Home » قصہ » سونے میں اُگی بھوک ۔۔۔ آغا گل

سونے میں اُگی بھوک ۔۔۔ آغا گل

الیکشن کے ہارنے کے بعد سے الحاج میر پاسوند خاں اپنے بیٹے ڈاکٹر شیر دل کی تجویز کو سنجیدگی سے لینے لگا۔ اپنی مقبولیت کے لئے قریب کے قبیلے سے جھگڑا کیا اور اپنے قبیلے کو مدد کے لےے پکارا۔ قبرستان میں ایک نیا مزار بنا کر اس پہ متولی بٹھادیا۔ لوگ مزار پر آنے لگے۔ جہاں پاسوند نے سبیل بھی لگا رکھی تھی۔ روٹیاں بھی مفت بٹتیں۔ پہلو میں مسجد بنا دی۔ جہاں ملاّں جمعہ کے روز بھی پاسوند خان کی خدمات کا ذکر کرتا ۔ شیر دل کے کہنے پہ ہی ایک ہسپتال قائم کردیا۔ جس پہ الحاج میر پاسند خان کا یہ بڑا سا بورڈ لگا دیا۔ زیادہ روپیہ تو این جی اوز او رصوبائی حکومت سے لیا تھا۔ مگر ہسپتال اسی کے نام سے جانا جاتا۔ علاقہ بھر میں بڑا نام کمایا ۔ لوگ انصاف مانگنے مزار پہ جاتے اور نمک بطور خردہ تبر کاًلے جاتے۔ علیؓ اور نمک کے اعداد برابر ہیں ۔ لہٰذا مٹی کو بطور خردہ استعمال کرنے کی صدیوں پرانی روایت ختم کردی۔ لوگ باگ بھی خوش رہنے لگے۔ پہلے تو داد فریاد کا یارا نہ تھا۔ اب مزار پہ وہ رات دن فریاد کرسکتے تھے۔ مرادیں مانگ سکتے تھے۔ ولی بابا سے لڑ سکتے تھے۔ ضد بھی کرسکتے تھے۔ درگاہ کا دراوزہ سبھی کے لےے واتھا۔ چاہے چھوٹی قوم والا ہو یا بڑی قوم والا ۔ ہسپتال چونکہ ریکوڈیک میں تھا۔ ڈاکٹر آنے کے لےے تیار نہ ہوتے ۔ ڈاکٹروں کی من پسند تنخواہوں کی ادائیگی بھی دشوار تھی ۔ علاقہ بھر میں اس قدر غربت تھی کہ تجہیز و تکفین کے اخراجات بھی گلے پڑ جاتے۔ زمین تو شکر ہے کہ قبر کے لےے مفت مل جاتی مگر دوران زچگی اموات ہوتیں تو بدنامی کا خدشہ ہوا۔ مڈوائف اور دائی کی بجائے سنجیدگی سے گائنا کالوجسٹ کی کمی محسوس کی گئی ۔ باقی تو سارے جی ۔ پی ڈاکٹر تھے جو آر ایم پی کو بطور ڈگری ہی اپنے نام کے ساتھ استعمال کرکے مریضوں کو متاثر کرتے۔ شیر دل دوران تعلیم کئی برس ڈاکٹر غزالہ کے حسن جہاں سوز سے متاثر رہا۔ وہ اس پہ یوں تو مرتا تھا۔ مگر بغیر لائسنس گاڑی چلانا چاہتا تھا۔ غزالہ کے سبب الیکشن میں تو چار ہی ووٹ پڑے۔ اس کا والد شیخ اکرم ریٹائر ہوچکا تھا۔ ایک طالب علم بھائی اور والدہ ۔ پھر نہ جائیداد اور نہ ہی دولت نہ ہی قوم قبیلہ کہ سماجی دباﺅ یا قبائلی جھگڑوں میں کام آئے۔ ایسی خوبصورت لڑکیاں گواڑخ کی مانند دور سے ہی دیکھ کر گزر جانے کے قابل ہوتی ہیں۔غزالہ بھی طرح دے جاتی مسکرا کر بات ٹال دیتی کبھی جمعہ خانی کرتی۔ شادی کے لےے البتہ وہ آمادہ تھی ۔ یوں بھی اسے شادی تو بہر حال کرنا تھی۔ لڑکیاں بھی چمکتی دمکتی کاروں کی مانند کراچی پورٹ پر زیادہ دن بہار نہیں دکھا سکتیں۔ انہیں بھی رجسٹریشن کراکے کسی مالک کے پاس جانا ہوتا ہے۔ وہ یوں تو شیر دل کو پسند کرتی تھی۔ طویل قدّ گہری سیاہ آنکھیں ، مردانہ و جاہت کا پیکر۔ بیوی بن کر تو وہ بخوشی ریکوڈیک جانے کے لےے آمادہ تھی۔ حالانکہ اس آگ اگلتی دھرتی پہ جہاں بھوک کا راج ہو اور ریتیلی ہوائیں صدیوں سے مجلسیں پڑھ رہی ہیں ۔ جیون بیتانا بہت کھٹن تھا مگر شیر دل جیسے اچھے انسان کے لےے تو یہ قربانی دی جاسکتی تھی۔
شیر دل کے اصرار پہ بھی وہ ریکوڈیک کے ہسپتال میں ملازمت کے لےے تیار نہ ہوئی۔ ہاں ہر ماہ ایک ہفتے کے لےے آنے کا وعدہ کیا۔ یوں بھی وہ اپنے کلاس فیلو سے شادی تو کرنا چاہتی تھی ۔ مگر اس کی ملازمہ بننے میں ذرا سبکی سی محسوس ہوتی ۔ خیراتی ہسپتال تھا۔ بکھری بکھری آبادی۔ جس کی غربت کا رونا جنرل رونلڈ ڈائر نے بھی رویا ۔ حالانکہ وہ انہیں قتل کرنے مفتوح بنانے آیا تھا۔ مگر ان کی مہمان نوازی اور سخت کوشی کی تعریف کے لےے بغیر نہ جاسکا۔ ایمر جنسی کسی وقت بھی ہوسکتی تھی۔ مریضہ کسی وقت بھی لائی جاسکتی تھی۔ ایسے میں گائنا کالوجسٹ کی عدم موجودگی پاسوند خان کی مقبولیت کا گراف گرادیتی۔ ایسا خطرہ وہ مول نہیں لے سکتا تھا۔
اور پھر یوں ہوا کہ غزالہ اپنے طور پر ہی کار میں چلی آئی۔ اب تک اسے سرکاری نوکری نہیں ملی تھی ۔ ادھر ادھر پرائیویٹ ہسپتال میں کام کررہی تھی ۔ کرائے کی کار میں یوں چلے آنا ایک اچھنبا تھا۔ غزالہ بہت نروس سی اور دکھی دکھی لگ رہی تھی۔ آنسو پینے کی کوششیں میں وہ مزید خوبصورت لگتی۔ جیسے آب گم کے بعد اچانک ہی پانی ظاہر ہونے لگتا ہے۔ دریائے بولان اس کی آنکھوں کے پیچھے کہیں چھپا چھپا سا تھا۔ شیر دل بہت خوش ہوا اس غیر متوقع آمد پہ اسے خوشگوار حیرت بھی ہوئی ۔ غزالہ نے بتلایا کہ وہ ہسپتال میں کام کرنے کے لےے تیار ہے۔ مگر اسے پچیس لاکھ روپیہ فوراً ادا کیا جائے۔ یہ رقم اس کی تنخواہ سے وصول کی جائے یہی کوئی تین برس میں۔ یہ مطالبہ تو بڑا تھا۔ مگر شیر دل تو دل کی ایک دھڑکن پہ خزانہ لٹانے والا انسان تھا۔ پاسو خان کے پاس تو ڈرگ کا روپیہ تھا۔ کارواں سے اس کا تعلق تھا۔ کارواں کو افغانستان سے ایران میں بہ حفاظت داخل کرنے کی ذمہ داری الحاج ہی کی تھی۔ یہ کارواں افغانستان سے چلتا۔ بلوچستان سیستان سے ہوتا ہوا ایران میں داخل ہوتا اور ترکی تک مال پہنچاتا جہاں سے نئی پارٹی وصول کرکے یورپ کا رخ کرتی۔ بظاہر یہ ایک ناروا مطالبہ تھا۔ مگر غزالہ کے مرتعش ہاتھوں اور کپکپاتے لبوں کو دیکھ پاسوند خان کا بھی دل پسیج گیا۔ غزالہ نے پیشکش بھی کی کہ وہ اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دے گی کہ تین برس وہ ہسپتال میں خدمات انجام دے گی۔ چھٹی بھی نہیںکرے گی۔ اور رقم کی رسید بھی دے گی۔ مگر پاسوند خان نے انکار کردیا ۔ وہ ایسی لکھا پڑھی تو ہین آمیز سمجھتا تھا او روقار کے منافی!
شیر دل نے کریدنا چاہا کہ اگر کوئی لڑائی جھگڑا ہے۔ کسی قسم کا مسئلہ ہے تو اس کے مسلح لوگ موجود ہیں ۔کوئی بیماری ہے تو بھی بتلائے مگر غزالہ نے غیر ضروری سوالوں سے منع کردیا ۔ کرائے کی کار کو شیر دل نے رقم اد اکرکے رخصت کردیا۔ جبکہ غزالہ ان کے ہاں ہی ٹھہری۔اگلے روزشیر دل اپنی کار میں اسے کوئٹہ لے آیا۔ اور بینک سے رقم دلوادی ۔ شیر دل کے محافظ یوں تو ساتھ ساتھ ہی تھے۔ مگر غزالہ نے گھر پہ گن مین کی موجودگی قبول نہ کی۔ شیر دل حیران سا چلا آیا۔ اس کے من میںہزارو ںسوال تھے۔ جنہیں غزالہ کی حالت کے سبب وہ پوچھ نہ پایا۔
ہفتہ بھر میں انہیں اطلاع ملی کہ غزالہ کا اکلوتا بھائی قتل کردیا گیا ہے ۔ شیر دل کے سارے گھرانے کو دھچکا لگا۔ کیونکہ مختصر قیام میں اس نے سبھی کا دل جیت لیا تھا۔ ان کے پہنچنے تک تجہیز و تکفین ہوچکی تھی۔ اغواءبرائے تاوان میں مارا گیا تھا۔ رقوم وصول کرکے بھی اسے مار ڈالا گیا۔ شائد مقتول نے انہیں شناخت کرلیا تھا ۔ ایک وزیر کا نام لیا جارہا تھا۔ جس نے سورج گنج بازار سے اغواءکرایا۔ جبکہ آئی جی پولیس نے فریاد و نشاندہی کے باوجود ریڈ کرنے سے انکار کردیا۔ بلکہ الٹا انہیں آنکھیں دکھائیں کہ ثبوت پیش کریں۔ وہ بہتی گنگا پہ ہاتھ دھورہا تھا۔ عقلمند اور عاقبت اندیش افسر تھا۔
اور پھر ایک روز غزالہ خود ہی کرائے کی کار میں چلی آئی اس کے ساتھ اپنا آپریٹس بھی تھا۔ یوں تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا مگر پاسوند خان نے رقم معاف کردی اور ڈیوٹی پر لینے سے معذرت چاہی۔
” اس وقت تمہارے والدین کو تمہاری زیادہ ضرورت ہے۔     ہم تو آگ اگلتی دھرتی پہ رہتے ہیں تم واپس چلی جاﺅ ۔    پچیس لاکھ سمجھو میں نے تحفہ دیا تھا“۔
لیکن ضد کے باوجود غزالہ انکاری ہوگئی۔ ان کے گھر میں بھی رہنے سے انکار کردیا ۔ بلکہ ڈاکٹروں کے میس میں خواتین سٹاف کے حصے میں ایک کمرے میں رہنے لگی۔ اور کامن کچن سے کھانا کھانے لگی۔ اس کے والد نے نوشکی۔ دالبندین اور تفتان میں ملازمت کی تھی۔
تربت اور گوادر میں بھی رہا ۔ وہ بلوچی کچھ کچھ بول بھی لیتا۔ ماضی الضمیر تو بیان کر ہی دیتا۔ جبکہ غزالہ برائے نام ہی سمجھ پاتی۔ اس کی مدد کے لےے شہ بی بی مڈ وائف موجود رہتی۔ جو درمیان میں ترجمان کا کام کرتی۔
غزالہ نے دن رات محنت کی۔ دن میں اُسے آنسو پیتے تو ڈاکٹر دیکھتے۔ مگر روتے کبھی کوئی بھی دیکھ نہ پایا۔ آپریشن ڈے کی طرح اس نے رونے کے لےے بھی وقت یعنی رات مقرر کررکھی تھی۔ بقول شہ بی بی یوں آنسو بہاتی کہ تکےے بھیگ بھیگ جاتے۔
کبھی شیر دل ایسے میں دلاسہ دلاتا تو وہ اور مضطرب ہوجاتی۔
” موت کے تین برے سوداگر ہیں الفرڈ نوبیل۔ آئین سٹائن اورمیخائل کلاشنکوف“۔ شیر دل اسے بولنے کا موقع دیتا تاکہ کیتھارس ہونے سے اس کا دل ہلکا ہو۔ وہ شام میں اس کے کمرے کا دروازہ بھی نہ کھٹکھٹاتا بلکہ کامن روم میں آکر پیغام بھجوایا کرتا۔
” تم جانتے ہو کہ زیورچ میں ایک ادارہ ڈگنی ٹاس جو ڈاکٹر کی مکمل رپورٹ اور کاغذات مکمل کرنے کے بعد لا علاج مریضوں کو ایک انجکشن کے ذریعے آسان موت دیتا ہے۔ کہیں کہیں نیند کے پچاس کیپسول ایپل سوس میں گھول کر پلائے جاتے ہیں“۔
شیر دل جانتا تھا ” مگر یہ تو چند ہی ملکوں میں ہے ۔ میں ذاتی طور پر اس کا مخالف ہوں۔ انسانی زندگی بڑی ہی قیمتی ہوا کرتی ہے “۔
غزالہ جذباتی انداز میں بحث پہ اتر آتی۔” یونانی کتنے اچھے تھے۔ سقراط کو بھی آرام دہ موت دی۔ باتیں کرتا کرتا خاموش ہوگیا“۔
ایسے بے ربط جذباتی اور غیر عقلی گفتگو سے ماحول بوجھل ہوجاتا۔شیر دل کو بہت ہی دکھ ہوتا۔
” ہاں! کوئی پانچ سو برس قبل سر تھا مس مور نے بھی آسان موت کا تصور دیا تھا“۔
غزالہ ٹوک دیتی ۔” نہیں شیر دل ! یونانی میں آسان کو Eua کہتے ہیں۔ اور موت کو THANATHOS کہتے ہیں۔ جس سے Euthansia بنا ہے۔ یعنی آسان موت ۔ تم جانتے ہو کہ ایک کافر نے مغلوب ہوکر جناب امیر کے چہرہ اقدس پر تھوک دیا تھا تاکہ غضبناک ہوکر وہ اسے فوراً ہی مار ڈالیں۔ یہ الگ بات کہ شیر خدا نے اسے معاف کردیا۔ ایک آسان موت ہمیشہ سے انسان کی خواہش رہی ہے“۔
شام میں تنہائی اور یادوں کی کسک غزالہ کو بیکل کردیتی اور اکثر شیر دل یا اس کے گھر کی خواتین غزالہ کو ملنے چلی آتیں۔ تو غزالہ اپنے دل کے ٹکڑے ان کے سامنے رکھ دیتی۔
” میرے بھائی کا ایک کان اغواءکاروں نے بھجوایا ، پھر ایک انگلی کاٹ کر بھجوادی۔ کاش وہ اور رقم مانگ لیتے اور اسے آرام دہ موت دیتےEuthansiaدیتے “۔ شیر دل کا میڈیکل کالج والا لا ابالی پن ایک پُروقار سنجیدگی میں بدل چکا تھا۔ اس کے چچا جندہ خان اور ماموں سمندر خان نے بھی مشورہ دیا کہ وہ غزالہ سے شادی کے بارے میں سوچے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ آبادکار ہے، لا وارث ہے مگر اتنی اچھی بیوی بن سکتی ہے کہ شیر دل کا ہسپتال اور گھر ہی بدل کے رکھ دے۔ یہ خیال نیا تھا۔قبول کرنے میںکچھ وقت تو لگا۔ شدہ شدہ یہ خبر پسند خان تک بھی پہنچی۔
” ہاں ! ہوتو سکتا ہے ۔ مگر مرد تو چار شادیاں کرتا ہے ۔ غزالہ کے علاوہ ایک شادی اپنے خاندان میںکرے او رایک کسی اور مضبوط قبیلے میں۔ سعودی بادشاہ کو تو دیکھو ہر طاقتور قبیلے میں شادی کررکھی ہے۔ اتنی شادیوں کے باعث ہر قبیلہ ہی اس کا اپنا ہے “۔ شیر دل رفتہ رفتہ شادی کے لےے آمادہ ہوتا چلا گیا۔ شیر دل نے خواتین کے ذریعے شادی کا عندیہ دیا ۔ تو بہت دنوں بعد غزالہ کی آنکھوں میں روشنی آئی اس کا چہرہ کھل اُٹھا۔
” مگر …….. مگر آپ لوگ تو بہت امیر ہیں۔ ہمارا آپ کا کیا میل“۔ وہ ڈوبتے ابھرتے دل سے بولی ۔ یہ گویا اقرار ہی تھا۔ شیر دل کے لےے یہ ایک متوقع جواب تھا۔ شادی کی پیشکش سے غزالہ کی ڈھارس بندھی۔ شہ بی بی نے بتلایا کہ غزالہ کے رونے میں بہت کمی آئی ہے ۔ کبھی کبھار مسکرا بھی اٹھتی ہے ۔ ڈاکٹروں سے ایک آدھ مذاق بھی کرنے لگی ہے۔ کافی اور چائے بھی طلب کرنے لگی ہے ۔ لیکن زبان سیکھنے سے اس نے معذرت طلب کی جو کہ ایک اچھمبا تھا۔
” دیکھو شیر دل ۔ یہ سارے یو ٹوپیا میں رہتے ہیں۔ صدیوں سے بھوک اور پیاس کے مارے ہوئے ہیں۔ کبھی نادر شاہ” چم کش“ بن کر آتا ہے۔ کبھی ڈائر کبھی کرنل ڈیہو ۔کبھی اپنے سپاہی انہیںمارے ڈالتے ہیں۔ یہ مسیحی بّرے ہیں۔ جن کی صرف بلّی ہی چڑھتی ہے ۔ شیر دل نے محبت سے ڈانٹ دیا ۔”غزالہ ! تم کیسی بہکی بہکی باتیں کرتی ہو۔ حالات سے لڑا جاتا ہے “۔
غزالہ بحث پر اترآئی۔” کس چیز سے لڑیں گے ۔ شہ مرید کے اونٹ پہ سوار ہوکر مستیں توکلی کی گٹار سے مسلح ہوکر “۔ شیر دل اس کے درد دل سے واقف تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ غزالہ لڑے جھگڑے خفا ہوجائے مگر نارمل برتاﺅ تو کرے چاہے غصے میں! چاہے قہقہے لگائے۔ مگر عام انسانوں جیسی بن جائے۔ اس کے روےے بدل جائیں۔ سوگوار صحراﺅں کی مانند چپ چپ کیوں رہا کرتی تھی۔ سہمی سہمی ۔ خوفزدہ سی ۔” میری بات سنو غزالہ۔ قومیںPhases میں چلتی ہیں۔ برطانیہ ڈھائی سو برس قبل لنگ ولاش تھا۔ جرمنی بیسویں صدی کے شروع میں سخت مقروض تھا۔ چند سو برس پہلے یورپ اور برطانیہ کے علماءبادشاہوں کے حضور زبردست بحث کرتے کہ ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں۔ ان کے منہ سے جھاگ نکلتی۔ تھوک کے چھینٹے نکلتے ۔ اب یہ سب ایک مسخرا پن لگتا ہے ۔ ہم بھی اس فیز سے نکل جائیں گے۔ ہم نہ سہی ۔ ہمارے بچے“۔
غزالہ نے متعجب ہوکر سوال کیا ” ہمارے بچے کیا مطلب ؟“۔
شیر دل نے قہقہہ لگایا ” ہماری شادی ہوئی تو ہمارے بچے تو ہوں گے ہی اچھا اب ایک کافی تو ہوجائے “۔
کافی کے دوران بھی وہ ضد پہ قائم رہی” یہ سارے شیخ چلی کی مانند خوش ہیں کہ ان کی دھرتی میں سونا ہے۔ ان کے سونے پہ بھوگ اُگتی ہے موت اُگتی ہے ۔یہ عالمی ارب پتی اسی سونے کے لےے جگہ بنا رہے ہےں۔ لاشیں گرارہے ۔ ہر دور میں قابیل سے ہابیل کو قتل کروارہے ہےں“۔
شیر دل نے موضوع بدلنا چاہا ۔ رات ہوتے ہی ریگستان جاگ اٹھے تھے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مٹھیوں میں ریت لےے ہوائیں ہسپتال کے شیشوں سے ٹکرانے لگیں۔” ویسے کافی اچھی ہے۔ اچھی کافی بناتی ہو۔ کبھی تو زمانہ بدلے گا وقت میں روانی ہے ۔Spontaneous ہے اس میںfluxہے “۔غزالہ نے بہت صدیوں بعد قہقہہ لگایا ” تم بھی اسی قوم اسی سوچ کے انسان ہوں۔ میرا پردادا بولان ریلوے بچھاتا آیا تھا تو پٹرویوں کے ساتھ یہی وقت لپٹ گیا۔ میرا دادا ۔ میرے والد اور خود میں۔ میںنہ زبان جانوں گی اور نہ ہی ان سے گفتگو کروں گی صرف علاج ہی کروں گی۔ میں ان کے میٹھے میٹھے سپنے کو ”شک “جیسے کیوں توڑوں“۔
شیر دل کو یوں تو غزالہ کی بات میں سچائی نظر نہ آئی ۔ مگر اس نے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ عورتوں سے بحث کرنا ہی ”گنوکی “ ہے۔
اسی رات بڑی گڑ بڑ ہوئی سپاہی دو زخمی لےے ہسپتال چلے آئے۔
” انہیں گولیاں لگی ہیں۔ ان کے زخموں پر ٹانکے لگادیں مہربانی ہوگئی۔ دور دور تک کوئی ہسپتال نہیں ہے۔ اور ان کا خون تو فوری طو پر بند کردیں۔ ہم نے ان سے پوچھ گچھ کرنا ہے کہیں ختم ہی نہ ہوجائیں“۔ڈاکٹروں نے شیر دل کو بلوا بھیجا کیونکہ ہسپتال کی اوپی ڈی تو دوپہر تک بند ہوجاتی تھی۔ شیر دل دوڑا چلا آیا۔” میرے پاس اتنا بڑا سرجن نہیں ہے ۔ میں تو فیزیشن ہوں“۔افسر مسکرایا ” یہ کوئی تھری پیس سوٹ سینا تو نہیں ہے ۔
چند ٹانکے ہی تو لگانا ہیں۔ پٹی باندھیں خون بند“۔
شیر دل کی معذرت پہ افسر کا رویہ ہی بدل گیا۔” آپ بھی گرفتار ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب میں کوئی سکھر کا پل تونہیں بنوارہا ۔ شرافت کی زبان شرافت سے سمجھیں۔ اتنی ہڑادوڑئی ہے ۔ ہمارے پاس وقت نہیں ہے “۔ تیور بدلتے دیکھ کر شیر دل نے ڈاکٹروں کی مدد سے زخمیوںکو ابتدائی طبعی امداد دی ۔ ٹانکے لگادےے مرہم پٹی کے بعد گلوکوز بھی لگادیا اور خون کے لےے رضا کاروں کو بلوا بھیجا ۔ سپاہیوں کا وارڈ کے گرد پہرہ سخت کردیا۔ اگلی صبح زخمی اس دنیا سے منہ موڑ چکے تھے۔ سپاہیوں نے ان کے جسد اٹھائے اور رفو چکر ہوگئے۔ ان کے جانے کے بعد شیر دل نے ڈاکٹروں کو اکٹھا کیا اور برس پڑا ۔” یہ کیا ہو ا؟ کسی نے ان کے زخم کھول دےے۔ کون تھا وہ ؟ باہر مسلح سپاہی تھے۔ آپ لوگوں کے علاوہ کوئی وہاں جا بھی نہیں سکتا تھا“۔ اس نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر غزالہ بھی رات گئے ان کے کمرے میں گئی تھی ۔ وہ چونک اٹھا۔
” آپ تو گائناکالوجسٹ ہیں؟ آپ کا کیا کام “۔
غزالہ نے نا گواری سے جواب دیا۔
” انسانی ہمدردی کے تحت گئی تھی ، وہ دونوں بے ہوش پڑے تھے او رہر گائنا کالوجست سرجری بھی کرتی ہے ڈاکٹر صاحب میں ان کا چارٹ وغیرہ دیکھ کر لوٹ آئی کیا ہمدردی گناہ ہے ؟“۔
چند ہی روز میں سٹاف یہ واقعہ بھول گیا ۔ یہ بھی محض اتفاق ہے کہ مہینہ بھر بعد وہی بدتمیز سپاہی تین زخمیوں کو لے آئے۔ انہیں بھی گولیاں لگی تھیں۔ مگر خطرناک زخم کوئی بھی نہ تھا۔ نیٹو بور کی پتلی نوکیلی گولیاں بازوﺅں اور ٹانگوں کو چیرتی زخم بناتی گزر گئی تھیں۔ اس بار شیر دل نے بحث نہ کی مگر اگلے روز وہ تینوں بھی دنیا سے منہ موڑ چکے تھے۔ ان کا فسر بہت نراش تھا وہ افسردگی سے چائے پینے لگا۔ ” بولے بغیر ہی مر گئے ڈاکٹر صاحب ۔ پہلے موٹی موٹی طاقتور گولیاں جان لیوا ءہوا کرتی تھیں پھر دنیا بھر میں پتلی نوکدار کم وزن گولیاں بننے لگیں“۔ داکٹر شیر دل نے دوپہر کے کھانے کا بھی انتظام کررکھا تھا۔ سپاہیوںکے پاس کافی وقت تھا۔ شیر دل کی دلچسپی اور مہمان نوازی سے متاثر ہوکر وہ دوستانہ انداز میں وضاحت کرتا چلا گیا۔” پہلے گولیوں سے دشمن سپاہی مر جاتے مگر دشمنوں کی پیش قدمی جاری رہتی۔ کیونکر مردہ کو صرف دفن کرنا ہوتا تھا۔ان پتلی گولیوں کے باعث دشمن سپاہی زخمی ہوتے ہیں۔ عموماً مرتے نہیں۔ جس کے سبب وختا پڑتا جاتا ہے ۔ سرجن اپریشن تھیٹر ۔ زخمیوں کے وارڈ ۔ دوائیاں ۔ دشمن کو اپنی جان کی ہی پڑ جاتی ہے “۔ شیر دل نے اعتراف کیا ” میں یہ باتیں نہیںجانتا تھا“۔
افسر بہت خوش ہوا ۔” آپ دیکھیں یہ 222 بور223 بور یا پھر رائفل 5.56 یا 7.62 کیا پتلی پتلی گولیاں ہیں۔ جیسے لیلیٰ کی انگلیاں۔ کبھی عشق کیا ہو آپ نے تو لیلیٰ سمجھ آئے گی “۔ وہ خوش دلی سے ہنسنے لگا۔ دوپہر کا پُر تکلف کھانا کھا کر وہ جسد خاکی لے کر چلتے ہیں۔” افسوس پوچھ گچھ سے پہلے ہی اگلی دنیا میں روپوش ہوگئے۔ خیر آپ بڑے زندہ دل انسان ہیں ہم دوبارہ بھی آئیں گے“۔ شیر دل نے اثبات میں سر ہلایا۔” ضرور آئیں ۔ مگر بغیر زخمیوں کے“۔ ایک مشترکہ قہقہہ بلند ہوا۔ اور آپ بھی زخمیوں کو زندہ ہی واپس کریں گے۔ حیرت ہے یہ کوئی 12.7 کی گولیاں تو نہیں کہ مار ہی ڈالیں ۔ شائد خون بہنے سے مر جاتے ہوں بری مایوسی ہوتی ہے “۔ اسی شام کافی پیتے ہوئے شیر دل نے غزالہ سے کہا کہ کل وہ چلی جائے والدین سے ملے۔ چار ماہ سے گھر نہیں گئی۔
” اور تمہیں کس کے حوالے کروں؟ “ غزالہ مسکرائی ۔
” ان صحرائی ہواﺅں کے حوالے جو میری اپنی ہیں “ ۔شیر دل نے مختصر سا جواب دیا ۔
” تم بڑے کرب میں لگ رہے ہو کیا بات ہے ؟“۔
شیر دل نے کندھے جھٹکے ” ایسے ہی ۔ کوئی خاص بات نہیں۔ غزالہ کو اس عرصہ میں بہت سے تحفے ملے تھے۔ اگلی صبح گاڑی تحفوں سے بھر گئی۔ سب نے گرمجوشی سے رخصت کیا تھا۔ رات کو اس کے اعزازمیں ڈنر بھی ہوا تھا۔ اگلی صبح وہ گاڑی میں آ بیٹھی تو شیر دل نے اشارے سے ڈرائیور کو دور جانے کو کہا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا۔
” ڈاکٹر غزالہ میں نے اس ایمر جنسی وارڈ میں خفیہ کیمرہ لگوادیا تھا۔ گذشتہ رات آپ نے زخمیوںکے ٹانکے کھول دئیے اور خون بہانے کا انتظام کیا ۔ اوپر سے پٹیاں دوبارہ باندھ دیں۔مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوا ۔ ہمارا ہسپتال زندگی دیتا ہے ۔ موت نہیں۔ دوبارہ آپ آنے کی زحمت نہ فرمائیں“۔ غزالہ کے چہرے پہ صحرا اتر آیا۔ وہ ساکت رہ گئی۔ پھر سنبھل کر بولی۔” میں انہیں آسان موت دیتی ہوں۔ جو میرے بھائی کو بھی نہ مل سکی۔ ان مسخ شدہ لاشوں کی اذیت کون جانے جو صحراﺅں سے ملتی ہیں۔ توتک کے اجتماعی قبروالے وہ 80 انسان کچھ بولے ؟ اورتم مجھے آپ آپ مت کہو کیا میں اجنبی ہوگئی ہوں؟“۔
شیر دل گاڑی سے اتر آیا اور ڈرائیور کو سیٹ سنبھالنے کا اشارہ کیا ۔” خدا حافظ ! پچھلی گاڑی میں گن مین ہیں۔ جو گھر پہنچا کر لوٹ آئیں گے“۔ اس نے لفافہ تھمایا تو غزالہ کو حیرت ہوئی۔
” اس میں کیا ہے “۔ شیر دل نے سرد لہجے میںکہا ۔” آپ کی چار مہینے کی تنخواہ اور پچیس لاکھ روپے میرے والد نے بخش کردئیے تھے“۔ غزالہ نے لفافہ پھاڑ کر پرزہ پرزہ کردیا اور پرزے شیر دل پہ اچھال پھینکے ۔” یہ میرا دل ہے کوئی ریکوڈک نہیں۔ چلو ڈرائیور“۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *