عہد قایم کی صحیح تاریخ نامعلوم ہے کہ وہ کب شروع ہوئی ۔ تاہم دو اہم تبدیلیوں نے ما قبل تاریخ کے عہد قدیم تک کا سفر کا فرق ظاہر کردی ہیں وہ ہے کھیتی باڑی اور تحریر۔
ما قبل تاریخ 2.5 ملین سالوں سے جب انسان نے پتھر کے اوزار اور ہتھیار استعمال کرنے سے لے کر دس ہزار سال قبل جب انسان نے فصلیں اُگانا ( کھیتی باڑی ) سیکھا تک پھیلی ہوئی ہے ۔
تقریباً دس ہزار سال قبل انسان نے کھیتی باڑی سیکھی جس سے انسان کی زندگی میں تبدیلی آئی اور اس کا رہن سہن بدل گیا۔ کھیتی باڑی کے سیکھنے سے قبل انسان تمام دن شکار کی تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا اور جب ایک علاقے میں شکار نایاب ہوجاتا تو وہ دوسرے علاقے کی طرف منتقل ہوجاتے تھے۔
کھیتی باڑی کی دریافت سے انسانی زندگی میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئی۔ ایک تبدیلی تو ہتھیار کے استعمال اور قوت گویائی پہلے لائی تھی مگر زراعت نے انسان کی زندگی میں ایک بہت بڑا انقلاب برپا کیا۔ زراعت سے پہلے انسان تمام دن گھومتا تھا تاکہ اُسے خوراک کے لےے شکار ملے اور وہ شکار کرے۔ اب زراعت نے اُسے ایک جگہ رہنے پر مجبور کیا۔ وہ ایک جگہ میں بسیرا کرنے لگا ۔وہ گرم اور زرخیز علاقوں میں رہائش پذیر ہوا جو کہ دریاﺅں کے دریا کنارے تھے۔ اس کا بسیرا دریائے فرات ، دریائے دجلہ، دریائے نیل، دریائے سندھ ، دریائے بولان وغیرہ کے کنارے تھا۔
زراعت نے آبادی بڑھائی جس سے گاﺅں قصبہ میں اور قصبہ شہروں میں تبدیل ہونے لگا۔
1-Steven Mithen, “The Prehistory of the mind, The Guernsey Press, 1996, pp5
اب انسان کے پاس پہلے کی نسبت زیادہ وقت تھا۔ وہ سارا دن سرگردان شکار کی تلاش میں گزارا کرتا تھااور اب زراعت نے اسے زیادہ وقت مہیا کیا۔ اب وہ گھر اور عبادت گاہیں تعمیر کرنے لگا ۔ اب اس نے ایک دوسر ے کو اپنے عقائد اور تجربات سے آگاہ کرنا شروع کیا۔ جس نے علم کی بنیاد رکھی۔ جس سے تہذیب اور تمدن ابھرنے لگے۔ اُس نے دستکاری سیکھی ۔ وہ اب مینا کار ی کرنے لگا۔ آرٹ کا وجود۔ (مٹی سے برتن بنانے کا عمل شروع ہوا جسے بعد میںبھٹی میں پکایا جانے لگا) ۔ وہ کپٹر ے کاتنے لگا۔ کھال کی جگہ اب کپاس دھاگوں کے لباس نے لے لی۔ قریبی آبادیوں کے ساتھ تجارت شروع ہوئی۔ جس نے انسان سے پہیہ ایجاد کروایا جو کہ ایک اور تاریخ انقلاب تھا۔ اس سے رابطے زیادہ ہوئے اور فاصلے کم۔ وہ وزن جو انساں نہیں اٹھا سکتا تھا اب پہیہ کی ایجاد کے بعد چھکڑے کے ذریعے جانور میلوں دور تک لے جا سکتے تھے۔ تحریر نے اب رابطے کو اور آسان بنایا۔ پیغامات اب تحریر کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ بغیر کسی ردو بدل کے پہنچنا شروع ہوئے۔
ہم نے اوپر انسانی تاریخ کا شکار سے لے کر زراعت تک کا ایک مختصر جائزہ لیا۔ اب آئیے ہم آپ کو اس دور کی ایک تہذیب جو کہ دریائے بولان اور بولان درے کے دہانے پر واقع ہے متعارف کرواتے ہیں۔ اس تہذیب کو 1974میں جین فرالکوس ژہرگ اور کھیترائیں گاریخ نے جو کہ فرانسیسی آرکیالوجسٹ ہیں دریافت کیا ۔ انہوں نے ان آثار کی 1974 سے 1986 تک کھدائی کی اور پھر بعد میں مزید 1997 سے 2000 تک پھر اس کی کھدائی ہوئی ۔ جسے ہم مہر گڑھ کے نام سے جانتے ہیں۔مہر گڑھ تقریباً دو کلومیٹر) 495 ایکڑ) رقبے پر پھیلا ہوا ہے ۔ یہ سبی سے تقریباً30 کلومیٹر اور کوئٹہ سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
مہر گڑھ کے آثار کی کھدائی سے یہ ثابت ہوا کہ یہ جنوبی ایشیا ءکی ابتدائی زرعی تہذیب ہے جو کہ 7000 سال قبل مسیح سے 5000 سال قبل مسیح موجود تھی۔ جو اس سائٹ سے آثار ملے ہیں وہ تقریباً” چھ تہوں سے دریافت ہوئے ہیں جن کی تعداد تقریباً32000 نوادرات پر مشتمل ہے۔
مہر گڑھ کے آثار سے معلوم ہوا ہے کہ یہاں لوگ مٹی کے بنے ہوئے اینٹوں والے گھروں میں رہتے تھے۔ اپنی اناج مٹی کے بڑے مرتبانوں میں رکھتے تھے۔ یہ نقش و نگار کئے ہوئے اوزار جو کہ تانبے کے بنے ہوتے تھے۔ یہ برتن بنانے میں ماہر تھے اور مٹی کے چاک، برتن بنانے کے لےے استعمال کرتے تھے۔ ان کی تجارت و رابطہ شمالی افغانستان، جنوب مشرقی ایران اور جنوبی ایشیا سے تھے۔
مہر گڑھ کے آثار کو چار سے سات ادوار میں بانٹا گیا ہے۔
پہلا دور
I-A: Aceramic Neolithic
(C6500-6000 BC Mound MR-3)
دوسرا دور
I-B Ceramic Neolithic
(c6000-5500 BC Mound MR3
تیسرا دور
II: C5500-4500 BC mound MR4
چوتھا دور
III: Early Chalcolithic
c4500-3500 BC mound MR2
پانچواں دور
IV: VII Chalcolithic
C3500-2500 BC mound MR1
دریافت کئے گئے تاحال آثار ترتیب سے تقریباً گیارہ میٹر گہرائی جو کہ ساتویں اور تیسرے ملینیم ( ہزارواں) کے درمیان کے ادوار پر مشتمل ہیں۔
پہلا دور جو کہ 7000-5500 BC پر مشتمل ہے جو کہ Aceramicکہلاتا ہے میں برتن سازی نہیںہے۔ ابتدائی کھیتی باڑی اس علاقے میں کی جاتی تھی۔ لوگ نیم خانہ بدوش تھے اور گندم اور جوار کاشت کرتے تھے ۔ بکری اور بھیڑ ان کے پالتو جانور ہوتے تھے۔ اس دور کی جو قبریںدریافت ہوئی تھیں ان مدفونوں کے ساتھ رکھی گئی اشیا برآمد ہوئی ہیں جو کہ مردے کے ساتھ دفن کئے جاتے تھے۔ ان اشیا میں ٹوکریاں۔ پتھر اور ہڈیوں کے اوزار ، چوڑیاں، مہرہ وغیرہ اور قربان کےے جانور شامل تھے۔عورت کی بہ نسبت مرد مُردے کے ساتھ زیادہ اشیا دریافت ہوئے ہیں ۔ آرائش کے اشیا میں سیپی، چونے کے پتھر، فیروزہ ، لاجورد اور پالش کئے ہوئے تانبا بھی دریافت ہوئے ہیں اور ساتھ ہی مٹی کے چھوٹے مجسمے جو کہ عورت اور جانوروں کے ہوتے تھے۔ ایک قبر سے پتھر کی ایک کلہاڑی دریافت ہوئی اور اس قسم کی کئی اوپر سے ملےں۔ دوسرا دور5500-4800 BC اور تیسرا دور4800-3500 BC (Ceramic Neolithic) اب اس دور میں مٹی کے برتن استعمال ہونے لگے تھے۔ اشیا سازی کے شواہد ملے ہیں زیادہ ترقی یافتہ ہنر استعمال ہونے لگے ۔ زیادہ بہتر تراشے و پالش کئے ہوئے مُہرے اس دور میں استعمال کئے جاتے تھے۔ اب اس دور میں مٹی کے مجسمے زیادہ بہتر اور زیادہ Detail سے بنائے جاتے تھے۔ اب وہ عورت کے مجسمے کو رنگ کرتے تھے اور بال سنوار ے ہوئے اور زیورات کے ساتھ مجسمے ہوتے تھے۔ اس دور میں انسان نے پہلی مُہر بنائی تھی جو کہ پکی مٹی اور ہڈیوں کی ہوتی تھیں جن پر جیومیٹرک ڈیزائین ہوتے تھے ۔ اس دور میں جو ٹیکنالوجی استعمال ہوتی تھی اس میں پتھر اور تانبے کے ڈرل استعمال کئے جاتے تھے۔ اس دور میں بھٹی استعمال کئے جاتے تھے۔ اور اس کے علاوہ تانبے پگھلانے کے بھی بھٹی ہوتے تھے۔ اس دور میں دور دراز علاقوں سے تجارت کے شواہد بھی ملتے ہیں۔ جس کے شواہد فیروزہ و لاجورد ہیں جو کہ بدخشاں میں پائے جاتے ہیں۔
Check Also
خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل
میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...