Home » قصہ » پیڑھی ۔۔۔ رشید بھٹی جہانگیر عباسی

پیڑھی ۔۔۔ رشید بھٹی جہانگیر عباسی

”اُوئے!‘ جلدی کر جلدی ۔۔۔ ورنہ سیدھا کردوں گا۔“
وڈیرے سائیں چھٹل کی دھمکی بھری کرخت آواز ابھرتے ہی میہو خان کچھ اور آگے کی طرف کھسکا جہاں اُس کی نظروںکے عین سامنے جوار کی فصل میں سیٹے سینا تانے کھڑے تھے اور اُن سینٹوں میں سوئر وڈیرے چھٹل کے کھیتوں سے نکل کر دوبارہ پھر رات سے داخل ہوتے ہی ہوشیار بن کے بیٹھ گیا تھا۔ جوار کھیت سے کچھ فاصلے پہ نہر کا کنارا تھا جہاں اب بہت سے تماشبین یہ تماشہ دیکھنے کیلئے جمع ہوچکے تھے۔
وڈیرا چھٹل خان سورج ابھرتے ہی اپنے نوکروں اور کُتوں کی فوج کے ساتھ جیسے ہی یہاں آن پہنچا تو کتوں نے سوئر کو دیکھتے ہی دھاڑتے بھونکتے ہوئے فوراً حملہ کر ڈالا پھر ان کے درمیان گھمسان کی جنگ سی چھڑ گئی آخر سوئر خود کو بچانے کے لیے کتوں کے نرخے سے نکل کر نہر کنارے بھاگا تو وہاں پہلے سے موجود وڈیرے کے بندوقچیوں نے اس پر دو تین فائر کرڈالے۔ سوئر نے اب اپنے آپ پر ہونے والے اس نئے حملے سے بچنے بچانے کی بہت کوشش کی کیوں کہ وہ بھی کوئی عام سوئر نہ تھا بلکہ بہادر ہونے کے ساتھ خطرناک بھی تھا مگر واپس پلٹتے وہ پھربھی بندوقچیوں کی دو گولیوں کا شکار بن گیا اور اب ان کے درد کی شدت سے نیم پاگل سا ہوکر اپنے سامنے سے آتے ہوئے کتوں پر پھر سے بھوکے شیر کی مانند ٹوٹ پڑا اور چنگھاڑتے بہت سے کتوں کو وہیں چیر پھاڑ ڈالا ۔تو بہت سے زخمی گھائل پڑے رہ گئے، باقی جو بچے وہ دُم ہلاتے زخموں سے کُوں ۔۔۔۔۔ کُوں ۔۔۔۔۔ کی آوازیں نکالتے اپنے آپ کو آزاد پاکر پیچھے کی اور بھاگ کھڑے تھے۔
اب اِدھر سوئر بھی جوار کھیت اندر پانی کی چھوٹی سی نالی میں جا بیٹھا جس کو باہر نکالنے کے لیے وڈیرے چھٹل نے اپنی مدد کی خاطر کچھ کارندے اس پیغام کے ساتھ وڈیرے رجب علی کی طرف آندھی کی طرح دوڑائے جس کا گا¶ں چار میل کی دوری پہ واقع تھا :
”وڈیرا دیر مت کرنا۔۔۔ جلدی سے مزید کتے بھیجنا یہی وقت ہے پھر کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔“
نہر کنارے کھڑے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا جو یہ تماشہ دیکھنے کے لیے بے چین ہو ئے جا رہے تھے۔ ادھر وڈیرا چھٹل کارندوں کی واپسی کی فکر میں ایسے پریشان کھڑا تھا جیسے اس کے وجود میں کوئی زہر بھرگیا ہو جب اچھا خاصا وقت بیت گیا تو وڈیرا چھٹل اپنے آپ پہ قابو نہ رکھتے ہوئے کارندوں کو گالیاں دیتے ہوئے چیخنے لگا تھا۔” سب کے سب جانے کہاں مرگئے ہیں۔ ابھی تک نہیں لوٹے۔۔۔ کتے کی اولاد آئیں تو خوب خبر لیتا ہوں۔“
لوگوں نے وڈیرے کو اس قدر غصے کی حالت میں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا جو اب ماحول سے بے خبر بنا پھر سے ایسے تڑپنے لگا تھا جیسے بن پانی کے مچھلی۔ وڈیرے کی اکلوتی رانی جس کا سودا اس نے اپنے خاص اور تیز رفتار سواری والے اونٹ کے عیوض وڈیرے پریل خان سے طے کیا تھا اور وہ تھی بھی تو ایسی ہی عمدہ جیسے سارے کتوں میں سب سے اعلیٰ ہو۔ یہ ہی رانی وڈیرے قادن والی ’مومل‘ کتیا کے نسل سے تھی جو سب میں خاص مانی جاتی تھی اور اب یہ رانی یعنی وڈیرے پریل کے مومل کی پوتی اور وڈیرے چھٹل کی جان آرزو جوار کھیت میں خبیث سوئر کے سامنے خون میں لت پت زندگی اور موت کے دوراہے پہ زخمی ہوئی پڑی تھی ۔ رانی کی ایسی حالتِ زار پہ دل ہی دل میں روتا ہوا وڈیرا چھٹل سوچنے لگا تھا۔” میری رانی یوں میری آنکھوں کے سامنے لاوارث مرجائے۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا ۔۔۔ میں نے اسے کس مشکل سے پایا ہے۔۔۔ میں اسے ہرگز بھی مرنے نہیں دوں گا۔“
جوش و جذبے کی دلدل میں گرتے ہوئے وڈیرے نے پھر سے بندوقچیوں کو فائر کرنے کا حکم دیا مگر وہ وڈیرے کے حکم کے سامنے ہارے ہوئے سپاہی کی طرح لاچار بنے رہے، جو جانتے تھے کہ اگر بندوق چلی تو گولی سوئر کو لگنے کی بجائے رانی کو بھی پار کرسکتی ہے اور اگر سچ میں ایسا ہوجاتا تو ان بندوقچیوں کی زندگی میں قیامت سے پہلے ہی قیامت برپا ہوجانی تھی۔
اچانک وڈیرے چھٹل کی نظر اپنے نسل در نسل غلام میہُو خان پہ پڑی جو ایک طرف ادب کا پیکر بنا کھڑا تھا۔ تب اسے دیکھتے ہی وڈیرے نے ایک ہی سانس میں حکم صادر کر ڈالا ”جا ۔۔۔ جاکر سوئر کے سامنے سے میری گھائل رانی کو اٹھا کر لے آ¶۔“
میہُو خوب جانتا تھا کہ وڈیرے کے سامنے انکار کرنے کا انجام بہت ہی بھیانک ہوسکتا ہے۔ اس لیے وہ حکم کی تکمیل میں چپ چاپ آگے بڑھا اور جوار کھیت میں اترنے لگا تو وہاں موجود تماشبین پہ جیسے چپ کا سکتہ سا طاری ہوگیا جو سب یہ خوب جانتے تھے کہ میہُو کیلئے خونخوار جنگلی جانوروں کا سامنا کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل رہا ہے۔ میہُو ایک بہادر اور طاقتور نوجوان تھا اور اس سے پہلے کئی بار سوئروں کو زیر بھی کرچکا تھا مگر اب کے میہُو کے قدم آگے بڑھتے ہوئے رک گئے اور وہ واپس پلٹنے لگا جسے یوں آتا دیکھ کر سارے دنگ رہ گئے۔ میہُو نے بہت سادگی اور عاجزی سے ہاتھ جوڑتے ہوئے وڈیرے کے سامنے اپنی عرض پیش کی ”سرکار! میں نے اب سوئروں سے کبھی نہ لڑنے کی قسم کھا رکھی ہے۔“
”قسم کے بچے! ۔ چل ۔۔۔ چل اُس طرف ۔۔۔ ورنہ ایسا حشر کروں گا کہ……..“
وڈیرے کے غیض و غضب کو جانتے ہوئے وہ بیچارہ پھر سے ڈر کر رہ گیا اور واپس مڑتے ہوئے اُس کے قدم آگے کو بڑھنے لگے۔ کہنے کو تو میہُو بہادر سپوت تھا مگر آج اس بہادر کے دل کی دھک دھک کے ساتھ اٹھنے والا ہر قدم اسے کمزور بنا رہا تھا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا تھا جس کی بڑھتی گہرائی میں نہر کنارے کھڑے تماشبین ۔۔۔ درخت ۔۔۔ ہر چیز گم ہوتی گئی اور ان کی جگہ تاریکی میں میہُو کی بوڑھی ماں کا پرامید چہرہ روشنی کی کرن بن کر ابھرنے لگا جو ہاتھ میں چھڑی تھامے کانپتے لرزتے میہُو کی طرف آرہی تھی۔ میہُو نے غور سے جب ماں کی جھریوں والے بوڑھے چہرے میں تاکا تو اسے اپنی ماں کی آنکھوں میں آس اور التجا کے جگنو ایک ساتھ رقص کرتے دکھائی دیئے۔ میہو ان جگنو¶ں کا تاب مزید دیکھ نہ پایا اور سر کو نیچے جھکا لیا تب میہو کی زبان میں جنبش پیدا ہوئی اور یہ الفاظ جیسے کیے ہوئے وعدے کی لاج بن کر ماحول میں گوجنے لگے۔
”ماں! ۔۔۔۔ دیکھ ماں! میں تیری آس بر لا¶ں گا۔۔۔ ہاں میری ماں میں نے سوئر سے کوئی لڑائی نہیں کی ۔میں سوئر سے ہرگز نہیں لڑوں گا۔“
”ارے اوئے سوئر کی اولاد! میری نسلی کتیا کیا لاوارث ہے جو تو نہیں لڑے گا؟! جاتا ہے کہ نہیں؟“
اسی عالم اثنا میں وڈیرے چھٹل خان کی غصے سے بھری آواز ایک بار ایسے گونجی جیسے آسماں پہ بادل گرجا کرتے ہیں۔ تب میہو کی آنکھوں کے سامنے موجود ماں کی صورت سگریٹ کے دھوئے کی طرح تحلیل ہوتی گئی۔ اس نے پھر سے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں وڈیرا نہر کے ساتھ والی کھائی پہ کھڑا چیختا چلا رہا تھا۔ میہُوخان سب کچھ بھلا کر آگے بڑھا اور کچھ آگے اب جوار کھیت کے بلکل قریب تر پہنچ گیا۔ اس قدر قریب کہ اسے سوئر کے چنگھاڑنے اور زخمی کتوں کی کوُں۔۔۔ کوُں ۔۔۔ کی آوازیں اپنے کانوں تک صاف سنائی دینے لگی تھیں۔ ایک قدم آگے بڑھتے وہ پھر سے رک گیا اور من ہی من میں سوچنے لگا کہ اس طرف جائے یا نہ جائے جہاں اس لئے زندگی کے ساتھ موت بھی کھڑی تھی کیوں کہ وہ آج صبح ہی تو ماں کو زباں دے کر گھر سے نکلا تھا کہ پھر کبھی نہ کسی سوئر کا شکار کرے گا اور نہ کوئی لڑائی۔ جس سے خوش ہوتے ہوئے ماں نے اپنی چھاتی سے لگا کر میہُو کو نہ صرف پیار کیا تھا ساتھ یہ دعا کرتے ہوئے خواہش بھی ظاہر کی تھی جو ہر ممتا کی اپنی اولاد کی خوشیاں دیکھنے کے لیے ازلی دعا ہوا کرتی ہے۔” زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اب توقدم موت کے راستے میں ہیںجانے آج پوری ہوجائے کہ کل“ کچھ دیر کے لیے سانس رک سی جاتی ہے۔ ”دیکھ بیٹا! بس اپنے ہاتھوں سے تمہارے لیے اےک چاند سی دلہن بیا لا¶ں پھر کوئی فکر نہیں رہے گی۔ مقدر ہوا تو تیرے بچے بھی دیکھوں گی اور اگر نہ دیکھ پائی تو کوئی غم نہ ہوگا۔“
میہُو وہیں کھڑے پھر سے سوچ کے بھنور میںپھس جاتا ہے۔” میری ماں بہت عظیم ہے جسے میری شادی کی نہ صرف فکر ہے پر اس نے لڑکی بھی پسند کر ڈالی ہے۔ سارے انتظام اکیلے کر دیئے اور اب آنے والے ماہ کی چودھویں کو میری شادی ہوگی۔“ سوچ کا ایک اور جھٹکا اسے ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
”آنے والے ماہ کی چودہ تاریخ کو میری شادی ہے اور میں یہ……..“
اب کہ وہ خود سے مخاطب ہوتے ہوئے زیرلب دہرانے لگا تھا۔۔۔ ماں کی محبت اور ممتا پھر سے میہُو کے وجود میں ایسے موجیں مارنے لگی تھی جیسے دریا کی تیز لہریں موجوں کے ساتھ کنارے پہ آ گرتی ہیں۔
”اماں! تیری ممتا کے آگے کوئی چیز معنیٰ نہیں رکھتی، تو بہت عظیم ہے ،ہاں! میں اپنا وعدہ ہر حال میں نبھا¶ں گا۔۔۔ تمہاری آنکھوں میں اُمیدکے جگنو جگمگائیں گے میں سوئر سے ہرگز نہیں لڑوں گا۔“
سب کے سب ایکبار پھر سے ہکے بکے رہ جاتے ہیں۔ میہُو خان بہادری کی جگہ بزدلی کا چولہ پہنے نہتے ہاتھ واپس لوٹنے لگا تو وڈیرے چھٹل خان کا غصہ اب ایٹم بم بن کر میہُو کے وجود پہ آگرا تھا۔” تو پھر واپس آ رہا ہے، ٹھیک ہے تو آ ۔۔۔ دیکھتا ہوں کہ اس گا¶ں میں کیسے رہتا ہے۔ تجھے تو میں برادری سے بھی بے دخل کروں گا اور تیرا نام پولیس کو دے دوں گا قلم ایک سو دس میں ۔“
اب کی بار ملنے والی دھمکیوں کو سن کر میہو خان کے قدم ایسے رک گئے جیسے اچانک زمین میں دھنس گئے ہوں۔
”وڈیرا سائیں گا¶ں سے بے دخل کردے گا۔اور برادری بھی باقی نہ رہے گی ۔ پھر میں کیا کروں گا؟! کہاں جاﺅں گا ؟ ماں کے ساتھ گذارہ کیسے ہوگا۔ اور تو اور گلاں کا باپ رشتہ بھی توڑ دے گا؟! کہاں سے کھائیں گے ہم؟ کون دے گا مجھے رشتہ اور کیسے پورے ہونگے وہ خواب جو ماں کی آنکھوں میں اب تک جگنوں کی طرح جگمگا رہے ہیں ۔ وڈیرے کے در کا نوکر ہی تو ہوں۔ یہ سایہ بھی سرسے اٹھ گیا باقی کچھ بھی نہ رہے گا؟!
نہ جانے ایسے کتنے سوال تھے جو دشمنوں کے تیر بن کر میہُو کے وجود کو گھائل کرتے جار ہے تھے اور وہ تن تنہا ہارا کھڑا رہا ۔پھر ان سوالوں کے جواب پانے کے لیے میہُو نے اپنے ذہن سے جنگ کی جس میں بھی اُسے شکست نصیب ہوئی۔ تب وہ مایوس ہوتا ہوا خود کو ایسی کھائی میں گرتا محسوس کرنے لگا جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔ تب اُس نے ایک کروٹ لی اور خود سے جو راستہ نکالا وہ اس کھائی سے بھی کئی گنا تاریک تھا۔ میہُو بجلی کی تیزی کے ساتھ جوار کھیت کی جانب بڑھنے لگا کیوں کہ اسے اپنا اور ماں کا پیٹ پالنا تھا گلاں کا ہاتھ تھام کر ماں کی آس کو سنوارنا تھا۔ اس گا¶ں میں وڈیرے کی غلامی کرتے کرتے مٹی سے مٹی ہونا تھا۔ شاید یہ ہی سب تھا جس کے باعث میہُو فیصلہ کن انداز میں واپس پلٹا تھا توپیچھے کھڑے تماشبین کی نظریں بھی رونق کی روشنی سے چمک اٹھی تھیں جن سب کے وجود آدم زاد اور سوئر کا مقابلہ دیکھنے کے لیے پتھرائے ہوئے تھے۔
میہُو جیسے جوار کھیت کے قریب تر ہوا تو سوئر کی دھاڑ اور چنگھاڑ بلند ہونے لگی جو اپنی طرف اک بدنصیب انسان کو آتے دیکھ کر حملے کی تیاری کرنے لگا تو دوسری طرف سارا ہجوم وڈیرے کے سامنے میہُو کی بہادری کی داستانیں دہرا دہرا کے پیش کرنے لگا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جوار کی کھیت میں کھڑے سینٹوں میں ہلچل مچلنے لگی اور باہر کے ماحول پہ خاموشی طاری ہوگئی۔ کئی لمحے سینٹوں کے اندر زور زور سے سرسراہٹ کے ساتھ سوئر کی چنگھاڑ سنائی دیتی رہی جسے سن کر دیکھنے والوں کو لگا تھا کہ شاید میہُو ہوشیاری سے رانی کو اٹھانے میں کامیاب ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔۔ جب لہو میں لت پت میہُو خان دیکھنے والوں کی نظروں کے سامنے رانی کو اپنے باز¶ں میں بھر کر باہر نکل آیا اس کے آتے ہی پیچھے بندوقچیوں نے فائر داغ کر تھکے، ٹوٹے، گھائل سوئر کو وہیں ڈھیر کردیا تھا۔
”واہ رے میہُو! دیکھو میں نہ کہتا تھا کہ اک میہُو ہی ہے جو سچا سپوت اور بہادر ہے۔“ خوشی سے اچھلتے کودتے وڈیرے نے دوڑ کر میہُو خان سے رانی کو باز والی جھپٹ کے ساتھ اپنے بانہوں میں لے لیا مگر میہو جو شاید ٹھیک طرح سے وڈیرے کے تعریفی کلمات سن بھی پایا تھا کہ نہیں۔
’دیکھو تو حرامی سوئر نے بے بس رانی کو کیسے بری طرح سے گھائل کر ڈالا ہے۔“ وڈیرے کا دل رانی کے لیے تڑپ اٹھا تھا جو اب وہ میہو کی خو ن سے لت پت حالت سے انجان بنا رہا اور میہو اسی شدید زخمی حالت میں دو چار قدم بھر کے وہیں گرا اور زخموں کے تاب نہ سہہ کر اپنی بوڑھی ماں کی حسرتوں کو لیے اِس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایسے چلا گیا جیسے وہاں موجود ہر ایک میں سے کبھی کسی کو یاد ہی نہ رہا ہو۔
وہاں موجود کسی کو بھی یاد نہ رہا تھا ۔۔۔۔ادھر تانگے پہ سوار ہونے سے پہلے کتیا رانی کو ایک اور ملازم کے حوالے کرتے ہوئے وڈیرا چھٹل اسے سخت تاکید کے ساتھ خوش ہوتے ہوئے کہنے لگا۔
”مرے ہوئے سوئر کو اٹھا کر گا¶ں بھیجو اور میری رانی کو جلدی مرہم پٹی کے لیے شہر روانہ کرو جب یہ تندرست ہوکر لوٹے گی تو اسے وڈیرے ربن کے کتے کے ساتھ چھوڑ دینگے جو اسی کی طرح سے خاندانی ہے ۔۔۔ ویسے بھی آج کل زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ۔رانی اچھی نسل سے ہے یُوں اس کی پیڑھی بچ جائے گی!!!!“

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *