Home » کتاب پچار » ہاروخیسں ہار ۔۔۔ تبصرہ:شاہ محمد مری

ہاروخیسں ہار ۔۔۔ تبصرہ:شاہ محمد مری

میر منیر احمد بادینی کی یہ کتاب دراصل ناول کی صورت میں میر گل خان نصیر کی سوانح عمری ہے۔
یونیورسٹی آف بلوچستان کے گل خان نصیر چیئر نے اس کتاب کو شائع کیا ، مگر صرف500 کی تعداد میں۔ بعد میں یہ لوگ پچھتائیں گے۔ ابھی سے دو تین ہزار کی تعداد میں اُسے چھاپنا چاہےے تھا۔۔
اگر یہ سوانحی ناول میر گل خان نصیر کی زندگی پہ نہ ہوتا تو منیر احمد بادینی کے دیگر بے شمار ناولوں کی طرح میں اِسے بھی کسی الماری میں ” بعد میں پڑھوں گا“ والے خانے میں رکھ چھوڑتا ۔ اس لےے کہ اُس کے سارے ناولوں کے پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ باقی سارا کام دھندہ چھوڑدیں اور دو تین سال تک محض ” منیرگردی“ کا شکار رہیں۔
مگر یہاں تو بات صرف زود نویس اور بہت بسیار نویس منیر بادینی کی نہ تھی ۔ اُس کے ساتھ گل خان بھی مل چکا تھا۔ اور چونکہ منیر بادینی رشتے میں میر گل خان کا بھانجا ہے اس لےے یقین تھا کہ اِس ناول میں میر گل خان کے بارے میں میرے لےے کوئی نہ کوئی نئی بات ضرور ہوگی۔
موٹے حروف میں لکھی یہ کتاب 190 صفحات پر مشتمل ہے ۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ گل خان جیسے صلاحیتوں سے بھرے ہشت دستی انسان کے لےے بہت ہی چھوٹی ہے۔ آپ کو بلوچی دستانغ”شیشک“ کے وہ مصرعے یاد دلاتا ہوں جس میں شاعر چودہ اونٹ منڈی میں فروخت کرتا ہے ۔ مگر اُن چودہ اونٹوں کی قیمت سے وہ اپنی محبوبہ کی ایک قمیض بھی نہیں خرید سکتا۔ گل خان پر190 صفحے؟ اور وہ بھی سیدھے اُسی پر نہیں ہیں ناول اِدھر اُدھر کی باتوں کے بیچ گل خان کے تذکرے کی باتیں ہیں۔پھر منیر جان تو اپنے نالوں میں اکثر فروعی تفصیلات میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ اصل بات بہت لاغر اور کمزور رہ جاتی ہے۔ ….چنانچہ اِس ناول میں بھی اصل بات، گل خان کی بات میںتشنگی ہی تشنگی رہ گئی ۔
میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ منیر جان نے کیریکٹرزتبدیل کردےے ۔ اس کے ناول میں میر گل خان نورا بنا، میر غوث بخش بزنجو کو ” شاہ داد“ بنادیاگیا اور یوسف عزیز مگسی ” شہک مگسی “ ہوگیا۔ کیا شرافت ہے ۔ اسے اچھے منیر !اس تکلف کی کیا ضرور ت تھی۔ ہم نے دنیا کے بے شمار بہترین سوانحی ناول پڑھے ہیں جو اصل ناموں کے ساتھ ہیں۔
اس ناول کو انیس(19) چھوٹے چھوٹے ابواب میں تقسیم کیا گیا۔ اتنے چھوٹے باب کہ تیراکی کے لےے چھلانگ لگائیں تو ہاتھ پاﺅں چلائے بغیر دوسرا کنارہ پہنچ جائے ۔ اور پھر اِن ”بقدرِ اشکِ بلبل “ جیسے ننھے منے ! ابواب کے اندر وہ اتنے لمبے لمبے فقرے لکھتا ہے کہ سانس دس بار ٹوٹ جائے مگر فقرہ کم بخت نہ ٹوٹے۔ ہم بچپن میں کھیلتے تھے تو دو چار ایسے مہمل سے فقرے ہوتے تھے جنہیں ایک ہی سانس میں سات دفعہ کہنا ہوتا تھا۔ مصیبت یہ تھی کہ آپ بہت تیز پڑھتے تو وہ فقرہ اس قدر گڈمڈ ہوجاتا کہ اس سے خود کو گالی دی جارہی ہوتی۔ اور اگر احتیاط سے پڑھتے تو سات دفعہ پڑھنے سے پہلے ہی سانس ٹوٹ جاتی ۔مثال کے بطور ہم بہت ساری ترمیمیں کرکے کچھ ایسے فقرے یہاںدیتے ہیں:
آتر بنداں ما تر بنداں مچیں پوراں تیر بنداں۔
یا
ٹیڑہ سرارلی اے لُرک رلّی لرک۔
یا
ٹیڑہ سرا تولغے مناں گندی وثار بذگشی وثار گندی وثار بذگشی۔
میر گل خان کو اُس نے ناول میںنورا بنا تو دیا مگر پورا پیش لفظ اِسی بات پہ لکھ مارا جس میں اٹھارہ سو بار پوچھا کہ یہ نورا کون ہے ؟۔بھئی آپ نے ہمارے آدمی کا نام بھی بدل لیا اور پھر پوچھتے بھی ہم سے ہوکہ یہ کون ہے ؟ دیدہ دلیری کی حد ہے۔ شکر کروکہ قبائلی بلوچستان میں نہیں ہو ورنہ بتادیتے کہ ایک مرحوم کا نام بدلنا کیا ہوتا ہے!۔ وہی روایتی فلسفیانہ گنجلک سوالات۔
منیر جان اپنی خوبصورت ترین کیفیت نگاری میں بے شمار صفحے میر گل خان کے آبائی گاﺅں اور اس کے اطراف کے بارے میں قربان کردیتا ہے ۔ جڑی بوٹیاں، مال مویشی ، بارش پانی، گھر اور کھنڈر ، پہاڑ اور سرحدات …….. غیر ضروری مگر اس قدر خوبصورت کیفیت نگاری ہے، اس قدر جمالیات بیانی ہے کہ بندہ حیران رہ جائے۔ شام کا وقت، سورج غروب ہورہا ہو اور وہاں سے بھیڑ بکریوں کے ریوڑ گاﺅں کی طرف آرہے ہوں۔ کیا منظر نگاری ہے۔ بھئی بھیڑ پال معاشرے کا اپنا ایک حسن ہوتا ہے، دیہی زندگی کی اپنی ایک دلکشی ہوتی ہے۔اور اِس دفعہ منیر احمد نے اس دلکشی کو واقعی دلکش انداز میں لکھا ہے۔
منیر بادینی ہم سب بلوچوں کی طرح اسی بات پہ مصمم ہے کہ بلوچ ثقافت کی کسی بھی بات پہ سر سری گزرا نہیںجاسکتا۔ وہ ناول میں ایک جگہ مرشد کے دربار کی زیارت کے منظر نامے میں پھنس جاتا ہے۔ ہم نے بہت دھکے دےے مگر منیر کی گاڑی میں تو گویا فور بائی فور ہے ہی نہیں۔ وہیں پیر کے دربار کی دلدل میںپھنسی رہی۔ سیاہی کی پوری بوتل چٹ کرکے ، ہم قارئین کی طرف سے اپنے اپنے پیروں ولیوں کو پکارنے کے بعد بالآخر وہ کہیںپیر کے دربار کی تفصیلات سے باہر نکل پاتاہے۔( گل خان کو پس منظروں کے تذکروں میں گم کردیا جاتا ہے )!۔
اُس کے ناول کا کمپوٹر ایک اور جگہ بھی دیر تک ہیلڈ رہا ۔ نورا اپنی لڑکپن میں ہوتا ہے تو دوسرے لڑکوں کے ساتھ اپنی بہادری کی ہمسری کی کوششیں کرتا ہے ۔رات کے وقت ”حضرتِ چلہ کش “کے گنبد میں نوراکا اکیلے جانا ایک چیلنج ٹھہرتا ہے۔تاریکی کا خوف تو بہت دہشتناک ہوتا ہے۔پرومی تھی اَس کی عظمت کا اندازہ ہی اُس وقت ہوتا ہے جب آپ کو اندھیروں کا سامنا ہوتا ہے۔آسمان کی اتھاہ تاریکیوں نے یونانیوں اور ہندوﺅں کے اساطیر کو پناہ دےے رکھی ہے، زمین پہ فکری اور طبعی اندھیروں نے ہی جِن، دیو، اور بلا پال رکھے ہیں۔ ایک روشنی ہو تو انسان کتنی فرضی بلاﺅں سے ڈرنا چھوڑ دے!! ہمت و جرات کو اکٹھا کرکے بالآخر نوراجب رات کو اُس مقبرے میں جاتا ہے تو لگتا ہے اس نے ایک شمسی عہد سے دوسرے سیارے کے مدار میں پھلانگا ہو۔ بے انتہا خوشی، بے انت انبساط …….. مگر دوسرے لڑکے تو ثبوت مانگتے ہیں۔ اُسے دوبارہ جانا ہوگا اور ثبوت کے بطور وہاں کوئی چیز رکھ کر آنا ہوگا۔ کتنی حسین، مگر کھردری ہے بلوچ تربیت!!
منیر کبھی کبھی بہت ہی ورجن خیالات تخلیق کرتاہے۔ ایسے کہ اُسے پڑھ کہ لطف آجائے ۔بھلا کس بھیڑ پال بلوچ کو دودھ کو لسی بنانے والے مشکیزے ” ہینز“ سے واسطہ نہ پڑا ہوگا۔ مگرشعری یا فنی تخلیق اور لسی سے مکھن تخلیق کرنے کی باہمی مطابقت بھلا کبھی کسی کے ذہن میں آئی؟۔ مکھن نکالنے والی معمر عورت کے منہ سے اس بے مثل تخلیق کار کے نکلنے والے یہ جملے تو دیکھو!
” او مناں ہمے گمان بیت کہ تئی ہمے حرفہ لفظ ہم چومنی ہیز کئے شیرانیں…….. کہ منی کمال ایشیں کہ من وھدے ہیز کہ منتیں گڑا دمانی تہا نیمگ در کئیت۔ گڑا منی شنکوچے من تراجست کنیں کہ تو وتی دلئے ہیز کا چوں منتے کہ اچ ایشی تئی لفظانی رد ا کتارے درکئیت …….. انچش چشکہ منی ہیز کئے منتگئے تہا نیمگ درکئیت!“۔کمال آئیڈیا ہے۔
وہ ایک جگہ بھیڑ وںپر سے سالانہ پشم کٹائی کی تقریب کا تذکرہ کرتا ہے۔ اُسے بلوچی میں ”چین“ کہتے ہیں۔ یعنی پشم کی سالانہ کٹائی۔ اور ہمار ا خیال تھا کہ چین بس چین ہوتا ہے اُس کے ساتھ کسی سابقہ لاحقہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ مگر منیر جان اُسے ” میش چین“ کہتا ہے۔ (بھیڑوں کی پشم کٹائی)۔ میں حیران ہوں کہ بھیڑوں کے ریوڑوں کے ماسوااور کونسا جانور ہے جس کی ہم بڑے پیمانے پر چین کرتے ہیں؟۔ صرف بھیڑوں کی۔اس لےے کہ بکریاں ریوڑ کی صورت بہت کم ہیں۔ اُن کے لےے تہوار و جشن نہیں ہوتا۔
البتہ ، چین کے ساتھ ” آسکہ چین“ کبھی کبھی استعمال ہوتا ہے۔ مگر وہ معنیٰ دیتا ہے : انہونی، نا ممکن ۔ ”آسک “بلوچی میں ہرن کو کہتے ہیں۔ اور ہر ن پر پشم بڑھتا ہی نہیں کہ اس کے چین کی نوبت آجائے۔لہٰذا جو بات نا ممکن ہو اُس کے لےے بولیں گے کہ ” آسکہ چین “ کے موسم میں وہ کام ہوگا۔منیر اپنا ” میش“ ہٹادواُسے ٹھیک کردو۔
اسی طرح ایک اور لفظ پر میں حیران ہوا۔ منیر نورا یعنی گل خان کے بچپن میں اُس کی ماں، اُس کی واحد بہن صاحب خاتون اور ماں جیسی معمر نوکرانی ،ماہو کا تفصیلی ذکرکرتا ہے۔ وہ گل خان کے اولین سفر کا تذکرہ کرتا ہے جب اُسے تعلیم کے لےے کوئٹہ، قلات اور پھر مستنگ تک لے جایا جارہا ہے۔ الوداعی لمحوں میں منیر وہ متحیر کرنے والا لفظ استعمال کرتا ہے۔ مُشغ بلوچی میں، مَلنے،مالش، کو کہتے ہیں۔ مثلاًتیل ملنا ۔ مرہم ملنا۔ مگر منیرماں کی طرف سے سفر پرجاتے اپنے بچے( گل خان ) کے سر پر قرآن شریف گھماتی ہے تو منیراُ سے یوں لکھتا ہے ” آئی ماس قرآن شریفا آئی سرامُشت“۔ میں نے حیرت میں دیگر بہت سے نوشکی والوں سے پوچھا تو انہوں نے تصدیق کی کہ سر پہ قرآن مجید پھیرنے ( یعنی قرآن کی امان میں دینے) کے لےے مشرقی بلوچی کے برعکس رخشان میں یہ لفظ ” مُشغ “ کے بطور استعمال ہوتا ہے ۔بلوچی زبان کس قدر متنوع اور امیر ہے۔
ہمیں معلوم نہ تھا کہ گل خان نے چھوٹی عمر میں مشہد نا جنگ نامہ ( میر صاحب کا اولین شعری اور واحد براہوئی شعری مجموعہ) کیسے لکھا ۔منیر نے ہمارا مسئلہ حل کردیا ۔ وہ بتاتا ہے کہ گل خان کی بستی میں زمین پر پتھروں سے ایک دائرہ بنا ہوا تھا۔ وہاں سے گزرتے ہوئے ہر شخص دعا فاتحہ کرتا گزر جاتا تھا۔ اُسے ” نصیر خانہ مسیت“ کہتے ہیں۔ نصیر خان وہی خان تھا جس نے ہمارا نام مشہد تک پہنچایا تھا۔ گل خان نے اُسی مسجدسے منسوب نصیر خان نوری اور مشہد جنگ کے بارے میں اپنے بزرگوں سے سن رکھا تھا۔ کہتے ہیں کہ مشہد کے راستے پر نصیر خان نوری نے گزرتے ہوئے تین دن تک یہاں قیام کیا تھا۔اور اس جگہ نمازیں پڑھی تھیں جسے پتھروں کے دائرے سے مسجد بنایا گیا۔(اس بیان کی تصدیق بھی ضروری ہے ۔ اس لےے کہ گل خان نے اُس کتاب کے پیش لفظ میںکچھ اور طرح سے بات کی ہے)۔
بادینی صاحب نے اپنے ناول میں میر گل خان نصیر کی سامراج دشمنی کے جذبات کو مستنگ ہائی سکول سے پروان چڑھتے دکھایا۔ وہاں سینئر طلباسٹڈی سرکل طرز کی خفیہ محفلیں کرتے تھے اور انگریز کی سامراجیت کے خلاف گفتگو کرتے تھے۔
خان ِ کلات کی ملازمت کے سلسلے میں پسنی کے اندر گل خان ایک اور تبدیلی سے گزرا۔ اب وہ ملاّ پازل ، قاسم ، جام درک اور مستیں توکلی کی شاعری کے بارے میں جاننے لگا۔ یہ بذاتِ خود بہت بڑی تبدیلی تھی، خیالات میں ، شاعری کے اصناف کی ورائٹی سے متعلق جانکاری میں اور بلوچی کے مختلف لہجوں سے آشنائی میں۔
……..اورپھر میر گل خان کی شادی ہوجاتی ہے وہیںمکران میں۔ اوربقول منیر اُس کے اپنے آبائی علاقے کی ”پترکیں جنک، ماہکانی کہنہ لتیں بیک اور کاگدی ایں لنٹ اور آھوئیں چم، اور یہاں کی مندرکیں جنک“ بس دیکھتی رہ گئیں۔
اسی طرح بزنجو صاحب ( ناول میں شاہ داد) گل خان پر بہت اثرات ڈالتا ہے۔ وہ اُسے ظلم ، بے انصافی اوراستحصال کے بارے میں بتاتا ہے۔ گل خان پہلی بار بزنجو صاحب سے سوشلزم اور کمیونزم کے بارے میں جان جاتا ہے۔وہ اس نظام کا قائل ہوجاتا ہے اور پھر ساری زندگی سوشلزم کو ہی اپنے سماج کے لےے نجات کا واحد راستہ قرار دیتا ہے۔ گل خان ( نورا) قومی اور انسانی برابری کے حقوق کو جائز راستہ سمجھتا ہے۔
یہاں آکر ناول میں ایک اورواقعہ ملتا ہے جسے ترجمہ کرنا بہتر سمجھتا ہوں:
” نورا تار کو پڑھنے لگا اور اس کے ہاتھ کانپنے لگے اور کہدانے جلدی میں پوچھا: ” خیر ہے واجہ؟“۔
اور نورا اپنے آنسو قابو کرتے ہوئے بولا
”کل صبح شال میں بڑا زلزلہ آیا جس میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ہلاک ہوگئے ! …….. اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس میں ہمارے دکھ درد دور کرنے والے اور ہمارے درد وں کی دوا کرنے والے اور ہمارے سروں کا سایہ اور راہنما پیارا شہک مگسی ( یوسف عزیز مگسی) بھی فوت ہوگیا۔
” پھر کچھ وقت تک نورا کچھ نہ بولا اور تار کو تہہ کرکے اپنی جیب میں ڈال دیا۔ اور پھر اپنے گھر روانہ ہوا۔ اُس نے کہدا آسا کلمتی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا :
” آج ہمارا وطن سمجھو یتیم ہوگیا!“ ۔ اور اُس رات نورا کو دیر تک نیند نہ آئی کہ واجہ شہک ، نامدار بلوچ کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آتا رہا۔اور وہ نہیں جانتا تھا کہ کس طرح اپنی توجہ ہٹائے “۔
منیر جان ہمارے ایک اور قومی راہنمااور مارکسسٹ دانشور لالا غلام جان شاہوانی ( ناول میں علم خان شاہوانی) کا تذکرہ بھی کرتا ہے اور گل خان کے ساتھ اُس کی دوستی اور فکری ہم آہنگی کی باتیں لکھتا ہے۔
آگے چل کر نا ول ہمیں بتاتا ہے کہ دوسری جنگِ عظیم میں گل خان اور اس کے رفقا ہٹلر کے سخت خلاف ہیں۔ وہ اُن لوگوں کا ساتھ نہیں دیتے جو انگریز سے آزادی کی جنگ میں ہٹلر سے مدد کی امید رکھتے تھے۔
گل خان سامراجیت کو خوب سمجھتا تھا۔ وہ ہندوستان کی تحریک آزادی اور گاندھی سے ہمدردی رکھتا تھا۔ وہ بزنجو صاحب کے ساتھ دہلی جاتا ہے۔ لیاقت علی ، نہرو سے ملاقاتیں اور پھر بنگال کے کمیونسٹ راہنما جیوتی باسوسے ملاقاتیں……..بزنجو صاحب اپنے کمیونسٹ دوستوں سے گل خان کی واقفیت اور دوستی کراتا ہے۔(یہ ملاقاتیں فکشن ہیں یا حقیقت، منیر جان سے پوچھوں گا ضرور۔ اُس وقت تک آپ اُنہیں درست نہ سمجھیں)۔
پھر منیر جان ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر گل خان اور بزنجو کو لاہور میں دکھاتا ہے جہاں سے بلوچستان آنے کو ریل وغیرہ میسر نہیں۔ بالآخر وہ ایک مال گاڑی میں لگی دو مسافر بوگیوں میں کسی طرح جگہ پاتے ہیں اور روہڑی میں ایک اور مال گاڑی میں بیٹھ کر اپنے وطن سبی آجاتے ہیں اور وہاں سے کوئٹہ پہنچتے ہیں۔جہاں گل خان کو پتہ چلتا ہے کہ اس دوران اُس کا والد فوت ہوچکا ہوتا ہے، نابینا ماں بیمار ہوتی ہے اور بہن کی شادی ہوچکی ہوتی ہے …….. بلوچستان کے لےے اُس کے بیٹوں نے کیا کیا دکھ جھیلے، مصیبتیں اٹھائیں۔
…….. اور پھر گرفتاری۔ کس کی طرف سے؟، نہیں نہیں بھئی انگریز کی طرف سے نہیں ۔اُسی خان کی طرف سے جس کا وہ پرسنل سیکریٹری رہاتھا۔ وجہ؟۔” گل خان ریاستِ کلات میں ایک کمیونسٹ انقلاب لانا چاہتا ہے“۔……..ہے نا مضحکہ خیز بات ؟۔ مگر ہم انہی مضحکہ خیزیوں کے سائے میں پل کر جوان اور بوڑھے ہوتے رہے ہےں۔…….. دو نسلوں سے ۔
اور پھر یہ ناول چھلانگیں مارتا ہوا آگے بڑھتا جاتاہے۔ بلوچستان دھکتے انگاروں کی سرزمین…….. بہت کم تبدیلیاں …….. وہی یکسانیت، مندے دہاڑے…….. نواب نو روز خان، ماتم۔ نیپ۔ون یونٹ توڑ دو کی نذر ہوگئی زندگی۔ گرفتاریاں رہائیاں شاعری…….. اِس بڑے انسان کے تو صرف جیل کے تیس سا ل ہیں۔ کون اُتر سکتا ہے بیان کرنے کے اِس سمندر میں، اور وہ بھی ایک بہت چھوٹی سی کتاب میں؟۔
اور آخری دِن تو دکھ کے تھے، دوستوں ہمسفروں سے راہیں جدا ہونے کا دکھ ، تنہا ہونے کا دکھ، زمانے بھر کے طعنوں کا دکھ……..
مگر، دکھوں تکلیفوں محرومیوں کے باوجود منیر جان کے الفاظ میں……..” نورا آج چکلی کے قبرستان میں دفن ہے ، مگر اس کے فن کی خوشبو ہر سُو بکھررہی ہے“۔……..اور ہم سو سال بعد اُس کے گیت، اُس کے جیون گیت ہزار بازگشتوں میں دوہرارہے ہیں۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *