Home » پوھوزانت » رہبر سائیں کمال خان شیرانی ۔۔۔ میروائس خان مندوخیل

رہبر سائیں کمال خان شیرانی ۔۔۔ میروائس خان مندوخیل

معززین برطانوی سامراج کے خلاف خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی جب منظم سیاسی انداز اور شعوری طور پر جدوجہد کررہے تھے ان حالات میں سائیں کمال خان شیرانی حصول تعلیم میں مصروف تھے۔ 1945ء میں B.Aآنرز میں گولڈ میڈل حاصل کرنے کے بعد کچھ وقت کے لئے گلستان میں تحصیلدار تعنیات ہوئے۔ سائیں بابار زمانہ طالب علمی سے وطن دوست فکر کے مالک تھے انہوں نے 1938ء میں خان شہید اور باچا خان کا ژوب کے دورے پر اپنے قومی رہنماؤں کا پرتپاک استقبال کیا۔
قومی تحریکوں کی مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں انگریز سامراج کو بر صغیر سے نکلنا پڑا۔ انگریزوں کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے پاکستان بننے کے بعد بھی اپنی قومی وحدت ، ملی تشخص حق حاکمیت، حق ملکیت اور ہر قسم کی قومی، سیاسی ، معاشی اور ثقافتی حقوق آزادی سے یکسر محروم رہے ۔
سائیں بابا کو سیاسیات، فلسفہ، تاریخ اور معاشیات جیسے ضروری علوم پر مکمل عبور حاصل تھا۔ محترم عبداللہ خان جمالدینی ،اور محترم ڈاکٹر خدائیداد جیسے بلند بالہ سیاسی وادبی شخصیات ان کے دیرینہ رفیق کار تھے۔ اُن کی دوستی مرتے دم تک مضبوط اور مستحکم رہی۔
خان شہید کو مارچ1948ء میں اُس وقت گرفتار کیا گیا جب محمد علی جناح پہلے گورنر تھے اور چھ سال سزا کاٹنے کے بعد 1954ء میں رہا ہوئے۔ ان واقعات نے سائیں بابا کو مزید بے چین کردیا اور بال آخر سائیں بابا نے اپنے وطن سے غلامی ختم کرانے کے لئے اپنی ملازمت سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔ اور خان شہید کی انجمن وطن پارٹی کا فعال رکن بن گیا سائیں بابا کہتے تھے کہ ’’ تقریر اور تحریر لازم وملزم ہیں‘‘ اس ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے سائیں بابا نے 1954ء میں پشتو زبان کا رسالہ ’’پشتو‘‘ نکالا۔ رسالے کی پایسی غلامی سے نفرت اور آزادی سے محبت کی بنیاد پر تھی۔ رسالہ نوجوانوں میں سیاسی شعور اُجاگر کرنے میں معاون اور مددگار ثابت ہوا۔ رسالے کی کاپی خان شہید کو جیل بھجواتے۔ رسالے کی پالیسی قومی مفکراوروطن دوست پر تھی۔ اس لئے وقت کے حکمرانوں نے رسالے کے گیارہ شمارے شائع ہونے کے بعد رسالے پر پابندی لگادی۔ میر عبداللہ جان جمالدینی اپنی کتاب ’’لٹ خانہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ رسالے کی بندش کے بعد رابطے برقرار رکھنے اور کتابوں کے ذریعے عوام خصوصاً طالب علموں میں قومی سیاسی شعور اُجاگر کرنے کے لئے سٹیشنری کی دکان کھولی۔ اور اسی دکان سے وطن دوست طالب علم نظریاتی علمی اور ادبی کتب لیتے۔
1955ء میں پنجاب کے بالادست حکمرانوں نے بنگال کی واضح اکثریت کو ختم کرنے کے لئے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے نام سے دو یونٹ بنائے۔ جس کے نتیجے میں پنجاب کی بیوروکریسی تمام ملک کے سیاہ وسفید کی مالک بن گئی۔
ون یونٹ کے خاتمے کے لئے خان شہید ، باچا خان، غوث بخش بزنجو، میاں افتخارالدین، جی ایم سید، حیدر جتونی اور مولانا بھاشانی نے مل کر ون یونٹ کے خاتمے ، ملک میں از سر نو قومی ولسانی وجغرافیائی بنیادوں پر صوبوں کی تشکیل، ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر عوام کی منتخب جمہوری حکومت کا قیام جیسے نکات پر متفق ومتحد ہوکر نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بنائی۔ 1958ء میں ملک پر پہلا ایوبی مارشل لاء مسلط کرنے کے بعد خان شہید نیب کا پہلا سیاسی قیدی تھا۔ اور14سال جیل کاٹنے کے بعد جیل سے رہا ہوئے۔ نیب کی لازوال قربانیوں کے بعد 1969ء میں فوجی جنرل یحیٰ خان نے مارشل لائی حکم کے تحت ون یونٹ کے خاتمے کا اعلان کیا۔
سائیں کمال خان شیرانی نے کئی اہم انگریزی کتابوں کا پشتو زبان میں ترجمہ کیا ۔یہ تراجم پشتوزبان کا بہت قیمتی اثاثہ ہے۔ اس کے علاوہ سائیں بابا نے اپنے رسالے’’پشتو‘‘ میں ایک اداریہ لکھا۔ محترم محمود خا ن اچکزئی اور محترم عبدالرحیم خان مندوخیل کی کتابوں کے ابتدائیے لکھے۔ یہ عظیم انسان88سال کی عمر میں 5نومبر2010ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔ پشتون قومی سیاسی تحریک میں سائیں کمال خان شیرانی کو عزت واحترام کا نہایت بلند مقام حاصل ہے ان کے افکار اور نظریات قومی نجات کیلئے مشعل راہ بنے گا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *