تم
ہماری لکھنے والی انگلیوں کی
شمعیں گُل کردو
ہمارے قد و قامت کو کتر کے
دھجی دھجی کرکے
ردی کاغذوں میں
کوڑے کرکٹ میں دبا دو
ہماری بات
دیواروں میں چنوا دو
تمہارے بس میں ہے
ہم جانتے ہیں
مانتے ہیں
سب تمہارے بس میں ہے
لیکن
ہماری سوچ پر تالا لگاتے
اور اپنی چابیوں کے بھاری گچھے میں
یہ چابی ڈال کے مٹھی دبا لیتے
کہیں تہہ میں سمندر کی اچھال آتے
تمہارے بس میں یہ کب ہے؟
Check Also
سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید
روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...