Home » کتاب پچار » سوب بلوچی

سوب بلوچی

گندم کی روٹی

محمد نعیم

عبدالستار پردی کے بلوچی ناول ”سوب“ کا اُردو ترجمہ ”گندم کی روٹی“ ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا جو اصل معنی اور مفہوم کے ساتھ زندہ ہے۔ مذکورہ ناول ہمارے سماج کی ایک ناقابل تردید حقیقت، فیوڈلزم کے چہرہ سے پردہ اٹھاتا ہے جو آج کے جدید دور میں بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ مختلف شکلوں میں موجود ہے۔

ناول گندم کی روٹی اس طبقاتی نظام (جو ہمارے ارد گرد مختلف صورتوں میں موجود ہے) کی ایک سچی اور حقیقی تصویر ہے۔ جیسے حاجی صاحب اپنے طبقاتی نظام کی پرورش اور بقا کے لیے غربت سے لاچار، مظلوم، کسانوں اور مزدوروں کو غربت کی چکی میں ڈال کر اور اپنے قرضوں کے دلدل میں دھنسا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا  زر خرید غلام بنا دیتا ہے۔ اور غریب کسان پیدا ہونے سے پہلے اپنے آباؤ اجداد کے قرض سے پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں اپنی ورثا کیلئے ایک نہ زختم ہونے والا قرضوں کا بوجھ چھوڑ جاتے ہیں۔

مذکورہ ناول میں دل مراد بھی ایسا ہی ایک غریب اور مظلوم کسان ہے جو اپنی پوری زندگی کی محنت کے بدلے میں صرف چند کاسہ گندم کا امیدوار تھا۔وہ اپنی چھوٹے بہن اور بھائیوں کی چند خواہشات کو پوری کرنے کی آرزد سے محنت کرتا تھا۔ لیکن حاجی خان جیسے طبقاتی نظام کے ماہر کھلاڑی اُسے اپنے جھوٹے قرضوں کے دلدل میں ڈال کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زر خرید غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سال بھر محنت مشقت کے بدلے میں پھر سے قرضوں کا بوجھ بے چارے دل مراد جیسے کئی مزدوروں کے کندھوں پر لاددیتے تھے۔

دل مراد ابھی اپنا حق حاصل کرنے سے دوسرے کسانوں کی طرح حاجی خان سے کتراتا تھا۔ چونکہ حاجی صاحب کا زکوۃ فور ملاعبدل حاجی خان صاحب کے ہر غلط کو صحیح کرنے کیلئے معصوم کسانوں کو قبر اور آگ سے ڈرا ڈرا کر ان کو ان کے حقوق سے محروم کرنے میں حاجی خان کے کام کو اور آسان بنا دیتا تھا۔

طبقاتی نظام اپنے اندر معاشرے کی تمام اہم شخصیات اور رتبوں کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتا ہے۔ جو کسی مذہبی سیاسی یا قبائلی شخصیت کے کردار میں موجود ہوتا ہے۔ جو طبقاتی نظام کی بقاء کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو صرف کرتا ہے۔ طبقاتی نظام کے سامنے کمزور انسان جی حضوری کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ غربت سے چور اور کمزور انسان جو شعوری طورپر قیدی بن چکے ہوں جو اپنے سردار، نواب اور وڈیرہ کے لفظ کو حرف آخر اور صحیح سمجھ کر قبول کرتا ہے۔

مذکورہ ناول میں جسے ملا عبدل کی بے ایمانی اور لالچ کی وجہ سے دل مراد کی بہن کی شادی ستر سالہ بوڑھے مرد سے محض چند جانوروں کے عوض کردی جاتی ہے۔ مظلوم بچی زندگی کے سفر سے تنگ آکر کودکشی کرتی ہے۔

طبقاتی نظام ہی خودکشی کو قتل کا رنگ دے اس کے بھائیوں کو سزا دیتا ہے۔

طبقاتی نظام کے مخالف غریب عوام کی یکجہتی اور متحد ہونا بھی طبقاتی نظام کی موت ہے۔ دیگر صورتوں میں یہ نظام نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔

Spread the love

Check Also

فلم بازار اور عورت کی منڈی۔۔۔ مریم ارشد

ہمیشہ سے یہی سْنتے آئے ہیں کہ زندگی مشکل ہے۔ لیکن زندگی مشکل نہیں ہے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *