Home » پوھوزانت » آہ…….. پروفیسر عزیز مینگل ۔۔۔ عبدالنافع غیور ایڈووکیٹ

آہ…….. پروفیسر عزیز مینگل ۔۔۔ عبدالنافع غیور ایڈووکیٹ

جب بہار کے دن آتے ہیں تو زمین ہر سمت پھول اُگل دیتی ہے ۔ مسرتیں پھوٹ پڑتی ہیں۔ مگر مسرتوں کا دورانیہ زیادہ طویل نہیں ہوتا جلد دست فنا اُسے اپنی گرفتار میں لے لیتا ہے ۔خزاں کی آمد ہوتی ہے۔ مگر بقا اسے بھی حاصل نہیں ہوئی۔ حیاتِ انسانی بھی اِسی فلسفہ کا شکار ہے۔ لوگ جنم لیتے رہتے ہیں رخصت ہوتے رہتے ہیں لیکن کچھ لوگ فانی زندگی کا مختصر عرصہ یوں بسر کرتے ہیں کہ زمانے کی آنکھ کا تارا بن جاتے ہیں ۔ایسے لوگ آنکھوں سے تو اُوجھل ہوجاتے ہیں لیکن دل کے آنگن میں ہمہ وقت ڈیرے ڈالے رکھتے ہیں۔ یادیں اُن کو بھولنے نہیں دیتیں ۔ وہ ورثہ تاریخ ہوتے ہیں اور ہر دور میں ناقابلِ تنسیخ ہوتے ہیں۔ وہ سرمایہِ حیات ہوتے ہیں ان کے کارنامے بعید از دست ممات ہوتے ہیں ان کے نظریات و خدمات ہمیشہ حیات ہوتے ہیں ۔ زمانہ ان کے افکار سے صدیوں حکمت کے پھول چنتا رہتا ہے ۔ اِن کے نظریہ حیا ت سے کرنوں اصول کشید کرتا رہتا ہے ۔زمانہ اُن پہ احسان نہیں کرتا وہ زمانے پر احسان کرجاتے ہےں۔ پروفیسر عزیز مینگل کا شمار انہی لوگوں کے ہراول دستے میں ہوتا ہے۔ آہ…….. پروفیسر عزیز مینگل …….. آہ…….. لمبا قد، بھاری جسم ، گورا رنگ، درخشاں اور ذہانت سے لبریز آنکھیں چہرے پر متانت اور سنجیدگی کے آثار، عزم پختہ، اور ارادے پائیدار، کم سخن ، پروقار اور بارعب۔سوچی سمجھی بات کہنے کے عادی ، کئی زبانوں پر پوری طرح حاوی پروفیسر عزیز مینگل صاحبِ طرز ادیب ، ہر دلعزیز دانشور( سماجی ، تہذیبی اور ادبی) میں گہرے نقوش چھوڑے۔ پروفیسر عزیز مینگل کی رحلت سے ہمارے علاقائی ادب کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے ہمیں صدیوں اُن کے متبادل کا انتظار کرنا پڑے گا۔ ان کی یاد مدتوں ہمارے حوا س پر دستک دیتی رہے گی ۔ اضطراب و کرب سے برگِ دل لرزتا رہے گا۔ حصارِ حیات سے رخصتی فطرت کا اٹل اصول ہے۔ راہ عدم کے مسافر کو روکا نہیں جاسکتا ہاں اس کے افکار و نظریات کو سینے سے لگایا جاسکتا ہے اس کے افکار کی روشنی میں ہم اپنی مسافت کا راستہ متعین کرسکتے ہیں ۔لہٰذا اس کی رحلت پر دل گرفتگی کی بجائے صبر و تحمل کا سہارا لیا جائے تو اچھا ہے۔ موت ایک حقیقت ہے اور موت کا مزہ ہر ایک نے چکھنا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے بارے میں کبھی انسان سوچتا ہی نہیں کہ وہ بھی ایک دن اِس دُنیائے فانی کو چھوڑ کر چلا جائے گا۔ پروفیسر عزیز مینگل بھی ایسے ہی لوگوںمیں سے ایک تھے۔ جب6نومبر کو عزیز مینگل کی نا گہانی موت کی خبر وحشت اثر بن کر کانوں سے ٹکرائی تو دِل ماننے کو تیار نہ ہوا، دماغ گہری سوچوںمیں گم ہوگیا کہ ہم ابھی پروفیسر راز محمد راز اور عبدالباری اسیر کو بھولے ہی نہیں تھے کہ جیتا جاگتا ، ہنسا بستا فعال اور زندگی سے بھرپور پروفیسر عزیز مینگل چپکے سے کیسے کا تب تقدیر کے لکھے ہوئے وقت کے مطابق دُنیاوی دوستوں اور شاگردوں کو تنہا چھوڑ کر مستقلاً شہر ِ خموشاں کے مکین بن گئے جو ہم سب کا ابدی مسکن ہے۔
تو کیا گیا کہ رنگ ہی سارے بکھر گئے
تحریر کے تقدیر کے سارے ہُنر گئے !!!
وہ اِک ہجوم غم تھا کہ جب تو چلا گیا
تیری حکایتوں کے وہ موتی کدھر گئے
دیر یابدیر بالآخر ہم سب کو وہیں جانا ہے ۔ یوں دیکھا جائے تو پروفیسر عزیز مینگل کی رحلت کوئی انہونی نہیں ہے تاہم یہ انہونی میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھی ہے کہ کسی ادیب ، دانشور اور ماہر تعلیم کے انتقال پر قریبی اور متعلقہ حلقوں کے علاوہ عام آدمی تک اِس دُکھ کے کرہ، تکلیف اور خلاءکو محسوس کیا گیا ہے جو پروفیسر عزیز مینگل کے چلے جانے سے پیدا ہوا ہے ۔ پروفیسر عزیز مینگل کی شخصیت کے کئی حوالے اور Dimensions ہیں ۔ان کے فن اور فکر کی گہرائی قدرت کا ایک انمول عطیہ تھا۔ دیکھنے میں بہت ہی مخلص مگر بہادر ، نڈر اور ہمت والے پروفیسر عزیز مینگل بلوچی و براہوئی ادب کا وہ باکمال شخصیت تھا جن کی ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔انہوں نے ادب کی سبھی معروف اصناف کو اپنے منفرد اسلوب نگارش کا ذائقہ دیا ۔وہ زودنومیں قلم کا رتھے جہاں ان کا راہوار قلم ہر میدان میں سرپٹ دوڑاہے تو وہاں تحقیق و تخلیق کے میدان میں بھی قدم جماتھے۔ ہر طبقے میں ان کا دلی احترام پایا جاتا تھا کیونکہ وہ محض شاعر، ادیب نہیں بلکہ ممتاز ماہر تعلیم بھی تھے ۔ اِن کے دل و دماغ میں قوم و ملت کی پُر خلوص خدمت کا جذبہ زندگی بھر موجزن رہا۔ بطورِ پروفیسر جہاں پروفیسر عزیز مینگل نے درس و تدریس کے ذریعے اِس قوم کے نونہالوں اور نوجوانوں کی آبیاری خوب سے خوب تر کی تو وہاں بطورِ ادیب ، شاعر، مصور اپنے قلم سے قوم کی خدمت بھی حتیٰ المقدور کی۔
پروفیسر عزیز مینگل کی شخصیت کی ایک خاص پہلو اس کی مصوری بھی تھی ۔ مصوری ایک پُرخار دار وادی ہے جہاں مصور کو کئی مصیبتوں کا سامنا ہوتا ہے لیکن پروفیسر عزیز مینگل اِس میدان میں بڑے کامیاب نظر آئے ۔اپنے برش اور رنگوں کی اپنے احساسات سے اس معاشرے کی ترجمانی کی۔ ان کے فن پارے دیکھ کر ہم اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ انسانیت کا ضمیر جاگ رہا ہے۔ غریبی جہالت ، ظلم، بدی اور معاشرے کے بے جا رسوم و رواج ان سب برائیوں کو دور کرنے کی خواہش لکھنے والے کو قلم اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔ عزیز مینگل بھی کچھ اس طرح تھے جنہیں معاشرے کی بے جا رسموں کا دُکھ تھا اور وہ اِس دُکھ کا علاج قلم اور مصوری سے کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنا اورمعاشرے کا احتساب بھی کیا جیسے ہر نئے بچے کی پیدائش اِس بات کا ثبوت ہے کہ خدا انسانوں سے مایوس نہیں اس طرح ایک تخلیق کار بھی مایوس نہیں ہوتا اور فن خوب سے خوب تر کی طرف ایک مسلسل سفر کی صورت میں جاری رہتا ہے ۔ عزیز مینگل مرحوم ان ترقی پسند ادیبوں میں سے تھا جنہوں نے ادب کو زندگی سے اس طرح وابستہ کیا کہ ادیب معاشرے کے سامنے جوابدہ ہو۔ شاعروں اور ادیبوں نے قول وفعل میں مطابقت پیدا کی اور اپنے علم و عمل سے روشن خیالی پھیلائی تو ہم پرستی ختم کرکے سائینٹفیک بنیادوں پر سوچنے اور پرکھنے کا شعور دُنیا معاشرے میں حقیقت پسندی، سچائی اور صاف گوئی کو فروغ حاصل ہوا اور قومی اور سماجی تصور عام کیا ہمارے ہاں گذشتہ ساٹھ ستر سال میں لکھا جانے والا ادب بھی ہماری سماجی اور معاشرتی و سیاسی زندگی کا آئینہ ہے ۔ ادیبوں نے ہر دور میں سزائیں کاٹیں۔ عوام کی آرزوﺅں اور امنگوں کو آواز بخشی ۔آج ترقی پسندی ایک رویہ ایک سوچ ہے اور اس کی جھلکیاں ہماری عصری ادب میں نظر آتی ہے جن خوبصورت اور صحت مند ادبی معاشرے کا خواب پروفیسر عزیز مینگل نے دیکھا تھا وہی عزیز مینگل 6 نومبر 2014 کو شہر خموشاں کے مکین بن گئے ۔
مرحوم ایک حساس اور سنجیدہ ادیب تھے انہوں نے معاشرے کو بڑے قریب سے دیکھا تھا اور اپنی تحریروں اور مصوری میں معاشرے کے گھناﺅنے اور رستے ہوئے ناسوروں کی واضح نشاندہی کی تھی۔ میں بھی اِس خیال سے متفق ہوں کہ ” معاشرے کو صحیح راہ پر لانا آج کے ادیب اور مصور کا کام ہے “ اور اسی لےے انہوںنے کسی ایک موضوع پر لکھنا نہیں چاہا نہ اِس بات پر قناعت کی بلکہ بہت سے موضوعات پر لکھنا چاہا تاکہ یہ سب مستقبل کے ادیبوں کے کام آسکے۔ یہ باتیں جو بیان ہوئی ہیں ان میں عزیز مینگل مرحوم کی شخصیت کے جو ذاتی پہلو ہیں وہ اجاگر ہوتے ہیں ان کی شخصیت کا اہم رُخ اُن کی علمیت کا بھی تھا کیونکہ ان کی دوستیاں اہل قلم سے تھیں۔ کبھی بھی اپنی علمی برتری نہیں جتاتے۔ ان کی گفتگو بالکل سادہ اور معنی خیز ہوتی پہلی بار ملنے والے پر ان کی فضیلت پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا کیونکہ ان کا انداز گفتگو آسان اور گھریلو قسم کی علاقائی زبانوں کا آئینہ دار تھا۔ وہ اپنا مطلب اسی آسان زبان میں بڑی اچھی طرح سمجھا دیتے۔ انہوں نے کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ ثقیل و مشکل الفاظ استعمال کرکے لوگوں پر اپنی عالمانہ حشت واضح کریں ۔میں تو ان کی ذات اور زندگی کے حوالے سے دو تین باتیں کہنے اور کرنے کا تمنائی ہوں۔ پہلی بار تو یہ ہے کہ میں بھی عزیز مینگل کے ان ہزاروں ، لاکھوں نیاز مندوں اور مداحوں میں سے ہوں جو سدا اِس خوش فہمی میں رہا کہ جتنی محبت وہ مجھ سے کرتے ہیں وہ صرف میرا ہی اعزاز و افتخار ہے لیکن اب جبکہ وہ ہمیشہ کے لےے چلے گئے منکشف ہوا ہے کہ وہ تو سبھی سے ایک ہی طرح ٹوٹ کر دل کی گہرائیوں سے محبت و شفقت کا اظہار کیا کرتے تھے ۔ جہاں تک ان کی فنی زندگی کا تعلق ہے وہ اتنی ہمہ جہت بھرپور اور یادگار ہے کہ مُجھ جیسا طالب علم انہیں کیا خراج پیش کرے گا۔ صرف اتنا کہہ سکا ہوں کہ پروفیسر عزیز مینگل کی یادیں، باتیں تشنگان علم و ادب کے لےے مشعل راہ ہیں ۔ مرنے کے بعد کے واقعات کو جیتے بھی لکھ گئے تھے۔ فلسفیانہ، حکیمانہ، دانشمندانہ، فاضلانہ اندازِ گفتگو سُن کر پروفیسر عزیز مینگل کی علمیت و بُزرگی کا اعترا ف کرنا پڑتا ہے۔ زمانے نے بہت پڑھا بہت سُنا بہت اخبارات و جرائد میں دیکھا ۔ بقول شاعر
زمانہ بڑے شوق سے سُن رہا تھا
ہم ہی سو گئے داستان کہتے کہتے
نہ سونے والے بھی چل بستے، اہلِ وطن کے نوجوانوں نے مستفید ہونا تھا اب بھی علمی ، ادبی اور روحانی طور پر ہماری محفلوں میں موجود ہیں۔ جو لکھا جو پیش کیا غیر فانی ہے۔ ہنسنا ، مسکرانا بے شمارا مثال دے کر سامعین حاضرین ناظرین کو محظوظ کرنا مرحوم کا خاصا تھا۔ مجھے حلقہ ارباب ذوق اور اس طرح کے دیگر اداروں اور مجلسوں نے بہت کچھ دیا مگر سچی بات یہ ہے کہ وہ باتیں جو آپ لوگوں کے دل کو لگتی ہے وہ مجھے انہی لوگوں سے ملتی ہے کہ ان کا تعلق تلخ حقیقتوں اور ابدی سچائیوں سے براہ راست ہوتا ہے۔ آج ہم ایک عظیم قلمکار نامور ادیب ، مصور اور دانشور سے محرو م ہوگئے ان کا انتقال ناقابل ِ تلافی نقصان ہے ۔ عزیز مینگل جیسی شخصیتیں روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ وہ ایک اعلیٰ و ادبی اثاثہ تھے وہ ان چند مصنفین میں سے تھے جن کی تحریروں نے لوگوں کو متاثر کیا اورلوگ ان کی گفتگو اور نگار شات سے روشنی اور رہنمائی حاصل کیا کرتے ہیں ۔آپ کے جانے کے بعد ادبی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا اور آپ کی جو کمی محسوس ہورہی ہے قیامت تک پوری نہ ہوگی ، اہلِ ذوق اور صاحبانِ قلم کے ہاں ان کی کمی مدتوں تک محسوس ہوتی رہے گی۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پروفیسر عزیز مینگل کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور کروٹ کروٹ سکون نصیب ہو اور اہلِ خانہ کو صبر و جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *