ظُلم کے کانٹوں کے جنگل
کی گھنی چھاؤ ں کے اندھیاروں تلے
کتنی دُعا ، کتنی تڑپ سے،
تُم تمناؤ ں کے ، آدرشوں کے،
ننھی فکر کے ، آزاد خوابوں کے،
چراغوں کی لووں کوتیز کر تے ہو
چراغوں میں زیادہ اور زیادہ روشنی کے گیت گاتے ہو۔
کرن کی ایک ننھی بوند میں تُم بند ر ہتے ہو
کہ جیسے تُم تہہِ آب اک صدف کے
خول میں خوابیدہ گوہر ہو
کُھلے ، بپھرے سمندرکی اُچھلتی،مارتی
اور زندہ کرتی موجِ طُوفانی نہیں ہو
جیسے صدیوں میں کبھی تُم نے
اُکھاڑی ہی نہیں سنگین دیواریں
جمُود و جبر و بے حالی کے اک ظالم جہاں کی!
تُم سمجھتے ہی نہیں
دُنیا میں پُورا دِ ن چڑ ھا ہے
ہر طرف ذخاّ ر سُورج کی شُعا عیں ہیں
کہ روشن جن میں قُدرت کے
سب ازلی راز ہیں،
انسان کے سارے عمل ہیں
وہ عمل ، وہ راز،
جو فکر و یقیں میں زندگی کا رنگ بھر کر
آج،
اس دھرتی پر،
اس جیون میں،
سچےّ ، کارگر ثا بت ہوئے ہیں
تُم کبھی کانٹوں کے جنگل سے نکل ،
دُنیا میں جا کر
(خود سے بھی چوری چُھپا کر)
جیب میں اِ س دِ ن کا اِ ک ذرّ ہ سا بھر لاتے ہو
اِ س کو
اپنے اِ ن ننھے چراغوں کی لووں میں
گھول کر
ِ پھر گیت گا تے ہو
دُ عا کرتے ہو
اِ ن ننھے چراغوں میں زیادہ اور زیادہ روشنی کی
(اصل میں جیبوں میں بھر لائے گئے
تُم دِ ن کے اِ ن ذروں کو بھی
اپنی طرح کانٹوں کے جنگل سے کھلاِ تے ہو)
سمجھتے ہی نہیں ہو،
اِ ن چراغوں سے
(تُمہاری ہی مدد کی شہ پہ جلتے اِ ن چراغوں سے)
تُم اندھیاروں بھری راتوں میں
دِ ن کی زِ ندگی تو جیِ نہیں سکتے
فریبِ ذات کا اِ یندھن بھئکب تک تُم جلا ؤگے
نہ کو ئی راستہ پاتی مُقید زِ ندگی کو
اور بھی کتنا مٹاِ ؤ گے
کہو،خود آپ بھی کتنا مٹوِ گے؟
ظُلم کے کانٹوں کے جنگل
کی گھنی چھاؤ ں کے اندھیاروں تلے
جینے سے تُم اِ نکار کرتے کیوں نہیں
گھاتک ، گھنی چھاوں سے لڑتے کیوں نہیں
لڑنا
جو عین ِ زِ ندگی ہے ، زِ ندگی کی آگ ہے
جو راستہ سُورج کے در آنے کا ہے
سُورج کی ساری روشنی پا نے کا ہے
جیون کو جیون جیسا جی جانے کا ہے۔