Home » شیرانی رلی » نظم ۔۔۔ سحر علی بلوچ ۔ گوادر

نظم ۔۔۔ سحر علی بلوچ ۔ گوادر

(چاندنی ڈھل گئی جیون کے کچّے ریتوں میں)
یہ مر حلے زوال حد پار کر چکے ہیں
آنکھیں کب سے
کترانے لگیں نیند کی سر حد پار کرنے میں
رات بارات لے کے نکلی ہے
ظلمتِ شب کی
مُر جھائی شامیں سو کھ کر ٹوٹی ہیں
آسمان بے لباس ہوگیا
ریگزار کا نٹوں سے
یہ روگ الجھتا کیوں جارہا ہے؟
آنکھیں جھیل بنانے میں مصروف ہیں
دیکھ
پیڑوں نے برف کے گروندے بنانے شروع کردئیے
بادلوں کا آنچل لہراتے پانیوں میں سوکھ گیا
رات تو گزرگئی!
اب تمیں کس سزا کا ڈر ہے؟
دن داستانے جھاڑنے لگا
تم کس پہچان کو مانگتے ہو؟
احساسات کے سارے ورق کُھل گئے
اب کلامی کا ہُنر سیکھ لو
رات کے پلکوں پہ ستارے بُن
جسکی تمھارے جیون پر دستک ہے
تم سُن سکتے ہو!
نغمہ و ساز
دھنک دھنک چھپا رے ہیں پُرانی یا دوں کو
کانٹوں کے سارے اُدھار ادا کرچکی ہے
گھونگی رات
تم کھینچے جا رہے ہو بند روشنی میں
یہ رات کی سازش تو نہیں
ہوائیں تیر ے کاندھوں پر شام و سحر کی لالی بھر رہے ہیں
تو
ڈوب رہا اک نئی ضیا میں
ابھی تم زند ہ ہو

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *