(شاہ محمد مری کی ایک کتاب پڑھ کر)
روایت ہے
پہاڑوں نے کبھی ہجرت نہیں کی
یہ بارش برف طوفاں سے نہیں ڈرتے
یہ خیمے چھوڑ کر اپنے
نہیں جاتے
کبھی نامہرباں افلاک پانی بند کردیں تو
نہ بارش کے خدا کا بت بناکر پوجتے ہیں اور نہ سبزہ زار میدانوں کو کوئی بھینٹ دیتے ہیں۔
یہ دشتی پیاس کو اک رسم کی صورت مناتے ہیں
یہ اپنی بھوک کو خود ہی نبھاتے ہیں
پہاڑوں کی رگوں میں سر کشی تازہ نہیں ہے
گلے میں قید اک آواز کا نوحہ پرانا ہے
یہ تم جو آج ان کو سر نگوں کرنے
نکل آئے
ہر اک رت سے نبھانے کی انھیں عادت
پرانی ہے
پہاڑوں کی بلندی گھڑ سواروں سے
کبھی بھی سر نہیں ہوتی
روایت کو بدلنا چاہتے ہو
پہاڑوں کی جڑیں پاتال تک گہری ہیں
دھرتی بھی اکھڑ سکتی ہے
کوشش میں۔۔۔
یہ دھرتی سے بھی گہرے ہیں
کسی فرہاد کو رستہ تو دے سکتے ہیں۔۔۔لیکن
دھول بن کر
اجنبی گھوڑوں کے پیروں میں
نہیں بچھتے۔۔۔۔۔۔