Home » کتاب پچار » پتھر کی سِل پر نام!۔۔۔عابدہ رحمان

پتھر کی سِل پر نام!۔۔۔عابدہ رحمان

کتاب کا نام:  عشاق کے قافلے

مصنف:  لپشینا، والووائے

ترجمہ:  ڈاکٹر شاہ محمد مری

صفحا ت:  296

 

ڈاکٹر شاہ محمد مری کی یہ کتاب یعنی ’عشاق کے قافلے‘  ان کے اولین تراجم میں سے ایک ہے۔ پہلی دفعہ یہ کتاب ’پتھر کی سِل پر نام‘  کے نام سے چھپی. بعد میں کچھ وجوہات کی بنا پر عنوان بدل دینا پڑا۔ مجھے ہمیشہ ’پتھر کی سِل پر نام‘ نے اپنی طرف کھینچا اور اس کو پڑھنے کا اشتیاق بڑھا۔لہٰذا میں اس کویہی نام کہوں گی اور ڈاکٹر صاحب سے خواہش کا اظہار کروں گی کہ وہ اگلی بار اسے اپنے اصل نام سے چھاپیں۔

میں بابا جان (ڈاکٹر شاہ محمد مری)  کے پاس بیٹھی تھی۔ گپ شپ لگاتے انھوں نے بتایا کہ لپشینا اور والووائے میاں بیوی تھے اور وہ دنیا کو دیکھنے نکل پڑے۔ انھوں نے سوویت یونین کے ایک شہر میں پتھر کی سِل پر کچھ نام لکھے دیکھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے نظام بدلنے میں اپنی زندگیاں گنوا دیں۔ یہی وہ وقت تھا جب ان دونوں نے سوچا کہ ان ساری شخصیات کے کارناموں کو Acknowledge کیا جائے اور ان پر لکھا جائے۔یوں اس کتاب کا جنم ہوا۔ اور میرا یہ خیال ہے کہ شاید اس کتاب کو پڑھتے وقت کا لمحہ تھا جب ڈاکٹر صاحب نے سوچا ہوگا کہ کیوں نہ ہم بھی اپنے لوگوں کو چاہے وہ دنیا کے کسی کونے میں بھی انسانیت کی بہتری کے لیے اپنی زندگیاں وار چکے ہیں اور وار رہے ہیں،کے بارے میں، ان کے کارناموں کے بارے میں لکھیں اور یوں ’عشاق کے قافلے سیریز‘ کا وجود ممکن ہوا۔

اس کتاب میں 19 سوشلسٹوں کے بارے میں لکھا گیا ہے جن میں مارکس اور اینگلز جو سوشلزم، کمیونزم کے بانی ہیں، شروعات انھی سے ہوتی ہے۔ان کے علاوہ ویلہلم لبنخت، فرڈینانڈلاسال، آگسٹ بیبل، توماسو کمپنیلا، جین ملئیر،جیرارڈ وینسلے، تھامس مور، سینٹ سائمن، ایڈوارڈ ویلنٹ، چارلس فیورئیر، جین جاریز، پائرے پرودھون، میخائل باکونن، نکولائی چرنی شیوسکی، پیاترا لا وروف، نکولائی میخائیلو فسکی اور جارجی پلیخانوف شامل ہیں۔

انقلاب کی راہ کے راہی چاہے کسی بھی کونے سے تعلق رکھتے ہوں،کم و بیش ایک سے حالات، ایک سی زندگی، ایک طرح کی مشکلات سے گزرتے ہیں۔ سب ہی مزدوروں کو منظم کرنے میں جتے رہے۔ سب ہی کا براہِ راست یا بالواسطہ اخبار کی اشاعت یا اس میں کام کرنے سے واسطہ رہا۔ تقریبا سب نے کتابیں لکھیں، پمفلٹس لکھے۔ تمام سوشلسٹ رہنما وقتاً فوقتاً وطن بدر رہے۔ اور ساروں کے ہی نصیب میں جیلوں کی کال کوٹھڑیوں کا اندھیرا رہا۔ اور ان سب کا سورس سوشلزم،کمیونزم کے بانی کارل مارکس ہی رہے۔ 5 مئی  1818ء کو ٹرائیر میں پیدا ہونے والے کارل مارکس نے 1843ء میں کہہ دیا کہ نجاتِ انسانیت سماج کی کمیونسٹ تبدیلی میں ہے اور اس تبدیلی کا موجب انھوں نے پرولتاریہ کو قرار دیا۔جرمن آئیڈیالوجی، کمیونسٹ مینی فیسٹو اور کیپٹل جیسی تصنیفات دے کر انھوں نے انسانیت کے لیے  ایک واضح راہ متعین کر دی۔

ظاہر ہے کہ اس راہ میں رکاوٹیں اور ثمر ایک جیسے ہی رہے لیکن یہاں یہ بات کہوں گی کہ اگر کسی بھی معاملے میں نظریہ درست نہ ہو اور رخ صحیح نہ ہو تو خرابی وہاں پیدا ہوتی ہے۔یہاں بھی کچھ ایسے نام شامل ہیں کہ وہ ساری زندگی کام میں مصروف بھی رہے، ان میں اپنے ساتھ لوگوں کو چلانے کی طاقت بھی رہی لیکن وہ کہیں غلطیوں کے مرتکب بھی ہوئے اور کہیں وہ کنفیوز رہے اور سوشلزم یا جدوجہد یا انسانیت کی اصل بقا کے موجب کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ جگہ جگہ ان سب پر مارکس، اینگلز اور لینن تنقید بھی کرتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی متحرک شخصیات کی تعریف بھی کرتے رہے۔ ایسے سارے لوگوں کو اس کتاب میں شامل کرنا بھی اس کتاب کی نمایاں خوبی ہے۔

چونکہ وہ اصل سوشلسٹوں سے ذرا مختلف ہیں اس لیے میں یہاں صرف انھی کا ذکر کروں گی۔

سینٹ سائمن کا رویہ سیاسی جدوجہد اور انقلاب کی طرف منفی تھا۔وہ یوٹوپیائی سوشلزم کا داعی تھا۔ اسی طرح چارلس فیورئیر بورژوا سماج میں سماج کی آزادی کی بات کرتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ غریب طبقے کو اجرتی غلام بنانے پر مجبور کیا گیا ہے۔ بورژوا سماج میں سماجی آزادی کی موجودگی کی بات کرتا تھا۔ کتاب میں لکھا گیا ہے کہ وہ اس بات کو نہیں سمجھ سکا کہ طبقاتی جدوجہد ہی تاریخ کی حتمی متحرک قوت ہے۔

لاسال کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہ اپنی ساری خوبیوں کے ساتھ ایک ریاکار بھی تھا اور یہ تب معلوم ہو اجب وہ طلاق کے ایک کیس کی پیروی کر رہا تھا۔گو کہ وہ مارکس و اینگلز سے مسلسل رابطے میں تھا لیکن پھر بھی اس پر اس کی شخصیات و تعلیمات کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اس کے قتل پر مارکس و اینگلز نے افسوس کا اظہار کیا تھا۔

کتاب پڑھتے ہوئے مجھے پتہ نہیں کہنا چاہیے کہ نہیں لیکن پائرے پرودھون اور میخائل باکونن کچھ کنفیوز اور اور سادہ سے لگے۔ پرودھون سرمایہ داری اور سوشلزم دونوں کو ساتھ لے چلنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ نجی ملکیت کی مخالفت کرتے کرتے وہ چھوٹی بڑی ملکیت کے چکر میں پڑ گیا۔بازاری بینک کا ڈرامہ رچا کر خود ہی خاموش ہو گیا۔ پرودھون نے تو لگتا ہے کہ سارا وقت خود کو، مزدوروں کو اور سرمایہ داروں کو بس مصروف ہی رکھا۔

باکونن کو پڑھتے ہوئے مجھے وہ پرودھون کا بھائی سا لگا۔ 1867ء میں اس نے امن و آزادی کی بورژوا امن پسند لیگ میں سرگرم حصہ لیاجسے انٹر نیشنل کا توڑ کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس نے انٹرنیشنل اور لیگ کو باہم ضم کرنے کا منصوبہ پیش کیااور دلیل دی کہ پرولتاریہ بوژوازی کو ان کی بورژوا جمہوری آزادیوں کی جدوجہد میں مدد دے گی اوراس کے جواب میں بورژوازی پرولتاریہ کی معاشی آزادی کو تقویت دے گی۔ وہ اپنے مقاصد کے لیے پرولتاریہ کی تنظیم کو استعمال کرنے کا سوچنے لگا اور ایسوسی ایشن کے اندر ایک خودساختہ غیر حقیقی پالیسی چلاتا رہا۔لیکن پھر بھی آخر میں باکونن کو انقلابی کہا گیا۔

یہ کتاب، اس کی ساری شخصیات پوری طرح سے کمیونزم کے فلسفے کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کی جدوجہد سے کمیونزم کا طالب علم قاری متاثر تو ہو جاتا ہے لیکن ساتھ بقولِ وحید زہیر صاحب کے کہ ’ماضی کے مزاروں پر پھول نچھاور کرنے کی بجائے، اس میں دفن شخصیات کی تعلیم اور جدوجہد کو کو نئے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے‘۔

جی ہاں ورنہ تعلیمات کو بھول کر، انھیں وقت کی ضرورت کے مطابق استعمال نہ کر کے یہ محض دھول دھمال ہی ہو کر رہ جائے گا!۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *