Home » کتاب پچار » آ وازے ۔۔۔ ڈاکٹر محمد شفیق

آ وازے ۔۔۔ ڈاکٹر محمد شفیق

پشتو زبان اور ادب کو زندگی کے مسلسل جدوجہد کا منظوم تاریخ قرار دیا گیا ہے ۔ فولکور سے کلاسیک اور کلاسیک سے موجودہ مشینی دور تک پشتو شاعری نے انسانی درد وغم کی کہانی کو معاشرتی زندگی میں معتبر قرار دیا ہے ۔ کیونکہ آج کا پشتو شعری رویہ ، فکری زاویہ اور حسی تجربہ ہم سب کو یہ احساس سوچ اور شعور بخشتی ہے۔
ہمارے اس شاعر کا کا نام سید عدنان شاہ ہے ۔ قلمی نام عدنان شاہ بخاری ہے ۔ جو مرحوم سید رضوان شاہ کے ہاں یکم مئی 1962کو کلی جنگل خیل محلہ پیر خیل ضلع کوہاٹ میں پیدا ہوئے ۔ گریجویشن تک تعلیم حاصل کی ۔ جبکہ 1980 سے پشتو زبان وادب و شاعری میں دلچسپی لینی شروع کی ۔ مرحوم ایوب صابر اور رحمت شاہ رحمت سے سیکھتا رہا۔
1976 ؁ء۔ سے عملی سیاست کا آغاز کیا، ساھو لیکوال کوہاٹ کے اہم بانی مبانی ارکان میں شمار ہوتے ہیں ۔
کتاب ’’آوازے ‘‘ 122صفحات اور کئی ایک دلچسپ شعری موضوعات پر مشتمل ہے ۔ اس کتاب کے حوالے سے تورو شپو کی چی رنڑا ورکوی۔کے موضوع سے جناب سلیم راز ۔ اور جناب نوید ا لبشر نوید نے عدنان بخاری شعر اور شعور کے حوالے ،اور محمد سعید رہبر نے عدنان بخاری کے شعر اور فن کے حوالے سے کافی کچھ لکھا ہے۔
اسلئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جناب عدنان بخاری اپنے مستحکم فکری روایت کے تسلسل کے حوالے سے جدید روش اور روئیے کا ترجمان ہے ۔نہ صرف اپنی ترقی پسند نظریات کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ پشتو زبان اورادب کے سفیر کی حیثیت سے اپنا ادبی سفر جاری رکھے ہوئے ہے ۔ بلکہ سیاسی، سماجی میدان میں بھی عملی طور پر تبدیلی اور نئی تعمیر کے حوالے سے جانا پہچانا جاتا ہے ۔ عدنان بخاری ،کاکا جی صنوبر حسین کے پیروکاروں میں سے شمار ہوتے ہیں اس لئے شاعر کہتا ہے ۔
پیرو کار د کاکا جی یم ۔۔۔۔۔۔۔۔ آزاد خیالہ یم باغی یم ، ۔۔۔۔۔۔۔۔ستا دپا رہ جنگ کوؤمہ حسینی یم ،۔۔۔۔۔ستا پہ پت باندی مین یم۔
قام پرست مترقی یم ۔ ۔۔۔۔۔۔ما پہ کانڑو گٹو وھلی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زہ عدنان اشتراقی یم، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
یہاں کسی قسم کا فکری یا نظریاتی تضاد نہیں ہے ۔ کیونکہ پشتون اولس بیک وقت دہرے جبر کا شکار ہے ۔ اور طبقاتی مسائل میں الجھا ہوا ہے ۔ ہمارے اس شاعر کو وقت اور حا لات نے تاریخی جبر کا شکار کر رکھا ہے ۔ اسلئے اب اس نے سیاسی آزادی کے پرچم کو بلند رکھا ہے۔ لہٰذا جبر اور استحصال و طبقاتی تضادات کے خلاف ان کے آواز کو کبھی بھی نہیں دبایا جاسکا۔
مزدور طبقے کی نجات اور معاشی انصاف کے ساتھ ساتھ پشتون قوم کے سیاسی اور جمہوری حقوق کے حصول اور تحفظ کے لئے جدو جہد کو روارکھا ہے ۔ اپنی جغرافیائی حدود میں اپنی سیاسی معاشی آزادی کو حاصل کرنے کے درپے ہیں ، اور اس مرام اور منزل تک سفر کے لئے ہمیشہ اپنی جدو جہد کو دوام دیا ہے ۔
یقیناًشاعر اپنے سماج کے سوچ و فکر کا ترجمان ہوتا ہے۔ اور وہ مستقبل کے بارے میں پیش بندی اور پیشن گوئیاں بھی کرتا نظر آتا ہے ۔ماحول کی تبدیلی کے حوالے سے ایک نئی سوچ و فکر رکھتا ہے ۔ وہ تبدیلی کے حوالے سے اپنے کلام کے ذریعے اپنا سوچ و فکر معاشرے مظلوم طبقات کے ذہنوں کو منتقل کرتا نظر آتا ہے ۔ان میں آگے بڑھنے کی استعداد جوش اور ولولہ پیدا کرتا ہے ۔ تب عدنان بخاری کے شاعری میں یہ عنصر دور سے نظر آتا ہے ۔وہ لوگوں میں حوصلہ اور مقابلے کی طاقت پیدا کرتا ہے ۔ وہ اپنی شاعری کے بل بوتے اپنا منزل واضح کرتا ہے اور شعر کی قوت کے زریعے اپنا منظر نامہ واضح کرتا ہے ۔ اور ؛ جبر؛ کے حالات میں اس کی شاعری لوگوں کو قوت اور حوصلہ عطا کرتی ہے ۔شاعر نے اسی امتاز اور اعجاز کے حوالے سے اپنے ایک نظم میں یوں ارشاد فرمایا ہے ۔
زہ شاعر یم …………….. زہ فنکار یم ………………..زہ لیکوال یم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔د تاریخ پہ ہرہ پانڑہ ………………….لکہ رونڑ سحر زلیژم۔۔۔۔۔
جناب عدنان بخاری نے نظم کے حوالے سے بھی لوگوں کے ذہنوں تک رسائی حاصل کی ہے ۔
الغرض عدنان بخاری نے نہ صرف اپنے دور کی نمائندگی کی ہے بلکہ شاعری کے ذریعے انقلاب کے فکر اور سوچ کو جلاء بخشی ہے ۔بلکہ ایک غیر طبقاتی ،سماج کے قیام اور سیاسی قومی آزادی کے خواب کی تعبیر ، استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کو ممکن بنانے کے لیے جدوجہدجاری رکھی ہے ۔ اور کہا ہے ، کہ اپنی جوانی کو پشتو نوں کی خاطر دھواں دھواں کر دونگا، مجھے اپنے آپ اتنا بھروسہ ہے ۔
شعر و شاعری کے حوالے سے افلاطون کی ناپسند یدگی کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی ۔بقول ان کے شاعر ہمیشہ تصوراتی دنیا کا باسی رہا ہے ۔ لیکن موجودہ دور کے شعرا نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شاعری فقط ذہنی دباو کا نتیجہ نہیں ہوتی ہے ۔ بلکہ شعر شعور کے لطیف احساس کا نام ہے ۔
اس سے یہ مطلب نہیں لینا چاہئے کہ ہر لکھاری ،شاعر کسی سیاسی پارٹی یا گروہ کا اجرتی قلمکار ہو۔یا شاعر ہر کسی پارٹی یا گروہ کے سٹیج پر نعرہ بازہی تک محدود ہو اور کسی مخصوص گروہ کے لئے نعرہ بازی کرتا پھرے۔ ایسا ہر گز ممکن نہیں ہے ۔ اور نا مناسب بھی ہے ۔ ۔کسی سٹیج یا جھنڈے کے علاوہ ہر باشعور انسان کے لئے نظریہ اور عقیدہ لازمی ہے ۔جب بھی کسی ادبی
تنظیم کے قیام کا اعلان کیا جاتا ہے تو پہلی شرط یہ عائد کی جاتی ہے کہ یہ تنظیم غیر سیاسی ہوگی ۔ یہ غیر سیاسی اور غیر جانبدار دونوں ایسے الفاظ ہیں جو اہل قلم جیسے باشعور لوگوں کو بے حس کردیتی ہے ۔لہذا ان حالات میں کوئی باشعور شاعر کیسے غیر جانبدار رہ سکتا ہے ۔ کیونکہ سیاسی حوالے سے ان کا نظریہ ایک با حساس ، انسانی مساوات ، اور قومی تشخص کے دعویدار اور ایک ترقی پسند شاعر کا ہے ۔ وہ ایک شاعر ہے وہ غمِ جانان اور غمِ روز گار کے حوالے سے سرگرداں ہے۔
ہمارا شاعر جناب عدنان بخاری ایک حوالے سے مورو ثی شاعر ہے ۔ کیونکہ انکے نانا ؒ پیر مطیع اللہ خان بخاری جو رحمن باباؒ اور عبد ا لحمید مومند کے مکتب فکر کی طرح بلند پایہ شاعر تھا۔
جناب بخاری نے اپنے بزرگ شعرا، کے اسلوب اور اندازِ فکر کو اپنایا ہے ۔ اور ان کی تقلید کو روا رکھا ہے ۔ عدنان بخاری کی شاعری پشتو زبان کی مروج شکل و شباہت کی حامل شاعری ہے ۔ نظم اور غزل لکھنے کی مہارت رکھتے ہیں،لیکن دوسرے پشتون شعراٗ کی طرح ان کا میلان غزل کی طرف زیادہ ہے ۔ ان کی شاعری جدت اور روایت کی ایک بہترین امتزاج ہے ۔
پشتو کے فولکور اور نئے رحجانات کی حامل غزل معنوی اور تیکنیکی یکسانیت رکھنے کی بدولت انکی غزل بھی یکسانیت سے معمور ہے، اسلئے وہ غزل لکھنے کے طریقہ کار سے بخوبی واقف ہے ۔ لیکن اپنے نظم کے بر عکس جناب عدنان بخاری نے اپنی غزل میں بنیاد پرستوں ، رومان پرستوں ، اور روایت پسند شعراکی پیروی کی ہے ۔بلکہ پشتو رومان ٹیک شاعری کی طرح اپنی ہر غزل میں حسن، وفا جفا، ارمان اور حسرت محبت اور فراق ،گل و بلبل ، شمع اور پروانے ، آگ و پانی ،جوش و جذبے ، اندھیرے اور روشنی، کے علاوہ اور کئی ایسے موضوعات شامل ہیں۔
اس میں شک نہیں ہے کہ وہ پشتونو کے ریگزار ماحول میں پلے بڑھے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود اس کی شاعری عام فہم اور سادہ جیسی ہے۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *