Home » شونگال » زندگی یارمار بھی ہے

زندگی یارمار بھی ہے

جس شہر کی گلیوںمیں ایک آدھ آشنا چہرے گھومتے پھرتے نہ ہوں تو وہ شہراجنبیت کا صحرا ہوتا ہے ۔ آشنا انسان ہی شہر کو رہائش کے قابل بناتے ہیں۔ کمرہ خواہ ساکن ہو یا چلنے والا، کنکریٹ کا ہو یا لوہا پلاسٹک کا، کال بیل رکھتا ہو یا ہارن…….. ایک دوسرے انسان کے وجود کے بغیر صرف اور صرف قبر ہوتا ہے۔ وہ قبر خواہ ایدھی مردہ خانے کی یخ بستہ ہو یا سبی و ڈھاڈر کے جلتے سورج والی ، قبرتوقبر ہوتی ہے۔
پروفیسر عزیز مینگل کوئٹہ کو شہر کی شکل دینے والے لوگوں میں سے ایک تھا۔ آج کے شہر تو کپٹلزم کی بے ہنگم سڑاندبن چکے ہیں، مگر ایک زمانے میں کوئٹہ انسانوں، انسانی رویوں اور انسان خُلق و بھاری پن کا شہر ہوا کرتا تھا۔ عزیز مینگل یہاںباوقار گھومتا تھا، ترتیب کے ساتھ، توازن اور وضعداری کے ساتھ۔ جب تک شہر صاف تھا تو وہ بھی بے پرواہ گھومتا تھا،مگر جب ٹریفک و شور کی کثافت بڑھتی گئی تو عزیز جان بھی ناک اور منہ پہ رومال، اور کانوں آنکھوں میں نظر نہ آنے والے فلٹرفٹ کےے گھومتا تھا ۔ آلودگی خواہ فضا کی ہو یا نیت وارادوں کی اُسے زہرلگتی تھی۔ عزیز مینگل صاف مطلع کی صاف آکسیجن کا متلاشی رہتا تھا۔صاف مطلع والے اس شہر کوgraceاورشائستگی عطا کرنے والے سینکڑوں لوگوں میں عزیز جان بھی شامل تھا۔
بغیر تالا رکھے ایک ویسپا سکوٹر، جہاں چاہا موڑ دیا، جس دوست کے اڈے پہ چاہا پارک کردیا۔ شہر کی بڑھتی ہوئی مسافتوں نے تقاضا کیا تو ایک ننھی سی گاڑی لے لی۔ اور بڑھتی عمر نے مطالبہ کیا تو بیٹے جمیل کو ڈرائیونگ سیٹ پہ بٹھا یا اور خود ساتھ بیٹھ لےے۔
وہ جسمانی طور پر ، طبیعت میں، اور نیت میں ایک neatانسان تھا۔ وہ رواداری کا مجسم نمونہ تھا، برداشت ، خوش مزاجی، استدلال ، متانت و سنجیدگی کی مثال تھا۔ عزیز جاںنہ پتلا تھا نہ موٹا، نہ بہت طویل نہ پستہ قد۔ گوری رنگت کا عزیز ہر وقت اپنی چمکتی آنکھوں اور پرکشش چہرہ کے ساتھ، تبسم میں لپٹی نرم گفتار ی لےے ایک خوشگوار تاثر دیتا ملتا ۔ انجماد کو توڑتا ہوا عزیز، سکوت کو کفن کرتا عزیز، محفل دیوان اور مجلس کا عزیز، عزیز مینگل۔
پروفیسر عزیز مینگل کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ تعصب سے پاک تھا، نفرت سے دور تھا۔نیت ارادوں کا ستھرا انسان تھا۔ وہ اوہام پرستی کے سخت خلاف تھا۔ تعویذ، گنڈا، دم ، اورچلّہ کے بہت خلاف تھا۔ وہ کڑھتا رہتا تھا کہ ساری ریاست ( اور اُس کے ادارے یعنی عدالیہ، انتظامیہ پارلیمنٹ ، میڈیا) ہمہ وقت اِن ہتھکنڈوںمیں لگی ہے کہ کس کس طرح سے عام لوگوں کو جاہل رکھا جائے۔صرف ریاست نہیں بلکہ اس کے سارے بین الاقوامی اتحادی ( امریکہ، یورپ ، آئی ایم ایف، سعودی عرب اور ایران )اسی مقصد کے لےے پانی کی طرح پیسہ بہائے جار ہے ہےں۔…….. اور یہ شجر ایک دو برس سے نہیں بلکہ سو سال سے پانی اور کھاد پارہا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ ہرسُو جہالت کا دور دورہ ہے ۔ عام آدمی ہو یا فزکس کاپی ایچ ڈی ، ذرا سا کھودےے تو اندر سے توہمات کی بھری اوجھری ملے گی۔ خواہ عبدالقدیر ہو یا کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر۔ عام سپاہی سے لے کر جرنیل تک ، عام وکیل سے لے کر چیف جسٹس تک اور رپورٹر سے لے کر ایڈیٹر تک کسی نہ کسی ”فقیر“ کے دےے ہوئے منتر سے خود کو بیماریوں، اور آفات سے بچائے رکھتا ہے۔ اس ملک کا ہر شخص کالی بلی کی راہ کاٹنے سے ڈرتا ہے، بلاﺅں کو دور بھگانے دنبے کاٹتا ہے اور ایک نیم ہوش پیر پکڑتا (مرشد بناتا) ہے۔ہماری سرکاری و نیم سرکاری اکیڈمیوں میں لباس و خوراک و رہائش کی تاریخ کو زورزبردستی سے مذہبی بنا نے پر کتابوں پہ کتابیں چھپتی رہی ہیں۔ سائنس کانفرنسوں میںجنت کی حوروں کے ہیموگلوبن لیول کے اندازے لگائے جاتے ہیں۔یاخرگوشوں پہ تجربات کرکے کلونجی اور شہد شوگر کے مرض کی دوا قرار دے کر اعلیٰ ڈگریاں لی جارہی ہیں۔ اور چار کالی بکریوں کا صدقہ دے کر ایوانِ صدر میں داخل ہواجا رہا ہے۔عزیز کتنے بڑے سیلابی دریا کے خلاف سینہ سپر رہا تھا۔عزیز مینگل روشن فکر شخص تھا۔ وہ ملاّ، پیر اور سردار کی کرامت وغیرہ کو نہیں مانتا تھا۔ اسباب و علل کے نظرےے پہ چلتے ہوئے وہ حادثہ ، وقوعہ اور کرامت وغیرہ کو مسترد کرتے ہوئے ہر واقعے کا فطری قوانین کے پس منظر میں مطالعہ کرتا تھا۔
اس دانشور نے اپنی مادری قومی زبان براہوئی میں ادب کی تقریباً ہرصنف اور شعبے میں لکھا ۔ براہوئی زبان میں بہت دوستوں نے کام کیا ۔ مگر عزیز مینگل اور گل بنگلزئی سرِ فہرست ہیں۔ عزیزنے خیام کی رباعیات کو براہوئی میں منظوم کر ڈالا،ہمنگو ے کے ناول The old man and the sea کو براہوئی میں ترجمہ کیا۔ براہوئی کی سارے اصناف میں شاعری کی حتی کہ ہائیکو اور ماہےے میں بھی۔اس نے براہوئی میں افسانے لکھے، اُس کے قدیم الفاظ کو محفوظ بنایا۔عزیز مینگل کی کتابیں ہیں:شیشپہ،چبژہ، تلوسہ، شیروشکر، شیپانک، شوال، شمبلاخ ، برفیچ، جمجلائی، شلی، تلمل، چفنکہ، زبکہ، تیرونک، بیلی ، شوشکو، ماما مرجان،جلو نا جن،دغو جان، ذکری مذہب …………
مگر وہ لسانی موضوعات کا توسپیشلسٹ تھا۔بلوچستان بھر میں کوئی اور ایسا شخص نہ ہوگا جسے دو سے زیادہ زبانوں کی لسانیاتی ساخت و پرداخت کا علم ہو۔ اس شخص نے ” نُہ زبانی“ لغت لکھا تھا (اردو، براہوئی ،بلوچی ،پشتو ،فارسی، عربی، پنجابی، سندھی اور سرائیکی )۔پھر اُس نے براہوئی کے ہندی اور سنسکرت سے رشتے براہوئی اور فارسی کے تعلقات اور ” پنجابی براہوئی لسانی رشتے“ تحقیقی کتابیں لکھی ہیں۔
وہ یہ کتابیں زیادہ تر خود اپنی ہی جیب سے شائع کرتا تھا۔ مارکٹنگ کیا ہوگی، خود ہی مفت بانٹتا تھا۔
اُس شخص کی ایک اور قابلیت ٹی وی کمپیئر کی تھی۔ وہ براہوئی ڈرامہ لکھتا تھا، اداکاری کرتا تھا اور پروگرام کی میزبانی بھی کرتا تھا۔
عزیز مینگل قبائلیت کے سخت خلاف تھا،سرداریت اور اُس کی اتھارٹی کے خلاف تھا۔ وہ قبائلی نظام کے جامداور قدیم اور ایکسپائر رسوم و روایات کی پیروی کو اجتماعی موت گردانتا تھا۔وہ بلوچ عوام کو سائنس اور ٹکنالوجی میں بہت آگے دیکھنا چاہتا تھا ۔ ادب، موسیقی اور فنون ِ لطیفہ سے آشنا رکھنا چاہتاتھا۔ عزیز طبقاتی سماج کا خاتمہ چاہتا تھا۔ وہ امن انصاف اور برابری کے لےے کام کرتا تھا۔
سکوت و انجماد کا دشمن عزیزمہم جوئی کے بھی سخت خلاف تھا۔ وہ معروضی صورتحال کی مطابقت اور تقاضوں کے مطابق چلتے رہنے کے سائنسی فارمولے پر یقین رکھتا تھا۔
وہ بہت مرنجان مرنج شخض تھا۔ خوبصورت بلوچی، پشتو اور اردو بولتا تھا۔بولنے کا اُس کا انداز بہت دھیما، رواں، اور جاری ساری والا تھا۔بظاہر کم گو تھا جسے بلوچی میں ” گراں توار“ کہتے ہیں۔ مگر جب ایک بار بولنے لگتا تو ڈاکٹر خدائیداد کی طرح بولتا ہی چلا جاتا۔عزیز جان محفل مجلس و دیوان کا آدمی تھا۔ استادوں والا انداز ۔ علمی برتری نہ جتانے والا۔
وہ پیشے کے اعتبار سے بھی استاد تھا۔ درس و تدریس سے وابستہ تھا۔ ماہر تعلیم تھا۔ کمرشل کالج کوئٹہ میں بطور پرنسپل ریٹائرہوگیا۔مگر اسی سیلف میڈ عزیز نے بچپن میںلوہاروں کے ہاں ہتھوڑے چلانے کی مشقت کی تھی، موٹر گیراجوں میںپلگ پانے چلائے تھے۔…….. اور وہ کلرک بھی رہا تھا۔
اتنا خوش اخلاق، اتنا خوش گفتار کہ کسی کا نام روکھے سوکھے انداز میں نہیں لیتا تھا۔ وہ ہر ایک کے نام کے آخر میں لفظ” جان“ کا اضافہ کرتا تھا۔ ہمیں توشیریں لہجہ اپنانے کے بھرپور مواقع حالات نے بہت عطا کر رکھے۔ یہ عادت ماما عبداللہ جان نے پہلے ہی لگادی تھی۔عزیز جان اِس مکتب کی مدرسی میں نیا اضافہ تھا۔
پروفیسر سکندر کاسی نے بتایا کہ عزیز جان بہت اچھا جوڈو کراٹے کھیلتا تھا۔ اسی نے یہ بھی بتایا کہ عزیز مینگل سنوکر بھی بہت اچھا کھیلتا تھا۔
عزیز مینگل ابھی ڈیڑھ دو سال سے سنگت اکیڈمی آف سائنسز کے بہت قریب آگیا تھا۔ اور ہوتے ہوتے ایک لحاظ سے اُس کے رہنماﺅں میں سے ایک بن گیا تھا۔ اُسے اِس اکیڈمی کے احباب میں کافی اچھائیاں نظر آئیں۔ وہ اُس کی ہر میٹنگ میں لازمی طور پر شامل رہتا۔وہ سنگت رسالہ کے مواد میں بہت دلچسپی لیتا۔اُس کے اداریوں کی بالخصوص تعریف کرتا۔ سنگت بک شاپ کو کامیاب بنانے کے لےے ہر ماہ تین چار ہزار روپے کی کتابیں خریدتاتھا۔ اُسے اپنی پسند کی اچھی سرگرمی مل گئی تھی۔ وہ سنگت پوہ زانت کی ادبی محفلوں میں نہ صرف موجود ہوتا بلکہ تفصیل سے حصہ لیتا۔ ایک نیا حلقہِ احباب دریافت کرنے پر وہ بہت خوش تھا۔ زندگی کے آخر ی برسوں میں اُسے اپنی آئیڈیل جگہ مل چکی تھی۔ وہ شاہ لطیف کے اس فقرے پر پورا اتر رہا تھا:
تیز ہوائیں چل رہی تھیں۔ ریت نے جسم کو ڈھانپ لیا تھا ۔
جو کچھ معمولی سی زندگی رہ گئی وہ محبوب کو دیکھنے کے لےے ہے۔
اور یہاں ہمیں بھی ایک سینئر جہاں دیدہ،پرکھا آزمایا ہوا، کمٹڈساتھی ملا تھا ، ہم بھی بہت خوش تھے۔
اُس کا دوسرا ٹھکانہ ” بلوچستان سنڈے پارٹی“ کی محفلوں میں تھا جو ماما عبداللہ جان جمالدینی کے گھرہر اتوار کو منعقد ہوتی ہیں۔ گذشتہ پچیس برس سے ، لگاتار، مسلسل۔ عزیز جان اپنے اور ہم سب کے ایک اچھے دوست افضل مینگل کے ساتھ اتوار کو ہمارے درمیان موجود ہوتا ۔ وہ بہت سرگرم طور پر اس کے مباحث میں حصہ لیتا۔
پھر،عزیز جان رسالہ سنگت کے ایڈیٹوریل بورڈ کا ممبر بن گیا ۔ اورایک ڈیڑھ سال سے بورڈ کی میٹنگوں کی سمجھو صدارت اور راہنمائی اُسی نے سنبھال رکھی تھی۔
ہمیں بعد میں اندازہ ہوا کہ عزیز مینگل کو اپنے کینسر کی بیماری اور اُس کے آخری سٹیج کا پتہ تھا۔ وہ اپنی زندگی کے بقیہ آخری لمحے بھی انسانی بہبود پر لگانا چاہتا تھا۔ ماہنامہ سنگت اور سنگت اکیڈمی کے مورچے اُسے میسر آئے۔ اُس نے ہم سب کو رفیقانہ مشوروں اور راہنمائی کے چابک سے دوڑائے رکھا۔ ہماری سرگرمیوں میں اُس زمانے کی تیزی عزیز مینگل کی بدولت تھی۔
ہم گذشتہ سترہ سال سے ” سنگت “ نکال رہے ہےں، اُس سے قبل دس برس ”نوکیں دور“ نکالتے رہے۔ مگرانکساری میں ہم نے کبھی اِن رسالوں کے سالنامے شائع نہیں کےے۔ اس بار عزیز مینگل نے بہت اصرار کے ساتھ سالنامہ شائع کرنے پہ ہمیں قائل کردیا۔اور خوداس سالنامے کی تیاری کمیٹی کا چیئرمین بن گیا۔ اُس نے اچھی خاصی تگ و دو شروع کی۔ ایک دو میٹنگوں کی صدارت کی۔ ایک ایسی ہی میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ اگلا پورا سال اُسی کی خوبصورت پینٹنگز کو رسالے کا سرورق بنایا جاتا رہے گا۔ چنانچہ اُس نے اپنے بیٹے جمیل جان کے ذریعے اپنی بے شمار پینٹنگز کی تصاویر بھجوادیں۔
پھر اچانک یہ ہوا کہ وہ کمر درد کی کی شکایت کرنے لگا۔ ریڑھ کی ہڈی میںشدید درد۔ کرسی پر بیٹھنا بھی تکلیف دِہ ہوگیا تھا۔ اُس کا وزن تیزی سے گرنے لگا تھا۔ وہ کراچی گیا علاج کے لےے ۔ وہاں ہم فون پہ اس کی خیریت معلوم کرتے رہے۔ اس نے بتایا ( سچ نہ بتایا) کہ ریڑھ کے مہروں میں سے ایک ،ٹوٹا ہوا ہے ۔ وہاں ڈاکٹروں نے ریڈیوتھریپی کی اور درد مارنے کی بھاری دوائیاں دیں۔
عزیز جان واپس آیا۔ مگر اُس کی صحت بہت بگڑتی گئی۔
ہم نے اُس سے درخواست کی کہ اب وہ ” بلوچستان سنڈے پارٹی“ کی نشستوں میں نہ آیا کرے۔اُس نے یہ بات مان لی ۔ مگر وہ دوسری محفلوں میں مکمل طور پر نہ جاکر بھی، سنگت اکیڈمی کی پوہ زانت کی نشستوں، یا سنگت رسالہ کے ایڈیٹوریل بورڈ کی میٹنگوں میں زبردستی آتا رہا۔ اُس کا بیٹا بڑے عذاب سے اُسے موٹر سے اتارتا۔ میٹنگ کے دوران وہ کرسی پہ اکڑ کر بیٹھتا تھا۔ درد کی شدت سے بات تک نہ نکلتی تھی مگر وہ اپنی نحیف آواز میں بولتا ہی رہتا تھا بولتا ہی رہتا تھا۔
نومبر کی دو تاریخ کو سنڈے پارٹی کے سارے دوست اُس کے گھر گئے عیادت کے لےے۔عزیز مینگل کا گھر، گھر کے بجائے ایک آرٹ گیلری تھا۔مگر، آج ہم غم کی آماجگاہ پہنچ گئے تھے۔ ہنستا ہنساتا عزیز مینگل، وہ دلکش و دلفریب عزیز نہ تھا۔ وہ تو ایک پلنگ پہ پڑا سمجھو لاش لگ رہا تھا۔ حرکت نہ کرسکتا تھا۔ بس پھٹی آنکھوں سے ایک ایک کو پہچاننے کی کوشش کرتا، پہچان کر دیر تک ہاتھ پکڑے رہتا اورحال حوال پوچھتا رہتا۔وہ اُس روز اپنی تکلیف گویا بھول چکا تھا۔ اس نے بیٹے سے ہمیں اِس عظیم اور بھری ہوئی آرٹ گیلری گھمانے کو کہا۔
کیا پینٹنگز ہیں!۔ فرانسیسی سفارتخانے نے ڈھائی لاکھ روپے میں ایک مانگی تھا جو عزیز جان نے نہیں دی۔ پھر تیس چالیس پینٹنگز اس نے خوداپنے اشعار پہ بنائی تھیں۔ پینٹنگ کو الٹا کرو تو اُس کی براہوئی رباعی لکھی ہے …….. اس کے پورے گھر کے سارے کمروں کی چھتوں پہ ٹائلز لگی ہوئی ہیں۔ اور اُن ٹائیلوں پر گل کاری بھی عزیز کی اپنی ہے۔ اور ہم اُس کے ہاتھوںکا بوسہ لےے واپس لوٹے۔
ٹھیک چار دن بعد 6نومبر کواُس کے اپنے موبائل سے اُس کے انتقال کاٹیکسٹ آیا، اُس موبائل سے جہاں سے ہر روز وہ ایک اقوال ِ زریں کے ساتھ مجھے گڈ مارننگ کا میسج کیا کرتا تھا۔ چھ سات گھنٹہ قبل میں نے اُسے جلد صحت مندی کی خواہش کا میسج بھیجا تھا۔ جس کا جواب مگر،6نومبر کی صبح یہ آیا” پروفیسر عبدالعزیز مینگل انتقال کرگئے ہیں“۔وہ ٹیکسٹ میں نے سارے احباب کو بھیجا۔جیند خان کا ایس ایم ایس تھا:” بہت رنج کے ساتھ ہم سارے عزیز سنگتوں کو اطلاع دیتے ہیں کہ ہمارا عظیم سنگت اور سکالر پروفیسر عزیز مینگل ، ہمیں اداسی اور دکھ میں چھوڑ کراپنی دائمی زندگی کے لےے روانہ ہوا۔ اس کی تدفین سیٹلائٹ ٹاﺅن قبرستان میں گیارہ بجے ہوگی“۔
وہ دوبیٹیاں اور جمیل شہزاد نامی بیٹا اُن کی اولاد ،اور ہمارے بھتیجے بھتیجوں کے بطور چھوڑ گیا۔
عزیز جان کی کئی پیٹنگیں نا مکمل رہ گئیں۔ اُس کی کئی نظمیں ادھوری رہ گئیں۔اُس کی بہت ساری خواہشات، ارادے اور پراجیکٹ نیم مکمل رہ گئے۔ اُسی کے اصرار پر سنگت سالنامہ کی تیاری ہورہی تھی اور وہ اُسے بھی آدھے راستے میں چھوڑ گیا۔
قبرستان میں اُس کا بیٹا جب اشکبار آنکھوں سے مجھ سے بغل گیر ہوا تو کہنے لگا ”بابا آپ لوگوں کو اپنا“،” شہد جیسے میٹھے سنگت “ کہہ کر یاد کرتا تھا۔
یہ شمارہ ، سنگت کی لگاتاراشاعت کے اٹھارویں سال کا پہلا شمارہ ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ سالنامہ کا یہ ایڈیٹوریل طربیہ انداز کاہوگا۔ہمارا خیال تھا کہ ہم ماہنامہ ” سنگت“ ( اور اس سے قبل نوکیں دور سے وابستگی) کے اِن بیس بائیس سالوں کی سرگذشت کا خلاصہ لکھیں گے۔ اپنے وسائل ومسائل کے بارے میں بات کریں گے۔ رفیقوں اور ہاتھ بٹانے والوں کا تذکرہ کریں گے۔ ہم چاہتے تھے کہ بلوچستان میں موجود سیاسی، فرقہ واری، اور نسلی فساد میں حکومت اور دیگر منظم قوتوں کے رول کی طرف اشارہ کریں گے۔ساری کی ساری سیاسی پارٹیوں کے خالی پن کا تذکرہ کریں گے۔ انارکی اور افراتفری کی فضا میں فرد کی حتمی بے بسی اور ” اپنی خیر مانگو“ تک کی حیوانیت تک گر جانے کی تفصیل بتائیں گے۔
ہم یہ بھی چاہتے تھے کہ نواب مری کے انتقال کے بعد یہاں کی گوریلا تحریک میںاٹھنے والی باہمی رنجشوں جھگڑوں اور اُس کے نتیجے میں انارکی میں مزید بڑھانے کا خدشہ ظاہر کریں گے۔ ہم تخت پر بورژوازی کے عمران و نواز گروہوںکی آپسی رسہ کشی کے بارے میں لکھنا چاہتے تھے ۔ یہ اندازہ کرتے کہ ہمارا اگلا بادشاہ کون ہوگا؟۔ اسی طرح ہم اپنے بلوچستان کے اندر ہر شعبے میں ناکام حکومت کی ادب پر غیر معمولی توجہ کی تحسین بھی کرنا چاہتے تھے اور اس کی توجیہہ بھی دینا چاہتے تھے۔ہم دائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں میں پڑنے والی خوفناک دراڑوں کی طرف اپنے قاری کی توجہ مبذول کرانا چاہتے تھے۔ ملاّ فضل الرحمن کو قتل کرنے کی منصوبہ بندکوشش کے پیچھے عوامل جاننا چاہتے تھے۔ ہم اپنی اِس حیرت کا اظہار کرنا چاہتے تھے کہ کل یہی پارٹی درجنوں کے حساب سے لوگوں کو کافر قرار دیتی تھی، لوگوں کے نکاح ٹوٹ جانے کے فتوے صادر کرتی تھی۔ وہ پارٹی جو سٹوڈنٹس اور سرکاری نوکروں کو ننگے سر رہنے اور شیو کرنے پر مذہب کے دائرے سے خارج قرار دیتی تھی۔ آج خود اُنہی کفراورمذہب دشمنی کے فتووں کی زد میں کیوں کر آگئی۔ ہم پولیو ورکرز پر حملوں کے محرکات کی بابت پر بات کرنا چاہتے تھے۔ ہم بدامن بلوچستان میں موجودخشک سالی اور قحط کا تذکرہ کرنا چاہتے تھے۔
مگر اب حیران کہ بیس پچیس برس بعد اولین سالنامہ نکالنے کا پُراعتماد فیصلہ کرچکنے کے بعد اِس کا طرز کیا رکھا جائے۔ خوشی اور اطمینانِ اس لےے کہ ایک غیر یقینی سرزمین کی تما م تر غیر یقینیوں کے باوجود انسانی فلاح کا مشن ،بغیر بڑی باتیں اور دعوے کرنے کے ہم احباب ربع صدی تک چلا پائے ۔ (اور ہماری اِس مسرت کے حدوحساب کا اندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو شرفِ مردم کی خاطر ندّی کی مخالفت میں پچیس تیس برس تک تیر پاتے ہیں)۔
مگر یہی کٹھن اور جان گسل راہ، وفا کے جام بھی تو پلاتی ہے ۔ ایک یارِ وفادار کا بچھڑ جانا طرب و شادمیانی میں بجتے ڈھول پر غم کا کپڑا ڈال ہی دیتا ہے۔چنانچہ ہم اداریہ اپنے اُس پیارے ساتھی کی abituary کے بطور لکھنے پہ مجبور ہیں۔آنکھیں نم ہیںکہ انسانوں کا ایک ہنستا مسکراتا دوست،ہمہ وقت کام کرنے کو تیار ہمارا ساتھی پروفیسر عزیز مینگل ہم سے بچھڑ گیا۔…….. اس لےے بھی کہ ہم سنگت کے ایڈیٹوریل بورڈ پرنقش اُس کا نام کاٹ رہے ہےں۔”گویا اپنی جلد پر سے اُس کا نام کھرچ کر نکال رہے ہوں“۔

Spread the love

Check Also

زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا  امینی

ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...

One comment

  1. Being the citizen of Quetta we are very lucky for having Sangat …. because Sangat is not just a magazine but its also a scientific, social, art loving and permoting platform. In the recent political scenario when the role of media is polluting and producing confusion among social units, Its Sangat again providing a rational approach and direction to deprived and suppressed masses of Balochistan.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *