Home » قصہ » نسیم سید…Niggerبگ فیٹ۔

نسیم سید…Niggerبگ فیٹ۔

”موسم کی خرابی کی وجہ سے فلائٹ لیٹ ہوجائے گی۔ ہم نے آپ کے ڈنر کا انتظام کردیا ہے مسافروں سے التماس ہے کہ ڈنر کے کوپن کے لےے کاﺅنٹر سے رجوع کریں“۔
اس اعلان کے ساتھ ہی مسافروں سے بھرے لاﺅنج میں جیسے ایک اضطراب کی لہر دوڑ گئی۔ کتنی لیٹ؟۔ یہ سوال سب کے ہی چہرے پر تحریر تھا یوں تو، مگر مایا تو مجسم سوال بن گئی تھی۔ اس نے بہت کوشش کی تھی کہ آفس سے ایک دن کی چھٹی مل جائے مگر کام کی زیادتی کی وجہ سے نہیں مل سکی۔ اُسے صرف سات بجے والی ہی فلائٹ مل سکی۔ مایا نے اپنا مضمون بھی ابھی دوبارہ نہیں پڑھا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ ٹورنٹو سے چار گھنٹے کیلگری تک کے سفر میں تو مل ہی جائیں گے ، جہاز میں مضمون ٹھیک ٹھاک کر لے گی ۔ ہوٹل پہنچ کے جلدی سے سوجائے گی اور صبح کو نو بجے کانفرنس میں بالکل تازہ دم ہوگی۔ اب کیا ہوگا؟۔ مایا سوچ سوچ کے ہلکان ہورہی تھی ۔ پھر اس نے سوچا بجائے فکر مند ہونے کے کھانا لے کے کسی کونے میں بیٹھ جائے اور اپنے مضمون کو نوک پلک سے درست کرلے۔ سواس نے ایسا ہی کیا ۔ مایا کے ناول Life of a Salve Girl نے جب سے بیسٹ سیلنگ بک کا ریکارڈ بنایا تھا اس کے نہ جانے کتنے انٹرویوز شائع ہوچکے تھے ۔ اور اب اکثر اُسے کانفرنسز کے دعوت نامے ملتے تھے۔ اس کانفرنس کا موضوع مایا کی پسند کا تھا ۔
”How Our Words Impact Others“
مایا نے اپنے بیگ سے اپنی چھوٹی سی کنڈل بک نکالی ، مضمون کا تنقیدی نظر سے جائزہ لیتے ہوئے اس کے اندر اطمینان کی ایک لہر سی دوڑتی جارہی تھی، کہیں سے کچھ مٹاتے کہیںکچھ بڑھاتے ہوئے۔جب اس صفحہ پر پہنچی جس میں اُس نے اپنے بچپن ذکرکیا تھا تو اسے آج پھر اپنے اندر آنسوﺅں کی جھڑی سی لگی ہونے کا گماں گزرا۔
” الفاظ نہیں بلکہ کبھی کبھی صرف ایک لفظ ہی انسان کے اعتمادکی شہ رگ اس طرح کاٹ دیتا ہے کہ اس کے اپنے اندر موت واقع ہوجاتی ہے۔ دوستو! میں ایک لفظ کے بھیانک وار سے یہ موت مرچکی ہوں اورجانتی ہوں کہ اس کا گھاﺅ کتنا گہرا ہوتا ہے اور الفاظ کے ہی مرہم سے میرا زخم زخم وجود، نئی زندگی پا کے آج آپ سامنے ہے۔ محبت کے ایک لفظ کا مرہم انسان کے وجود میں کیسے معجزے کرتا ہے میں اس کے لےے کسی اور دلیل کے بجائے اپنی ہی چھوٹی سی داستان شیئر کرنا چاہوں گی۔    میرا خاندان بہت غریب تھا ۔ با پ کو ڈر گز کی عادت تھی اور ماں کے پاس جمیکا میںکوئی کام نہیں تھا۔ اپنے چار بچوں کا پیٹ پالنے کے لےے اس نے اپنے بھائی کے کہنے پر بوریا بستر باندھا اور ہم جمیکا سے نیویارک آگئے۔ اس وقت میری عمر سات سال تھی۔ جمیکا سے نیویارک آئے اب ہمیں چھ مہینے ہوچکے تھے۔ میری ماں کو ایک ہوٹل میں کمرے صاف کرنے کی نوکری بھی مل گئی تھی۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا تو مجھے سکول داخل کرانے کا سوچا ۔ مجھے یاد ہے کہ اس دن ماما نے Good Will کی دکان ( پرانے کپڑوں کی دکان) سے میرے لےے جو فراک خرید اتھا اسے صبح پہننے کی خوشی میں رات کو نیند نہیں آرہی تھی۔ اس بڑے بڑے سرخ پھولوں والے فراک کو ماما نے میرے سرہانے سے اٹھاکے بستر کے سامنے دیوار پر ٹانگ دیا تھا اور میں نہ جانے کتنی دیر تک اُسے یوں ایک ٹک دیکھتی رہی جیسے نظر ہٹائی تو غائب ہوجائے گا۔ سکول جاتے وقت مجھے مامانے پیار کرتے ہوئے ” میری پری “ کہا تو مجھے واقعی لگا جیسے میں وہی پری ہوں جس کی کہانی میری ماما نے اکثر سنائی تھی۔
سکول کے گیٹ سے اندر داخل ہوئی تو یہاں تو سارے بچے ہی ان تصویروں والے بچے لگ رہے تھے جو میں نے جمیکا میں رسالوں میں دیکھی تھیں یا ٹیلیویژن پر۔ اور ساری بچیاں بھی پریوں جیسی تھیں۔ مجھے بہت خوشی تھی۔ اب میں بہت سی پریوں کے ساتھ کھیلا کروں گی۔ میری ٹیچر نے بڑے پیار سے میرا اس بچی سے تعارف کرایا جو اسی بنچ پر بیٹھی تھی ” روزی یہ مایا ہے اب یہ تمہارے ساتھ بیٹھا کرے گی“۔
” مگر میں اس کے ساتھ نہیں بیٹھوں گی“ اس نے بنچ کے کونے کی طرف کھسکتے ہوئے کہا۔
” ارے کیوں؟ یہ تو بہت اچھی بچی ہے“۔
” نہیں یہ گندی ہے “۔
میری کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ میں گندی کیوں ہوں۔ ماما نے صبح صبح مجھے نہلایا تھا اور میرا فراک بھی نیا تھا۔
ً    میں کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی افسردہ ہوگئی تھی۔ میں نے اپنے اردگرد بیٹھے بچوں کو دیکھا سب ایک سے تھے سفید رنگ کے اور میرا رنگ کا لا تھا ۔ میرا جی چاہا میں کلاس سے نکل کے بھاگ جاﺅں۔ اپنے آنسو پوچھتے ہوئے میری نظر اپنے کالے ہاتھوں پر پڑی تو میں نے مارے شرمندگی کے انہیں جلدی سے اپنی فراک میں چھپالیا۔ لنچ ٹائم میں مجھے احساس ہوا جیسے سارے بچے مجھے دیکھ کے میرا مذاق اڑارہے ہےں۔ کوئی بھی مجھ سے بات نہیں کررہا تھا بلکہ سب دور دور تھے۔ مجھے اپنا جمیکا کا سکول یاد آرہا تھا ۔ وہاں سارے بچے میرے جیسے تھے اور یہاں ایک بھی میرے جیسا نہیں تھا۔ پھر پلے گراﺅنڈ میں وہ واقعہ ہو جس نے میرے اندرمجھے اس طرح چکنا چور کیا کہ کئی برس لگ گئے مجھے اپنی یہ کرچیاں چن کے خود کو پھر سے جوڑنے میں۔ میں ایک درخت کے سہارے کھڑی سارے بچوں کو حسرت سے ایک ساتھ کھیلتے دیکھ رہی تھی کہ ایک بچہ بھاگتا ہوا آیا اور مجھے دھکا دیتے ہوئے زور سے چلایا۔
”YOU DIRTY NIGGER“
” مجھے ” نگر “ کا مطلب نہیں معلوم تھا پھر بھی ایسا لگا جیسے اس نے بہت بھاری پتھر مار کے مجھے کچل دیا ہو۔ مجھے ان سے مختلف ہونے کی شرمندگی تھی۔ یہ شرمندگی اور بے عزتی ایک ایسے احساس کمتری میں مبتلا کرگئی جس نے میری شخصیت ہی بدل دی، میں نے رات کو اپنی ماں سے پوچھا ” ماما نگر کیا ہوتا ہے “ ۔ میری ماں ہوٹل میں روزانہ سولہ کمرے صاف کرتی تھی اور تھکی ہاری گھر آکے ہم چار بہن بھائیوں کا کھانا بنانے اور گھر کے دیگر کاموں میں جت جاتی ۔ اس کے پاس وقت نہیں ہوتا تھا ہمارے لےے ۔ مگر میرے سوال پر اس کا ہاتھ کا م کرتے کرتے رک گیا اور وہ غصہ سے بولی ” کیا سکول میں تمہیں کسی نے کہا ہے ؟“۔ میں نے سسک سسک کے رونا شروع کردیا ۔” ہاں ماما ایک بچے نے مجھے یو ۔ ڈرٹی نگر کہا تھا“۔
”Nigger“ کا کیا مطلب ہے ماما ؟ “۔ ماما کا چہرہ غصہ سے اس قدر سرخ ہوگیا تھا کہ میں نے ڈر کے مارے اس سے دوبارہ مطلب نہیں پوچھا اور خاموش بستر پر بیٹھی اپنے ہونٹ چباتی رہی۔
مجھے صبح کو سکول جانے کے خوف سے رات بھر نیند نہیں آئی اور صبح تک بخار چڑھ آیا۔ اس دن کے بعد سے میں اپنے ہاتھوں اور منہ کو نہ جانے کتنی بار رگڑ رگڑ کے صابن سے دھوتی اور بار بار آئینہ دیکھتی ۔ مگر اپنا کالا رنگ جوں کا توں دیکھ کے میرا دل دھاڑیں مار مار کے رونے کو چاہتا ۔ ماما نے اس سکول سے نکال کے مجھے ایک ایسے سکول میں داخل کرادیا جہاں کچھ اور بھی بلیک بچے تھے۔ مگر میرے اندر جو احساس کمتری جم گیا تھا اس نے میری پوری شخصیت ہی بدل کے رکھ دی ۔ میرے گرےڈ گرتے چلے گئے اور وزن بڑھتا چلا گیا جس سے میں آج تک نجات نہیں پاسکی۔ مجھے آئینے سے خوف آنے لگا کیونکہ مجھے آئینے میں ایک انتہائی بد صورت لڑکی دکھاتی دیتی ۔ میں کسی سے نظر ملا کے بات نہیں کرتی تھی اور اکثر بات کرتے وقت میرا حلق اتنا خشک ہوتا کہ میں ہکلانے لگتی اور اب بھی کبھی کبھار میرے اندر کے کسی لا شعوری احساس کمتری سے میں بات کرتی ہوئی حلق خشک ہوتا محسوس کرتی ہوں۔ میں انتہائی تنہائی پسند ہوگئی اور ساتویں کلاس تک میرا کوئی ایک بھی دوست نہیں تھا۔ میں گھر میں اپنے بہن بھائیوں سے بھی بات نہیں کرتی تھی۔ بس میری دنیا صرف کتابیں تھیں۔ میں بے تحاشہ پڑھتی تھی۔ چھٹی کے وقت ہمیشہ لائبریری چلی جاتی اور گھر آتی تو بھی ان کے ساتھ ہی میں خود کو محفوظ محسوس کرتی تھی۔ ساتویں کلاس تک مجھے گو دوبارہ یہ لفظ سننے کو نہیں ملا لیکن ساتویں کلاس میں ایک بار پھر ایک لڑکی نے اس لفظ کا لاوا میرے اوپر اس طرح اچھالا کہ اس کی تپش اس کی آگ اس کی جلن بعد میں میرے الفاظ، میرے مضامین، میری کہانیوں میں ڈھل گئی، اس لڑکی نے سکول کی ریس میں حصہ لینے والی لڑکیوں میں میرا نام بھی دیکھ کے مجھے کوری ڈور میں روک لیا اور میرے سینے پر اپنی انگلی رکھتے ہوئے اس نے ایک بھرپور قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تھا۔
” اب تم جیسے بھی ہمارے ساتھ مقابلے میں دوڑیں گے ؟“۔ You are a Nigger, and “Nigger means Slave” تم کالی لڑکی، تم ہمارے ساتھ ریس میں حصہ لوگی ۔پہلے اپنی شکل آئینے میں دیکھو جا کے “۔ میں حیران تھی کہ میرا نام کہاں سے آگیا لسٹ میں جبکہ میں نے تو وہ لسٹ بھی نہیں دیکھی تھی۔ میرا بدن خوف سے کانپ رہا تھا۔ میں نے اسے بتانا چاہا مگر مارے ڈر کے میری زبان حلق تک جیسے کانٹوں سے چھدی ہوئی تھی اور لفظ ان کانٹوں میں الجھ کے رہ گئے تھے۔ میں نے ہکلاتے ہوئے ابھی ایک لفظ ہی کہا تھا کہ اچانک برابر کھڑے لڑکیوں کے ایک گروپ نے جو کہ اس کی بات سن رہا تھا وہ ہماری طرف مڑا اور ان میں سے ایک لڑکی نے زناٹے دار تھپڑ اُس لڑکی کے چہرے پر جڑ دیا جو ابھی مجھ سے مخاطب تھی:
” تمہاری ہمت کیسے ہوئی مایا سے ایسی بات کرنے کی؟“۔ وہ بہت زور سے چلائی ۔
” ابھی اس سے معافی مانگو“۔
وہ تمام لڑکیاں جو اس کے ساتھ تھیں مجھ سے دو کلاس سینئر تھیں اور اُن میں سے ایک بھی بلیک نہیں تھی۔ ان سب نے شدید غصہ سے کہا۔
” ابھی سب کے سامنے مایا سے معافی مانگو، غلام وہ نہیں ہے تمہاری ذہنیت مکروہ اور سیاہ ہے اور تم اس ذہنیت کی غلام ہو “۔
اس لڑکی نے مضبوطی سے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا جو ایک ہی لفظ کی تکرار کررہی تھی:
” مایا سے معافی مانگو“۔
اس کی ہتھیلی کی محبت بھری حدت میری ہتھیلی میں جذب ہورہی تھی اور میرے اندر کے احساس محرومی کو کوئی نیا احساس بخش رہی تھی۔ پھر اس نے مجھے گلے سے لگایا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے “۔ آئی ایم سوری مایا کہ تمھارے ساتھ یہ ہوا ۔I love you, we all love you, you are so beautiful, please don’t give a shit to her garbage.
نفرت کے ایک لفظ نے جس طرح مایا کے وجود کو صحرا بنا دیا تھا اس صحرا کو ایک بول نے محبت سے کیسے گلزار بنا دیا اور یہ کہ الفاظ کسی انسان کے اندر کی کائنات کا کیسے سراغ دیتے ہیں۔ مایا نے اپنے دلائل اور اپنی کہانیوں اور ناول کے کرداروں کا مضمون میں تفصیلی جائزہ لیا تھا ۔ اسے اطمینان ہوگیا کہ وہ جو کہنا چاہتی ہے جس طرح کہنا چاہتی ہے مضمون بالکل ویسا ہی ہے۔ مایا نے اپنی بک بند کی ابھی تک فلائٹ کی روانگی کا کوئی اعلان نہیں ہوا تھا۔ مایا کو کافی کی طلب ہوئی ۔ کافی کی لائن لمبی تھی مایا کی توجہ اس عورت کی طرف مبذول ہوگئی جو اپنے دو بچوں کے ساتھ اس کے آگے کھڑی تھی۔ مایا بچوں کے معصوم حسن کی دیوانی تھی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو شاید کہ اس کا اپنا کوئی بچہ نہیں تھا مگر اُسے ہر حسین شے سے محبت تھی اور بچے اُن میں سر فہرست تھے۔ لڑکا سات سال کا ہوگا اور بچی پانچ سال کی ۔ اس کی گہری سبز آنکھیں، گھو نگریالے سنہری بال خوبصورت ساپنک فراک اُسے اور بھی خوبصورت بنا رہے تھے۔ اوپر سے ماں سے معصوم سوالوں کی تکرار۔ مایا مسلسل اس کو پیار سے دیکھے جارہی تھی۔ اچانک بچی مایا کی طرف مڑی۔
” ہائے ۔ وٹ ازیور نیم؟“۔
مایا کا جی چاہااسے گود میں اٹھالے مگر یہ مناسب نہیں تھا تو اس نے پیار سے کہا ” ہائے پرنسس ، مائی نیم از مایا اینڈیورس ؟“۔ بچی کی ماں نے پلٹ کے دیکھا اور بچی کا ہاتھ تھام کے اپنے قریب کرلیا ” تمہیں اجنبیوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے “۔ اس نے انگریزی میں کہا۔ مایا کو اس کا لہجہ کچھ اتنا اچھا نہیں لگا مگر پھر اس نے سوچا اس نے ٹھیک ہی تو کیا ۔ نہ جانے کیسے کیسے ذہنی مریض ہمارے اطراف موجود ہیں۔ بچوں کو ہر ایک سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہےے۔ وہ دل ہی دل میں ماں کو سراہتی ہوئی کافی لے کے واپس اپنی جگہ پر آگئی۔ پورے ماحول پر بیزاری چھائی ہوئی تھی۔ انسانوں کا چپ چاپ مشاہدہ کرنا مایا کا ایک دل پسند مشغلہ تھا۔ سو اس نے جو کتاب ابھی پڑھنے کی غرض سے نکالی تھی اسے بند کرکے رکھ دیا اور لا ﺅنج میں موجود لوگوں کو پڑھنے میں مشغول ہوگئی ۔ اچانک فلائیٹ کی روانگی کا اعلان ہوا۔ اور لوگوں کے چہرے کی بیزاری اور تھکن مسرت میں بدل گئی۔ مایا نے بھی اطمینان کا سانس لیا۔ مایا کی سیٹ ونڈو کی تھی اور دو سیٹیں ابھی تک پر نہیں ہوئی تھیں۔ اس نے اپنا لیپ ٹاپ باہر نکال کے باہر کی سیٹ پر رکھا اور بیگ اور پرس سامنے والی سیٹ کے نیچے کھسکا دیا “۔
”could you move your lap top“
مایا نے مڑ کے دیکھا دو پیارے سے بچوں والی ماں اس سے مخاطب تھی ۔ مایا نے سوری کہتے ہوئے جلدی سے اپنا لیپ ٹاپ ہٹالیا۔ مگر اس کے لہجے میں عجب سی نا گواری محسوس کرکے مایا کو حیرانی ہوئی۔ پھر اُسے خود ہی یہ سوچ کے تسلی ہوگئی کہ تین گھنٹہ کے انتظار کی کوفت نے شاید اسے تھکن سے چڑچڑا بنا دیا ہے۔ مسافر سیٹل ہوچکے تھے اور طیارہ اڑنے سے پہلے اکثرمسافر ٹیکسٹ کرکے اپنے عزیزوں کو روانگی کی خبر دے رہے تھے ۔ مایا نے دیکھا برابر میں بیٹھی ہوئی عورت نے بھی اپنا فون نکالا اور ٹیکسٹ کرنے میں مشغول ہوگئی۔ بچی ماں کی برابر والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھایا فون کے لےے ” ماما آئی وانٹ ٹو پلے اینگری برڈ“ ۔ ایک منٹ ٹھہرو ماں نے تنبیہہ کی مگر وہ اس کے ہاتھ سے فون لینے کی کوشش کررہی تھی ۔ ماں نے فون بچانے کے لےے اپنا ہاتھ مایا کی سائڈ پر کیا اس طرح کہ مایا کہ نظروں سامنے اس کا فون تھا اور اس کے ٹیکسٹ کی ایک لائن
“And guess what ? A big fat Nigger is sitting thigh to thigh beside me”
ماما کے ہونٹوں پر ایک تلخ سی مسکراہٹ دوڑ گئی ۔ وہ جانتی تھی کہ دنیا میں رنگ نسل فرقے کی بنیاد پر نفرت زیادہ ہے محبت کم۔ سو اس نے اس تلخی کو زبان پر نہیں آنے دیا بلکہ جہاز کے اڑنے کے بعد اپنا مضمون نکالا اور آخری پیراگراف میں چند لائینز کا اضافہ کردیا۔ کافی وغیرہ کی سرونگ کے بعد جب مسافروں پر نیند کا غلبہ طاری ہوا تو مایا نے بھی سوچا کچھ دیر آنکھیں بند کرکے آرام کرلے مگر ایک نوجوان لڑکی کی آواز نے اسے مخاطب کرلیا ۔ اس کے ہاتھ میں اس کی آٹو گراف بک تھی ۔” میں آ پ کی بڑی فین ہوں، آپ کا تازہ ناول اس وقت بھی میرے ساتھ ہے اور میری آپ سے عقیدت کچھ اور بڑھتی جارہی ہے۔ کیا میں آپ کا آٹو گراف لے سکتی ہوں؟“۔ لڑکی کے ہاتھ میں مایا کا نیا ناول تھا جو اس نے بڑے فخر سے اُسے دکھایا ۔ مایا کے برابر بیٹھی ہوئی عورت نے اب تعجب ، حیرت اور خوشی کے ملے جلے احساس سے مایا سے کہا ۔” آپ مایا اینڈرسن ہیں؟“ مایا مسکرائی ” جی ہاں“۔ عورت نے مسرت سے مصافحہ کے لےے ہاتھ بڑھایا۔
” آپ کا نام بہت سناہے۔ میری دوست آپ کی بہت بڑی فین ہے۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ اس سفر میں آپ کے ساتھ بیٹھی ہوں۔ میں اپنی دوست کو بتاﺅں گی ” اس نے جیب سے ایک چھوٹی سی نوٹ بک نکال لی “۔ پلیز اپنا آٹو گراف دے دیں تاکہ میں اس اپنی دوست کو یقین دلا سکوں کہ میں نے آپ کے ساتھ سفر کیا ہے۔
مایا کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ اس نے محبت سے ہاتھ ملایا اور اپنے بیگ سے اپنا نیا ناول نکالا ” آپ اس ناول کو ضرور پڑھیںشاید آپ کے کام آسکے ” اور اس پر لکھ “One should remember How Our Words Impact Others”
مایا نے آنکھیں بند کرکے کھڑکی سے سر ٹکالیا۔ اس کا خیال تھا کہ الفاظ کی تیز دھار اب اُسے زخمی نہیں کرسکتی لیکن آنکھیں بند کرتے ہی ” بگ فیٹ نگر “ کی انی اُسے اپنے دل میں پیوست محسوس ہوئی اور ایک ناقابل بیان تکلیف آنسو بن کے اس کی پلکوں پر جم گئی۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *