Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ عمرؔ برناوی

غزل ۔۔۔ عمرؔ برناوی

مہک رہی ہے فضا کون اِدھر سے گزرا ہے
بتاؤ پھولو کہ کیا تم نے اُس کو دیکھا ہے
شفق بتا تو سہی ، تو نے رنگ کس سے لیے
بتادے چاندنی کس سے چٹکنا سیکھنا
گھٹاؤ تم نے کبھی زلف اس کی دیکھی ہے
بتادے بدر، ذرا روپ اِن کا کیسا ہے
بیاض صبحِ بنارس تو آنکھ شامِ اودھ
وہ میرا ماہ وَش سرتا پا حور جیسا ہے
مہم صبا میں کہا ں ان کے پیرہن جیسی
کہاں گلاب بھلا کھلتا ہوا ویسا ہے
ہنسے تو چاروں طرف جلترنگ بجتے ہیں
فضائیں جھومتی ہیں جب وہ بات کرتا ہے
عمرؔ جدا نہیں میں اس سے ایک لمحہ بھی
وہ میرے دل میں ہے ہر وقت پاس رہتا ہے

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *