Home » شیرانی رلی » غزل ۔۔۔ خورشید افروز

غزل ۔۔۔ خورشید افروز

ایسے نہیں ہے ٹھیک کہ ویسے نہیں ہے ٹھیک
میں اس ادھیڑ بن میں ہوں کیسے نہیں ہے ٹھیک
ہر چند پھونک پھونک کے رکھتا ہوں ہر قدم
پھر بھی یہ فکر رہتی ہے جیسے نہیں ہے ٹھیک
سب جھوٹ ہے مبالغہ آرائی ہے جناب
جو آپ کہہ رہے ہیں تو ایسے نہیں ہے ٹھیک
ہر شے کو زر میں تولنا انصاف ہے کہاں
قیمت مرے خلوص کی پیسے ، نہیں ہے ٹھیک
گٹھ جوڑ، اشتعال، کدورت میں فیصلے
سمجھوں گا ٹھیک سی انہیں، ویسے نہیں ہے ٹھیک
ہونٹوں پہ مسکراہٹیں آنکھوں میں حسرتیں
لہجہ کرخت ہے، نہیں ایسے نہیں ہے ٹھیک
افروز ان کے در پہ ذرا جا کے دیکھ لے
مفروضے خود بتادیں گے کیسے نہیں ہے ٹھیک

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *