Home » شونگال » کا نٹوں کا جنگل ۔۔۔ کاوِش عباسی

کا نٹوں کا جنگل ۔۔۔ کاوِش عباسی

ظُلم کے کانٹوں کے جنگل
کی گھنی چھاؤ ں کے اندھیاروں تلے
کتنی دُعا ، کتنی تڑپ سے،
تُم تمناؤ ں کے ، آدرشوں کے،
ننھی فکر کے ، آزاد خوابوں کے،
چراغوں کی لووں کوتیز کر تے ہو
چراغوں میں زیادہ اور زیادہ روشنی کے گیت گاتے ہو۔

کرن کی ایک ننھی بوند میں تُم بند ر ہتے ہو
کہ جیسے تُم تہہِ آب اک صدف کے
خول میں خوابیدہ گوہر ہو
کُھلے ، بپھرے سمندرکی اُچھلتی،مارتی
اور زندہ کرتی موجِ طُوفانی نہیں ہو
جیسے صدیوں میں کبھی تُم نے
اُکھاڑی ہی نہیں سنگین دیواریں
جمُود و جبر و بے حالی کے اک ظالم جہاں کی!

تُم سمجھتے ہی نہیں
دُنیا میں پُورا دِ ن چڑ ھا ہے
ہر طرف ذخاّ ر سُورج کی شُعا عیں ہیں
کہ روشن جن میں قُدرت کے
سب ازلی راز ہیں،
انسان کے سارے عمل ہیں
وہ عمل ، وہ راز،
جو فکر و یقیں میں زندگی کا رنگ بھر کر
آج،
اس دھرتی پر،
اس جیون میں،
سچےّ ، کارگر ثا بت ہوئے ہیں

تُم کبھی کانٹوں کے جنگل سے نکل ،
دُنیا میں جا کر
(خود سے بھی چوری چُھپا کر)
جیب میں اِ س دِ ن کا اِ ک ذرّ ہ سا بھر لاتے ہو
اِ س کو
اپنے اِ ن ننھے چراغوں کی لووں میں
گھول کر
ِ پھر گیت گا تے ہو
دُ عا کرتے ہو
اِ ن ننھے چراغوں میں زیادہ اور زیادہ روشنی کی
(اصل میں جیبوں میں بھر لائے گئے
تُم دِ ن کے اِ ن ذروں کو بھی
اپنی طرح کانٹوں کے جنگل سے کھلاِ تے ہو)

سمجھتے ہی نہیں ہو،
اِ ن چراغوں سے
(تُمہاری ہی مدد کی شہ پہ جلتے اِ ن چراغوں سے)
تُم اندھیاروں بھری راتوں میں
دِ ن کی زِ ندگی تو جیِ نہیں سکتے
فریبِ ذات کا اِ یندھن بھئکب تک تُم جلا ؤگے
نہ کو ئی راستہ پاتی مُقید زِ ندگی کو
اور بھی کتنا مٹاِ ؤ گے
کہو،خود آپ بھی کتنا مٹوِ گے؟

ظُلم کے کانٹوں کے جنگل
کی گھنی چھاؤ ں کے اندھیاروں تلے
جینے سے تُم اِ نکار کرتے کیوں نہیں
گھاتک ، گھنی چھاوں سے لڑتے کیوں نہیں
لڑنا
جو عین ِ زِ ندگی ہے ، زِ ندگی کی آگ ہے
جو راستہ سُورج کے در آنے کا ہے
سُورج کی ساری روشنی پا نے کا ہے
جیون کو جیون جیسا جی جانے کا ہے۔

Spread the love

Check Also

زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا  امینی

ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *