Home » پوھوزانت » معاشرہ اور عورت ۔۔۔ وحید زہیر

معاشرہ اور عورت ۔۔۔ وحید زہیر

عورت کا پہلا کام پہلی ذمہ داری سنبھلنا سنبھالنا۔ خاندان کے افراد کے ساتھ برابر چلنا۔ شوہر کے ساتھ سچی دوستی نبھانا۔ اولاد اور عزت کے لیے سختیاں جھیلنا۔ مدرسری ہو یا پدرسری نظام،وقار کے ساتھ جینا۔ خوشی اور غم میں خود کو ثابت قدم رکھنا، اعتبار، اعتماد کو مقدم رکھنا۔۔۔جنس کی تفریق کے بغیر یہ جملے ہر انسان کے لیے مقدم خیال کیے جاتے ہیں۔ انسانی خوبیوں کا تقدس اور احترامِ آدمیت معاشروں کا روز اول سے وطیرہ رہا ہے۔ تاریخ کوٹٹولیے مرد نے جہاں اپنے کام کا ج کے لیے اوزار بنائے تو خواتین نے خوبصورت کشیدکاری سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایاہے۔ جنگی ماحول میں مرد اور عورت دونوں کا حوصلہ وہمت مثالی رہا ہے۔ مرد قتل ہوا ہے تو عورت نے بدلہ لینے کی قسم کھائی ہے۔ مرد کی صوبتیں برداشت کرنے کے دوران برابر صوبتیں برداشت کیں ہیں۔ غربت اور تنگدستی میں خاندان کے ساتھ مِل کرآمنا صدقنا کیا ہے۔ مرد نے جنگی ترانے لکھے تو عورت نے لوریاں کہی ہیں۔ مرد نے ہل چلانے کا کام کیا ہے تو عورت نے فصل چننے میں مدد کی ہے۔ انگریز سے لے کر ظالم حکمرانوں کے خلاف عورتوں نے مردوں کے شانہ بشانہ جنگیں لڑی ہیں۔ عزت آبرو و حیا معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے وقار کے ساتھ جینے کا واحد پیمانہ رہا ہے۔

عورت قبائلی جنگوں کے کل بھی خلاف تھی آج بھی ہے۔ جنرل رانی اور حریم شاہ جیسی بدنامی سے پاک ہے۔ اگر اس سماج کی عورت کمزور ہوتی تو اس کا مرد اس سے کہیں زیادہ کمزور ہوتا۔ جدید دور میں عورت اسمبلیوں میں اپنی بساط کے مطابق برائیوں سے پلوبچا کر بیٹھی ہوئی ہے۔ کسی بھی قسم کی ملازمت اور کاروبار میں صاف اور باعزت رہنے کی تگ و دو میں ہے۔ یہاں کی عورت کے انہی اوصاف کے طفیل ابھی زیادہ برائیاں پیدانہیں ہوئی ہیں۔  سماج میں جب تک عورت کا احترام اور مرد پر اعتبار واعتماد کی فضا ء قائم رہے گی۔ معاشرہ میں مظالم کے خلاف مزاحمت ہوتی رہے گی۔ انصاف کے لیے آواز اٹھتی رہے گی۔ عورت جتنی بھی پڑھ لکھ جائے وقار کے ساتھ جیتی رہے گی کیونکہ سماج میں ماں کی لوریاں، بہنوں کے احترام کا فلسفہ ابھی باقی ہے۔ جن پر زندگی نہیں کھلتی وہی معاشرے بے راہ روی کا شکارہوتے ہیں۔ مہر گڑھ کے باسیوں پر زندگی روز اول سے کھلی ہے۔ یہ لوگ ترقی میں نادیدہ نہیں۔ نادید ے روٹی پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ نادیدے عورتوں سے سمگلنگ کرواتے ہیں، نادیدے عورتوں کا سیاحت کے نام پر سودا کرتے ہیں۔ نادیدے عورت پیش کر کے ٹھیکے حاصل کرتے ہیں۔ نادیدے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے عورت کا سہارہ لیتے ہیں۔

اور یہی نادیدے عورتوں کو استعمال کر کے باقی زندگی کسپرسی میں گزارنے پر مجبور کرتے ہیں۔ سرکس کے رقاصہ کے طور پر جو جوانی کی دھلیز پار کرتے بھیک منگوں میں شامل ہوتی ہے۔

حالانکہ اچھی تربیت، اوصاف اور محنت کے ساتھ بھی اپنے اہداف تک پہنچا جاسکتا ہے۔ مگر جب سہولت کاری کے لیے عورت جہاں کمزوریوں کے ساتھ موجود ہوتو محنت کی ضرورت کیا ہے۔مشرقی سماج میں ایسا  سوچنا موت ہے۔ گناہ عظیم، حرام ہے۔سماج کی ایسی ہی خوبیاں، عزت وعظمت دوسروں کو برداشت نہیں ہورہی جبھی تو یونیورسٹی جیسے سکنڈل برپا کیے جاتے ہیں۔ عورتوں کی تعلیم یافتہ ہونے کی راہ روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی انہیں ہاسٹلوں سے نکالنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو کبھی انہیں دیگر کو ناکردہ گناہوں میں پھنسا یا جاتا ہے۔ ہمارے سماج میں عورت محنت کش کے طور پر پہچان رکھتی ہے۔ دور دراز علاقوں میں طبی سہولیات نہ ہونے کے باوجود آج بھی تمام تکالیف برداشت کر کے بچے جن رہی ہے۔ میلوں دور سے پانی ڈھو ڈھو کر یہ ضرورت پوری کرر ہی ہے۔ جدید سہولیات سے محروم رہنے کے باجود گھر بار کی سہولیات میں آج بھی یکتا ہے۔ وہ سمو اور مست تؤکلی، بیبرگ وگرانا ز کی عشقی داستانوں کے ساتھ زندہ ہے۔ اپنے مردوں کو ہیرو بنانے میں آج بھی اس کا کردار سب سے اہم ہے۔ واقعی ہیرو وہیں جنم لیتے ہیں جس سرزمین کی آبادی میں عورت کا برابر کا حصہ ہوتا ہے۔ سماج میں عورت اپنے حصے کا کام ایمانداری اور جرات کے ساتھ کر رہی ہے۔

ہمارے معاشرے میں عورت کی مردوں سے زیادہ قربانیوں کی تاریخ نہیں لکھی گئی ہے۔ عورت کے صبر واستقامت کو تلاشنا ابھی باقی ہے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *