Home » سموراج » ہمارا معاشرہ اور عورت ۔۔۔ سمینہ بلوچ

ہمارا معاشرہ اور عورت ۔۔۔ سمینہ بلوچ

کھرچ کھرچ کی آواز نے چونکا دیا۔ یہ پتوں کی آواز تھی۔جو بے خیالی میں پیروں کے نیچے آکر فریاد کررہی تھیں۔جب نظر دوڑائی تو ادھر ادھر پتوں کو بکھرا پایا۔اوپر جب نظر اٹھائی تو ہوا کا جونکا آیا اور درخت کی شاخوں کو چھوکر گزر گیا۔پتے اور تیزی کے ساتھ گرنے لگے۔جیسے مجھے دیکھ کر یہ درخت اپنے دل کی بات کرنا چاہتا ہو۔کہ میں پیاسا ہوں میں پیاسا ہوں کوئی مجھے پانی دے دے۔اپنے کمرے کی کھڑکی کھولی تو کچھ پتے کمرے کے اندر آگئے۔جیسے کہنے لگے ہوں کوئی دیکھے نہ دیکھے کوئی جانے نہ جانے تم میرے درد کو سمجھ سکتی ہو۔جیسی حالت تم لوگوں کی ہے۔ْویسی آج میری بھی ہے۔میں اس مظلوم عورت کی طرح ہوں جو اس معاشرے میں کچلی جاتی ہے۔روندی جاتی ہے۔جس پر کئی طرح سے ناانصافیاں ہوتی ہیں۔لیکن وہ اف تک نہیں کرسکتی اس کی حالت تو جانوروں سے بھی بدتر ہے۔اسی معاشرے کا حصہ ہونے کے باوجود بھی سب سے کم تر سمجھی جاتی ہے۔جیسے ہر موسم کے آنے پر کبھی میرے پتے جھڑتے ہیں۔ کبھی میں سبز ہوتا ہوں اور کبھی سوکھ جاتاہوں۔اس طرح ہر کوئی ہر رشتہ اس پر اپنی حکمرانی چلاتا ہے۔ عورت غلام کی سی حیثیت دی جاتی ہے۔لیکن غلام بہتر ہے کہ اسے ہر مہینے اجرت ملتی ہے۔ لیکن عورت کو تو یہ بھی نصیب نہیں۔کسی چیز کی خواہش کرنا تو دور کی بات کسی چیز کے بارے میں سوچنا بھی دشوار ہے۔ معاشرے میں عورت صرف بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھی جاتی ہے کہ عورت کاکام صرف اور صرف بچے پیدا کرنا ۔اگر کسی نے اپنے شوہر کی ناجائز بات کو برداشت نہیں کیا تو معاشرے میں اسے برا سمجھا جاتا ہے۔۔عورت کو بچپن سے ہی یہ تربیت دی جاتی ہے کہ عورت قربانی کا دوسرا نام ہے۔گھر میں اگر بھائی ہو تو بہن کو ہر وقت اس کیلئے اپنی خواہشوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ یا کہ بھائی کی خواہشیں پوری ہوں۔جب وہ اپنے گھر کی ہوجاتی ہے۔تو اپنی خواہشوں کو قربان کرتی ہے تاکہ شوہر کی خواہش پوری ہو۔سسرال والوں کی فرمانبرداری اور ان کی خدمت کرے تاکہ ان کی خواہشیں پوری ہوں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انسانی تاریخ جو لکھی گئی ہے اس میں صرف مردوں کے کارنامے ان کی بہادری بیان کی گئی ہے۔تاریخ میں عورت کے کارناموں کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے۔اگر ہم انسانی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو قدیم پتھر کے زمانے میں عورت نے تاریخ میں جو کردار ادا کیا اس کو بالکل فراموش کردیا گیا ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ تاریخ بھی عورت کی قربانی کے نتیجے میں ہونے والے عوامل پہ خاموش ہے کہ اس کی قربانی نے کتنی جنگوں کو روکا۔معاشروں میں امن و امان قائم کیا،آپس کی تلخیوں کو دور کیا،تعلقات کو بہتر بنایا شکست کے زخموں کو مندمل کیا۔اور لوگوں کو تحفظ اور سکون دیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت کی قربانی کو قربانی نہیں سمجھا گیا کیونکہ اس صورت میں انہیں ان فوائد کیلئے عورت کا احسان مند ہونا پڑتا ۔ بعض عورتوں کو دیوتاؤں کی خوشیوں کی خاطر قربان کیا تو کبھی دریاؤں کے طغیانی سے بچاؤ کی خاطر بھینٹ چڑھا دیا گیا۔اس لئے جس شے کو قربان کیا جاتا تھا اس کی حیثیت و اہمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔اور یہی صورت عورت کی تھی کہ وہ قربانی کیلئے پیش تو کی جاتی رہی۔مگر اس قربانی کا صلہ اسے نہیں بلکہ مرد کو ملا۔ عورت نے انسان تہذیب و تمدن کی تشکیل میں بھرپور حصہ لیا۔اور انسانی تاریخ کی تشکیل میں عورت کا بڑا حصہ ہے۔
یہ عورت ہی تھیں جس نے پہلے کاشتکاری کو شروع کیا تھا ۔عورتیں مردوں سے کسی بھی شعبے میں پیچھے نہیں تھیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عورت کو گھر کی دیکھ بال اور مویشیوں کی دیکھ بال کی ذمہ داری سونپی گئی۔مسلسل گھر کی چاردیواری میں رہنے کی وجہ سے عورت کا مقام گرتا گیا اور مردوں نے اپنے آپ کو برتر تسلیم کرانا شروع کردیا۔۔ عورتیں ہی اپنے خاندان کو چلاتی تھیں۔عورت ہی جو مرد کو اصل انسان بناتی ہیں۔فطرتاََ اس میں محبت ہوتی ہے۔ عورت کی بطن سے پیدا ہونے والے عورت کو حقیر اور کمتر سمجھتے ہیں۔جو کم عقل سمجھی جاتی ہے۔ وہی اپنی عقل مندی سے بہت بڑے کارنامے سرانجام دیتی ہے۔لیکن کبھی کسی نے سوچا ہے کہ کیا عورت فطرتاََ کم عقل نہیں ہے۔لیکن جو تعلیم اور جو وقت مردوں پر صرف ہوتا ہے اگر عورتوں کو یہ موقع دیا جائے تو وہ ہر کام بخوبی انجام دے سکتی ہے۔لیکن چونکہ شروع ہی سے عورتیں معاشرے میں پستی چلی آرہی ہیں۔تو یہ کیا اپنے دماغ کا استعمال کریں گی۔ گھر کا فرض مردوں کی نسبت عورت زیادہ بہتر طور پر انجام دے سکتی ہے۔کیونکہ وہ باہر کی دنیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ اب تھوڑی بہت جو ترقی آئی ہے اس سے کچھ خواتین جو ہمارے معاشرے سے باہر نکل آئی ہیں۔اب ان کا کام نسل بڑھانا نہیں بلکہ اس سے بڑھتی ہوئی نسل میں عقل و شعور پیدا کرنا بھی شامل ہے۔اور اپنی ذات کے بارے میں معلومات دینے کا ہے۔کہ خواتین بھی بہت کچھ کرسکتی ہیں۔اگر ان کو وقت اور مواقع دیئے جائیں تو بہت سی خواتین رابعہ خضداری کی طرح اپنی شاعری سے لوگوں کے دلوں کو مسرور کرسکتی ہیں۔لیکن بدقسمتی سے اسے بھی اسی معاشرے میں پیدا ہونا تھا۔جس نے اپنے غلام ’’بکتاش‘‘ سے عشق کرنے کی غلطی کی سزا کے طور پر اسے دیوار میں گاڑھ دیا گیا۔اور اس کی کلائیوں کو کاٹا گیا تاکہ یہ تڑپ تڑپ کر مرجائے۔جب تک اس کے ہاتھوں میں دم اور جسم میں خون تھا یہ اپنے خون سے شعر دیواروں پر لکھتی رہی۔اور اپنی بے بسی اور لاچاری کو بیان کرتی رہی۔ اور آخر کار خالق حقیقی سے جاملے۔ اس کی کلائیوں کوکا ٹنے والا کوئی اور نہیں بلکہ اس کا سگا بھائی تھا۔اسی جیسے بہت سی آوازوں کو مٹا دیا گیاہے۔لیکن آخرکار اصلیت سامنے آجاتی ہے۔ آج پتہ نہیں کتنی ایسی کہانیاں ہمارے معاشرے میں مثال کے طور پر موجود ہیں۔ہمارے معاشرے میں لڑکی کی زندگی کا فیصلہ والدین کرتے ہیں۔لیکن کسی والدین کو ہمت نہیں ہے کہ وہ اپنے لڑکے کی مرضی کے بغیر اس کی زندگی کا فیصلہ کرے ۔ ہمارے معاشرے میں عورت کی حالت جانوروں سے بھی بدتر ہے۔اسی لئے ہمارا معاشرہ پسماندگی کا شکار ہے۔ کیا اب بھی عورت اسی طرح قربانی کا بکرا بنتے رہے گی؟

Spread the love

Check Also

کنا داغستان  ۔۔۔ رسول حمزہ توف؍غمخوارحیات

سرلوزنا بدل سر لوزاتا بارواٹ گڑاس لس و ہیت ! تغ آن بش مننگ تون ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *