم گاؤں سے واپس کالج لوٹتے۔ امتحان پوسٹ پونڈ ہوتا تو وہ ریڈیو پہ کہتا:’’ نا کو قراااربہ کن، ماہے آ پد شہر ابیا‘‘۔
ڈاکٹر عثما ن کا دوسرا بھا ئی بھی میڈیکل کالج میں تھا ، ڈاکٹر عنا یت۔ اب سب بڈھے کھو سٹ ہو چکے ہیں ۔عمر بھی عجیب مظہر ہوتی ہے۔ شروع ہوتی ہے ’’ فریش، اور ری فریش‘‘ سے، اور انجام پاتی ہے ’’ٹائر ڈ اور ری ٹا ئر ڈ‘‘ میں ۔
گوادر کی اس محفل میں ٹی وی پر وڈیوسر حفیظ بلوچ مو جو د تھا۔جوان ،متحر ک اور سنگین ومتین۔ پروفیسر اعجا ز بھی موجودتھا۔ بھئی میں نے ’’ماس کیمونی کیشن‘‘ کے کسی ٹیچر کو اس قد ر خا مو ش کبھی نہیں دیکھا۔
نوجوان دلوں میں موجود دھڑکنوں کے سیاق و سباق کا مجھے کچھ پتہ نہیں کہ ڈی کوڈ کرنا ایک الگ سپیشلسٹی ہے۔ مگر انہوں نے شا ید اپنی کوششوں کو بارآور نہ پاکہ مجھے موبائل ملا کردیا۔ درخواست کی کہ مناظر کی سیم و سرحد ،رسترانیؔ کی خاتون کو یہاں آنے کا حکم دوں۔ میں نے اپنے سے بہت بڑے انسان کا واسطہ دیا: ’’ پروین ناز، تمہیں عبداللہ شاہ غازی کا واسطہ چلی آؤ‘‘۔ ایک چھت پہاڑ قہقہہ حاضرین کی طرف سے گونجا،اور ایک بے ساختہ بلبل فون کے ذریعے کان میں چہکی’’ پیدا کوں‘‘۔
۔۔۔۔۔۔ اور پھر میرا پرانا یار ،بجارآگیا، اس اعلان کے ساتھ کہ وہ میرا سُن کر آگیا۔ مجھے اُس کے خلوص پر شک ہو توشالا محبوبہ کی خود پہ کی گئی شاعری سے محروم ہوجاؤں۔ مگر یہ بھی تو معلوم تھا اُسے کہ ہم ہوں گے تو رانجھے کی ونجلی تو بجے گی ۔اور موسیقی تو بجار کے نبض کی ہارمنی کی چغلی ہے، اُس کے ذائقے کی چیز ۔وہ دوررہ ہی نہیں سکتا۔ چنا نچہ فضا میں موسیقی کی بُو سونگھتا سونگھتا پہنچ گیا ۔ بہانہ ’’مند ر جا نے کا ‘‘ ۔۔۔۔۔۔اور میں تو عمر بھر ا جڑی روحو ں کا مند ر ہی بنا رہا ۔ شکتی ،اور شکتی شا لی کی تمنا کے بغیر ۔
بجار ایک بے لوث، selfless، chrismaticشخص ہے۔یہ شخص مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ اس لیے بھی کہ وہ مجھ سے مشرقی بلوچی بول لیتا ہے۔ اُس سے بھی بڑھ کر اس لیے کہ اس سے میری پہلی ملاقات اُس وقت ہوئی جب میرا مورچے کا ساتھی امیر الدین ابھی زندگی سے ، زندگی کو حسین بنانے کی جدوجہد سے، اور مجھ سے دو ر نہ ہوا تھا۔ جب میں اور امیر الدین ہیومن رائٹس کمیشن کے وفد کے بطور تربت گئے تھے۔ وہیں ہم بجار سے پہلی با ر واقف ہوئے تھے۔ اب جب بھی ملتا ہے تو مجھے زندگی یاد آجاتی ہے، زندگی کو حسین بنانے کی جدوجہد کا اپنا رفیق یاد آتا ہے۔ بجار مجھے سب سے بڑھ کر اس لیے بھی اچھا لگتا ہے کہُ اسے اچھا لگنے ہی کے لیے خلق کیا گیا تھا۔
وہ اکیلا نہ تھا، ہمارے ایک اور ممدوح گلزار بلوچ کو بھی ساتھ لایا تھا۔گلزار ایک بسیار نویس شخص ہے ۔ اُس کے مضامین سنگت میں چھپتے رہتے ہیں۔ تحریریں تازگی جوانی کا پتہ دیتی ہیں۔ مگر ہم پہلے ملے نہ تھے ۔آج جب وہ گلے ملا تو خاموشی سے مودب و مہذب بن کر کان میں اپنا نام بتایا : گلزار گچکی۔ میں نے اُسے خود سے دور کیا، غور سے اُسے دیکھا، اور دوبارہ گلے لگاتے ہوئے بے ساختگی میں کہہ بیٹھا: ارے میں تو تمہیں جوان سمجھتا تھا !!۔ بس پھر یہ ہم دونوں کا سمجھوتکیہِ کلام بنا ۔ ایک اچھا دوست پا کربھلا کون خود پہ فخر نہیں کرے گا ۔!!
ہم تھکے ہوئے تھے ،مگر جب مغربی ، جنوبی اور وسطی بلوچستان کے آرٹسٹ ، شاعر اور دانشور مشرقی بلوچستان کے ایک ہم قوم سے ملتے ہیں تو پھر محفل نے تو جمنا ہی ہوتا ہے نا ۔ سو جم گئی۔ ایک چھوٹا سا شاہ عنایتی ’’ دائرہ‘‘ ہم نے بنا ڈالا تھا۔لہٰذا ایک غیر رسمی مشاعرہ ہم نے کر ڈالا۔
مشاعرے کی بھرپور فصل کی کٹائی کے بعد اب ہم اُس کے بچے ہوئے اکادکاخوشے ( پڑنج) جمع کررہے تھے کہ منظر نامہ بدل گیا۔ میوز نے اپنے دوسرے بچے کو آگے کردیا۔یہ کراچی سے آیا ایک یار باش اورفن کا دلدادہ نوجوان روفیؔ تھا۔ اس نے ایک کتاب فرش پر رکھ دی ۔ سب کی نظریں تجسس میں اُس کی اگلی حرکت کے لیے اُس پر ٹکی ہوئی تھیں۔ ہماری حیرت میں اُس نے اس کتاب کو طبلہ بنا کر اُسے بجانا شروع کردیا۔ ۔۔۔۔۔۔یاد ہے، تُر ک دربار میں بے تیغ چاکر نے مد مقابل بدمست ہاتھی پر بلی کا بچہ پھینک کر کے اُسے پسپا کردیا تھا؟۔
روفی کا ہنر کا ر ہاتھ لگے تو طبلہ محبوبہ کے کان کے جھمک کی ژلک ژلک جیسا کیسے نہ لگے گا۔ روفی اُس برادری سے تعلق رکھتا ہے جس نے پانچ سو برس قبل دو لَوبر ڈرز کے معدے بھرنے اور ستر ڈھانپنے کا سامان کیا تھا۔ مجھے تصور میں دشمن گوۂرام لاشاری کی پناہ میں آئے بیورغ رند اور اُس کی محبو بہ کے لیے لایا ہوا لباس اور ذائقہ دار کھانے روفی کے ہاتھ میں دکھائی دیے۔ اور تصور ہی میں میں نے اُس کے ہاتھ چومے: بطور بیورغ کے میمن کے بھی اور بطور فن کار کے بھی۔
روفی کا طبلہ دھم دھم کرے تو فی البدیہہ انداز میں گلے کھنکھارنے لگتے ہیں ۔کوئی مدھم مدھم گنگنانے لگا، کوئی ہلکی سیٹی سے ساتھ دینے لگا ، کوئی گلے کی بجائے گردن کا رقص کرنے لگا،اور روفی دو نو ں ہتھیلیوں سے طبلہ کا ری کر تے ہو ئے اپنی گردن کو پورب پجھم پنڈولم بنانے لگا۔۔۔۔۔۔
اور پھر مردِ میدان بجار کوگانے کی جیسے بشارت ہو گئی۔ وہ سنتیا گو سٹیڈیم میں وکٹر ہارا بن کے اترا تو پھرگلزار ساتھ ہولیا۔ عمران ثاقب مل گیا ، پروین ، نوشین ۔۔۔۔۔۔ سب The Beatles بینڈ کے ممبر بن گئے۔ گلوکاری شروع ہوئی تو شیطان اپنے اصلی اڈے یعنی دارالحکومت کی طرف دم دبا کر فرار ہوگیا۔
بلوچی ، اردو، غزل ، سوت ، فلمی غیر فلمی ، انقلابی، ترانے،گیت۔۔۔۔۔۔ بجار کے ذہن میں ذخیرہ کرنے کی وسیع صلاحیت موجود ہے اور گلے میں ایسی بیورغی تاثیر کہ ’’ مڑا گاہ قندہار‘‘ کے شاہی محل میں چاندی سی الھڑ جوانیاں مچل مچل جائیں۔
ایسی حسین محفل میں داد دینا روزہ مکروہ ہونے جیسا ہو تا ہے۔
بجار ۔ دُردانغیں بجار سے ہم نے بلامبالغہ دو درجن سے زائد گانے جھومتے لہکتے سنے ۔۔۔۔۔۔ اور میں نے بے ساختگی میں کہا : ہم مریوں میں بجارانڑیں گزینی کا تفرقہ ڈالا گیا تھا تو ہر غیر بلوچ افسر پوچھتا آپ مریوں میں بجارانڑیں ہویا گزینی ہو؟۔ میں بجارانڑیں ہوتے ہوئے بھی اس سوال کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا تھا۔ اس لیے کہ اس سوال کے پیچھے سوال کنندہ کے دل میں مسرت کا بپھرتا سمندر نظر آتا تھا۔ مزاحمتی تحریک کے دشمن ،تحریکوں میں بجارانڑیں گزینی کا زہر انڈیلتے رہتے ہیں۔ کبھی اس شکل میں کبھی اُس صورت میں۔اب آرٹسٹ بجار کو اس فن کاری کے ساتھ دیکھا تو زور سے چیخ بیٹھا: ’’میں بجارانڑیں ہوں‘‘۔
اور ایسے مواقع پرگھڑی کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو کلائی میں بے کار بندھی ہوئی ہے۔آنکھیں موسیقی کے ساتھ ہارمنی پیدا کرچکنے والے کانوں میں ضم ہوجائیں تو روح کائنات کے ساتھ مکمل طور پر Synchroniseہوجاتی ہے۔ تب وقت کو گننے کا بور کر دینے والا عمل موقوف ہوجاتا ہے۔ گھڑی اشرف المخلوقات میں ڈھل جاتی ہے ۔ اُس کی پھرکیاں، اس کی سوئیاں اور سوئیوں کی معدومیت کی حد تک خفیف ٹک ٹکیں، طبلہ کے ساتھ سنگتی میں ڈھل گئیں۔ اب یہ وقت بتانے کی بے رحم مشین نہ تھی، موسیقی کا مقدس آلہ تھی۔
ہم ٹائم سے بہت دور کبھی پانچ دریاؤں میں اٹھکیلیاں کررہے تھے ، کبھی بھنبھورکی دھوبن کے ہاتھ سے ہاتھ ملا ئے چل رہے تھے،کبھی سخی سرور کی ’’ ملخ‘‘ کے نور میں نہارہے تھے ، کبھی مرشد کی تقلید میں اپنے پر گناہ پنچوں کے ساتھ مقدسات کی جھالریں ہلا رہے تھے، اور کبھی گورغیں بلوچستان کے قدموں میں مہر کی تجدید کررہے تھے۔ موسیقی ’’ گداز ساز ‘‘فیکٹری کا سب سے بڑا پہیہ ہوتاہے۔
حسن مولانغوں کے بیچ میرا حسن موڈو بننا ہمیشہ سے یقینی رہا۔ یہ تو غنیمت ہے کہ فطرت سے میری یاری ایسی بنی رہی کہ لنگوٹ کس کر کسی ارینا میں اترنے کی نوبت آنے سے پہلے ہی فطرت عرضداشت سمجھ لیتی ہے۔ پردہ پال ہے مولا!!
میں دیکھ سکتا تھا کہ جیند جمالدینی، ضیا شفیع اور پروفیسر عابد میربھی اپنے اپنے مقدر کی پیشانی پڑھ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔ ہفت جہاں گم ۔عشق ،پیراکی کے ورلڈ چیمپنز تک کوڈ بو دینے کی کرامت کا خاوند ہوتا ہے۔
کس وقت کھانا آیا، ہم نے کیا کھایا،احساس ہی نہ ہوا ۔۔۔۔۔۔ہم جو کوہساروں کے نایاب بھنگ کا سمندر پیے ہوئے تھے، اتاہ خامشی اور استغراق میں پیٹ بھرنے کا جبلتی کام سرانجام دیتے رہے۔ خاموشی اس لیے کہ کائناتی ہینگ اوور کے تحلیل ہونے کا خدشہ تھا ۔ کوئی اس کیف کیفیت ،اس ٹرانس سے نکلنے کی خواہش نہیں کرسکتا تھا۔ ہم ’’ کچھ نہیں‘‘ بن گئے تھے، ہم ’’ سب کچھ بن‘‘ بن چکے تھے۔ مشیتِ ایزدی کا یہ فیصلہ کتنا اچھا فیصلہ تھا جس کے تحت اس نے آدمی کو سماجی جانور قرار دیا تھا۔
ہم ایک طویل سفر، بہت سارے مقامات کے دورے ، بے شمار دوستوں سے ملاقات، ایک شاندار مشاعرہ گزارنے ،ایک غنی اور مغنی محفل موسیقی سے اپنا حصہ روح کے پھیپھڑوں میں جذب کرکے اور تازہ مچھلی کی بے شمار ڈشوں کی دعوت اڑا کر ، رات کے کسی پہر تھکے ہارے ریسٹ ہاؤس میں عظیم سمندر کی پُر مہر لوریوں میں اُس کے پہلو میں ایک پرسکون نیند سوئے۔
لوری کے بول تھے:
راج بلوچی ئے پہ و سغا جوانیں

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *